بھارت کا صدارتی انتخاب
11 جولائی 2012عہدہ صدارت کے لئے 19جولائی کو ووٹ ڈالے جائیں گے جب کہ ووٹوں کی گنتی 22 جولائی کو ہوگی۔ موجودہ اور ملک کی پہلی خاتون صدر پرتبھا دیوی سنگھ پاٹل کی مدت کار 26جولائی کو ختم ہورہی ہے۔
بھارت کے تیرہویں صدر کے لئے 19جولائی کو ہونے والا انتخاب اس وقت پورے عروج پر ہے۔ گذشتہ صدارتی انتخابات کے برخلاف اس مرتبہ کا الیکشن کافی دلچسپ ہوگیا ہے۔ حالانکہ حکمراں کانگریس پارٹی کی قیادت والے متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی ای) کے امیدوار اور سابق وزیر خزانہ پرنب مکھرجی کا اس عہدے کے لئے کامیاب ہونا تقریباََ طے ہے لیکن ان کے واحد حریف اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی کے حمایت یافتہ امیدوارپورنو اے سنگما بھی کوئی کسر باقی نہیںچھوڑنا چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں دونوں امیدواروں کے حامیوں کی طرف سے الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ سنگما نے پہلے الزام لگایا کہ پرنب مکھرجی عہدہ صدارت کے لئے کاغذات نامزدگی داخل کرنے کے بعد بھی انڈین اسٹاٹسٹیکل انسٹی ٹیوٹ(آئی ایس آئی) کے چیئرمین کے عہدہ پرفائز رہے جو قانوناََ درست نہیں تھا۔ جب ان کا یہ الزام غلط ثابت ہوگیا تو سنگما نے کہا کہ پرنب مکھرجی نے چیئرمین کے عہدہ سے استعفی نامہ پر جو دستخط کئے ہیں وہ فرضی ہیں۔ پرنب مکھرجی کا اس پر جواب تھا کہ ’بھلا کوئی اپنا فرضی دستخط کیسے کرسکتا ہے‘۔سنگما نے پرنب مکھرجی کے نامزدگی کے طریقہ کار پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے ان کے کاغذات نامزدگی کو رد کرنے کی اپیل کی لیکن الیکشن کمیشن نے ان کی اس اپیل کو مسترد کردیا۔ پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا کے سابق اسپیکر اور خود کو قبائلیوں کا رہنما قرار دینے والے سنگما اب عدالت عظمی کا دروازہ کھٹکھٹانے پر غور کررہے ہیں۔ سنگما کا کہنا ہے کہ آخری وقت تک کوئی بھی ’چمتکار‘ ہوسکتا ہے۔
خیال رہے کہ ایک اعشاریہ دو بلین سے زیادہ آبادی والے بھارت میں صدر کا رول صرف ایک آئینی عہدہ تک محدود سمجھا جاتا ہے کیوں کہ تمام تر انتظامی اختیارات وزیر اعظم کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔اس لئے عام انتخابات کے برعکس عہدہ صدارت کے لئے ہونے والا انتخاب کسی شور شرابے کے بغیر خاموشی سے انجام پذیر ہوتا ہے۔
سیاسی امور کے ماہر اور یہاں جواہر لا ل یونیورسٹی میں عالمی سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر کمل مترا چینائے نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس مرتبہ صدارتی الیکشن نے جو دلچسپی پیدا کر دی ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ 2014 ء میں ملک میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ ملک میں مخلوط حکومت کا جو دور شروع ہوا ہے اسے دیکھتے ہوئے آنے والے کئی برسوں تک کسی ایک پارٹی کی حکومت کا امکان دور دور تک دکھائی نہیں دیتا ہے اور سیاسی اتھل پتھل کے دور میں حکومت سازی کے وقت بھارت میں صدر کا رول کافی اہم ہوجاتا ہے۔
حالانکہ اس صدارتی الیکشن میں کوئی نیا سیاسی اتحاد تو نہیں قائم ہوا لیکن بہر حال کئی پرانے سیاسی اتحاد میں دراڑیں ضرور پڑ گئیں۔ حکمراں کانگریس کی سب سے بڑی حلیف ترنمول کانگریس نے ریاستی مغربی بنگال سے تعلق رکھنے کے باوجود پرنب مکھرجی کی حمایت کا ابھی تک اعلان نہیں کیا ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن قومی جمہوری محاذ(این ڈی ای) کی اہم حلیف جنتا دل یونائیٹیڈ اور شیو سینا نے پرنب مکھرجی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ خیال رہے کہ جنتا دل یونائٹیڈ کے صدر شرد یادو این ڈی اے کے چیئرمین بھی ہیں خود کو سیکولر قرار دینے والی علاقائی پارٹیاں آل انڈیا انا ڈی ایم کے اور بیجو جنتا دل بی جے پی کی حمایت یافتہ سنگما کی تائید کررہی ہیں۔
افتخار گیلانی‘ نئی دہلی
ادارت: کشور مصطفیٰ