بھارت کا نیا ريکارڈ، ايک دن ميں کورونا کے سب سے زيادہ کيسز
30 اگست 2020
بھارت ميں پچھلے چوبيس گھنٹوں کے دوران کورونا وائرس کے 78,761 نئے کيسز سامنے آئے جو دنيا کے کسی بھی ملک ميں ايک دن ميں رپورٹ کيے جانے والے سب سے زيادہ کيسز ہيں۔ عالمی سطح پر متاثرين کی تعداد ڈھائی کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/M. Makhija
اشتہار
ايک دن ميں 78,761 نئے کيسز کے بعد بھارت ميں نئے کورونا وائرس کے متاثرين کی مجموعی تعداد پينتيس لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر ميں اب تک تريسٹھ ہزار سے زائد افراد اس مہلک مرض کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہيں۔
کورونا وائرس کے متاثرين کی عالمی تعداد ڈھائی کروڑ سے متجاوز
امريکا کی جان ہاپکنز يونيورسٹی کے اتوار تيس اگست تک کے اعداد و شمار کے مطابق دنيا بھر ميں کورونا وائرس کے متاثرين کی تعداد اب پچيس ملين سے تجاوز کر گئی ہے۔ ماثرين کی تعداد کے اعتبار سے امريکا 5.9 ملين کے ساتھ پہلے، برازيل 3.8 ملين کے ساتھ دوسرے اور بھارت ساڑھے تين ملين مریضوں کے ساتھ تيسرے نمبر پر ہے۔ يہ اعداد و شمار صرف تصديق شدہ کيسز کی بنياد پر مرتب کیے گئے ہيں۔ ماہرين کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے متاثرين کی حقيقی تعداد کہيں زيادہ ہو سکتی ہے۔
دنيا بھر ميں اب تک تقريباً ساڑھے آٹھ لاکھ افراد اس مہلک مرض کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہيں۔ امريکا ميں اب تک 182,779 افراد، برازيل ميں 120,262 اور ميکسيکو ميں 63,819 افراد کورونا کی وجہ سے جان کی بازی ہار چکے ہيں۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
بھارتی وزير اعظم کا احتياطی تدابير پر زور
بھارتی وزير اعظم نريندر مودی نے اتوار کو اپنے ماہانہ خطاب ميں عوام پر زور ديا کہ اس عالمی وبا کو شکست دينے کے ليے يکجہتی کی ضرورت ہے۔ ريڈيو سے نشر کردہ اپنے خطاب ميں مودی نے ماسک پہننے اور سماجی سطح پر فاصلہ برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور ديا۔
بھارت ميں ايک طرف کورونا کے کيسز ميں اضافہ جاری ہے تو دوسری جانب مشکلات کی شکار معیشت کو سہارا دينے کے ليے لاک ڈاؤن ميں نرمياں بھی کی جا رہی ہيں۔ ملکی وزارت داخلہ نے آئندہ ماہ سے سماجی، تفريحی، کھيلوں کے اور سياسی اجتماعات ميں ايک سو افراد تک کی شرکت کی اجازت دے دی ہے۔ بڑے شہروں ميں ميٹرو ٹرين سروس بھی سلسلہ وار بحال ہو رہی ہے۔ نئے قوانين کے تحت اسکول فی الحال بند ہيں مگر طلبہ رضاکارانہ بنيادوں پر اسکول جا کر اساتذہ سے مدد طلب کر سکتے ہيں۔
کورونا میں شادی، زندگی تو چلتی رہتی ہے
03:33
This browser does not support the video element.
بھارت ميں کيسز کيوں بڑھ رہے ہيں، ماہرين کيا کہتے ہيں؟
ايک اعشاريہ تين بلين کی آبادی والے ملک بھارت ميں طبی ماہرين کا کہنا ہے کہ اگرچہ ٹيسٹنگ ميں اضافہ قابل تعريف ہے مگر اس وبا سے نمٹنے کے ليے اضافی اقدامات درکار ہيں۔ ماہرين کا يہ بھی کہنا ہے کہ بڑے شہروں کے بعد اب وائرس چھوٹے شہروں اور ديہات ميں بھی تیزی سے پھيل رہا ہے۔
بنگالورو کے ڈاکٹر ہيمنت شوادے کے مطابق بھارت کو اپنے ہاں اس وبا کی وجہ سے شرح اموات کو تیزی سے کم کرنے پر توجہ دينا چاہيے۔
مختلف ممالک کے اسکول کورونا سے کیسے نمٹ رہے ہیں؟
موسم گرما کی تعطیلات ختم ہونے کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں اسکول دوبارہ کھل رہے ہیں۔ ایسے میں کورونا وائرس کے ایک اور مرتبہ پھیلنے کا بھی خطرہ ہے۔ مختلف ممالک کے اسکولوں کے حفاظتی اقدامات پر ایک نظر!
تصویر: Getty Images/L. DeCicca
تھائی لینڈ: ایک باکس میں کلاس
بنکاک کے واٹ خلونگ توئی اسکول میں پڑھنے والے تقریباﹰ 250 طلبا کلاس کے دوران پلاسٹک ڈبوں میں بیٹھتے ہیں اور انہیں پورا دن اپنے چہرے پر ماسک بھی پہننا پڑتا ہے۔ ہر کلاس روم کے باہر صابن اور پانی رکھا جاتا ہے۔ جب طلبا صبح اسکول پہنچتے ہیں تو ان کا جسمانی درجہ حرارت بھی چیک کیا جاتا ہے۔ اسکول میں جولائی کے بعد سے انفیکشن کا کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا۔
تصویر: Getty Images/L. DeCicca
نیوزی لینڈ: کچھ طلبا کے لیے اسکول
دارالحکومت ویلنگٹن کے یہ طلبا خوش ہیں کہ وہ اب بھی اسکول جا سکتے ہیں۔ آکلینڈ میں رہنے والے طلبا اتنے خوش قسمت نہیں۔ یہ ملک تین ماہ تک وائرس سے پاک رہا لیکن 11 اگست کو ملک کے سب سے بڑے اس شہر میں چار نئے کیس سامنے آئے۔ طبی حکام نے شہر کے تمام اسکولوں اور غیر ضروری کاروبار کو بند رکھنے اور شہریوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دے رکھا ہے۔
تصویر: Getty Images/H. Hopkins
سویڈن: کوئی خاص اقدامات نہیں
سویڈن میں طلبا اب بھی گرمیوں کی اپنی تعطیلات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ یہ چھٹیوں سے پہلے کی تصویر ہے اور حکومتی پالیسی کو بھی عیاں کرتی ہے۔ دیگر ممالک کے برعکس اسکینڈینیویا کے شہریوں نے کبھی بھی ماسک پہننے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ کاروبار، بار، ریستوران اور اسکول سب کچھ کھلا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/TT/J. Gow
جرمنی: دوری اور تنہائی
ڈورٹمنڈ کے پیٹری پرائمری اسکول میں یہ طلبا مثالی طرز عمل کی نمائش کر رہے ہیں۔ جرمنی کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے تمام اسکولوں کی طرح اس اسکول کے بچوں کے لیے بھی ماسک پہننا لازمی ہیں۔ ان کا تعلیمی سال بارہ اگست سے شروع ہو چکا ہے۔ فی الحال ان اقدامات کے نتائج کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Fassbender
مغربی کنارہ: 5 ماہ بعد اسکول واپسی
یروشلم سے 30 کلومیٹر جنوب میں واقع ہیبرون میں بھی اسکول دوبارہ کھل گئے ہیں۔ اس خطے کے طلبا کے لیے بھی چہرے کے ماسک پہننا ضروری ہیں۔ کچھ اسکولوں میں دستانوں کی بھی پابندی ہے۔ فلسطینی علاقوں میں اسکول مارچ کے بعد بند کر دیے گئے تھے جبکہ ہیبرون کورونا وائرس کا مرکز تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/H. Bader
تیونس: مئی سے ماسک لازمی
تیونس میں ہائی اسکول کے طلبا کی اس کلاس نے مئی میں ماسک پہننا شروع کیے تھے۔ آئندہ ہفتوں میں اس شمالی افریقی ملک کے اسکول دوبارہ کھل رہے ہیں اور تمام طلبا کے لیے ماسک ضروری ہیں۔ مارچ میں تیونس کے اسکول بند کر دیے گئے تھے اور بچوں کی آن لائن کلاسز کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Belaid
بھارت: لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے پڑھائی
مغربی بھارتی ریاست مہاراشٹر میں واقع اس اسکول ان بچوں کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں، جن کی انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے۔ یہاں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے انہیں پڑھایا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/P. Waydande
کانگو: درجہ حرارت کی جانچ کے بغیر کوئی کلاس نہیں
کانگو کے دارالحکومت کنشاسا کے متمول مضافاتی علاقے لنگوالا میں حکام طلبا میں کورونا وائرس کے انفیکشن کا خطرہ انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ ریورنڈ کم اسکول میں پڑھنے والے ہر طالب علم کو عمارت میں داخل ہونے سے پہلے درجہ حرارت چیک کروانا ہوتا ہے اور چہرے کے ماسک بھی لازمی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Mpiana
امریکا: متاثرہ ترین ملک میں پڑھائی
کووڈ انیس کے ممکنہ کیسز کا پتہ لگانے کے لیے ہر امریکی اسکول میں روزانہ درجہ حرارت کی جانچ کی جاتی ہے۔ اس طرح کے اقدامات کی اس ملک کو فوری طور پر ضرورت بھی ہے۔ دنیا میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ اموات اب بھی امریکا میں ہو رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Newscom/P. C. James
برازیل: دستانے اور جپھی
ماورا سلوا (بائیں) شہر ریو ڈی جنیرو کی سب سے بڑی کچی آبادی میں واقع ایک سرکاری اسکول کی ٹیچر ہیں۔ وہ گھر گھر جا کر اپنے طلبا سے ملنے کی کوشش کرتی اور انہیں ایک مرتبہ گلے لگاتی ہیں۔ انہوں نے اس کے لیے پلاسٹک کے دستانے اور اپر ساتھ رکھے ہوتے ہیں۔