متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف چار ماہ سے زیادہ عرصے سے دہلی کی سرحدوں پر مسلسل دھرنا دینے والے کسانوں نے اب پارلیمان تک مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
تصویر: Aamir Ansari/DW
اشتہار
بھارت میں متازعہ زرعی قوانین کے خلاف گزشتہ نومبر سے دہلی کی سرحدوں کا محاصرہ کرنے والے کسانوں اور حکومت کے درمیان تعطل بدستور برقرار ہے۔ اس دوران ڈھائی سو سے زیادہ کسانوں کی موت واقع ہو چکی ہے لیکن کسانوں کا کہنا ہے کہ قوانین کی واپسی تک ان کا دھرنا جاری رہے گا۔
چالیس سے زائد کسان یونینوں کی مشترکہ تنظیم متحدہ کسان مورچہ (ایس کے ایم) نے بدھ کے روز اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مئی کے پہلے دو ہفتوں کے دوران بھارتی پارلیمان کا محاصرہ کیا جائے گا، ”کسانوں اور مزدوروں کے علاوہ خواتین، دلت، قبائلی، بے روزگار نوجوان اور سماج کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد اس مارچ میں حصہ لیں گے۔ یہ پروگرام بالکل پرامن ہو گا۔“
ایس کے ایم کے رہنما ڈاکٹر درشن پال سنگھ نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے حکومت کے ’اڑیل‘ رویے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے کئی مواقع پر کسانوں کی تذلیل کے باوجود کسان اب بھی حکومت سے بات کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔
ڈاکٹر درشن پال سنگھ کا کہنا تھا،”ہم حکومت پر اعتماد کرتے ہیں کیوں کہ وہ ملک کے منتخب نمائندے ہیں، وہ ملک چلا رہے ہیں۔ اسی لیے ہم ان سے بار بار کہہ رہے ہیں کہ آپ کسانوں کی آواز سنیں، آپ ملک کے عوام کی آواز سنیں اور ان قوانین کو منسوخ کر دیں کیونکہ یہ کسانوں کے لیے موت کے مترادف ہیں۔“
نئی دہلی ایک جانب فوجی تو دوسری طرف ٹریکڑ پریڈ
01:41
This browser does not support the video element.
پارلیمنٹ مارچ
دراصل کسانوں نے یکم فروری کو پارلیمان میں عام بجٹ پیش کیے جانے کے دن ہی پارلیمنٹ مارچ کا فیصلہ کیا تھا لیکن اس سے پہلے ہی 26 جنوری یوم جمہوریہ کے دن کسانوں کی ٹریکٹر مارچ کے دوران تشدد کے واقعات پیش آنے کی وجہ سے اسے موخر کر دیا گیا۔
ایس کے یو نے اپنے بیان میں کہا کہ پارلیمنٹ کا محاصرہ کرنے کے لیے ملک بھر سے آنے والے لوگ دہلی سے ملحق تینوں سرحدوں پر یکجا ہوں گے اور وہاں سے ”پیدل‘‘ پارلیمنٹ تک مارچ کریں گے۔
اس سوال پر کہ حکومت تو کسانوں کے خدشات کو دور کرنے کے لیے ہمیشہ تیار ہے اس کے باوجود کسان حکومت کی باتیں کیوں نہیں مان رہے ہیں، کسان رہنما نے کہا، ”اب تک گیارہ ملاقاتیں ہو چکی ہیں لیکن حکومت کی طرف سے کوئی بھی اطمینان بخش جواب نہیں ملا ہے۔“
ڈاکٹر درشن پال کا کہنا تھا کہ حکومت کم از کم امدادی قیمت(ایم ایس پی) کو برقرار رکھنے کے بارے میں بیانات تو خوب دے رہی ہے لیکن وہ اسے برقرار رکھنے کے لیے قانون سازی کرنے کو تیار نہیں ہے اور”جب ہم نے ایم ایس پی پر زیادہ زور دیا تو انہوں نے بات ہی بند کر دی۔“
بھارت: کسانوں کا حکومت مخالف احتجاج جاری
بھارت کے متنازعہ نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج مسلسل جاری ہے۔ کسانوں نے قومی دارالحکومت کی سرحدوں کا تقریباً محاصرہ کر رکھا ہے۔ حکومت اور کسانوں کے درمیان بات چیت کے کئی دور ہو چکے ہیں لیکن تعطل برقرار ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ہار نہیں مانیں گے
قومی دارالحکومت کی سرحدوں پر بیٹھے کسان مظاہرین کا کہنا ہے کہ متنازعہ قوانین واپس لینے تک احتجاج جاری رہے گا اور وہ چھ ماہ کی تیاری کے ساتھ آئے ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
امید باقی ہے
کسانوں کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ حکومت نئے سیاہ قوانین واپس لے گی اور یہ احتجاج حکومت کے لیے آخری موقع ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ہم دہشت گرد نہیں
کسانو ں کی اس غیر معمولی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے طرح طرح کے الزامات بھی لگائے گئے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا میں یہ خبر بھی پھیلائی گئی کہ مظاہرین نے 'خالصتان زندہ باد‘ کے نعرے لگائے ہیں لیکن بعدازاں یہ خبر غلط ثابت ہوئی۔
تصویر: Mohsin Javed
نوجوانوں کی امنگیں
مظاہرے میں بڑی تعداد میں نوجوان بھی موجود ہیں۔ ان میں اعلی تعلیم یافتہ اور مغربی ممالک سے واپس لوٹ کر زراعت کو روزگار کا ذریعہ بنانے والے بھی شامل ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
خواتین بھی شانہ بشانہ
اس مظاہرے میں خواتین بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ان کا جوش و خروش قابل دید ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
زخمی مظاہرین
حکومت نے کسانوں کو دہلی پہنچنے سے روکنے کے لیے تمام حربے اور طریقے آزمائے۔ اس دوران آنسو گیس کے شیل لگنے سے کئی مظاہرین زخمی بھی ہوئے۔
تصویر: Mohsin Javed
مظاہرین کی آمد کا سلسلہ جاری
ملک کے مختلف حصوں سے مرد اور خواتین کسانوں کے قومی دارالحکومت آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ملک بھر کے کسان شامل
مودی حکومت نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ صرف پنجاب کے کسانوں کی تحریک ہے لیکن متعدد ریاستوں کے کسانوں اور مختلف تنظیموں نے اس میں اپنی شمولیت کا ثبوت پیش کیا۔
تصویر: Mohsin Javed
جنگ جاری رہے گی
”ہم اعلان کرتے ہیں کہ یہ ایک جنگ ہے اور یہ جاری رہے گی، جب تک مزدور کسان استحصال کا شکار ہیں۔" بھگت سنگھ
تصویر: Mohsin Javed
کھانے کی تیاری
مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ چھ ماہ تک رکنے کی تیاری کرکے آئے ہیں۔ انہیں کھانے پینے کی کوئی دشواری پیش نہیں آرہی ہے۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے جانے والے کسان رہنمااپنا کھانا بھی ساتھ لے کر گئے تھے اور حکومتی ضیافت کو ٹھکرا دیا۔
تصویر: Mohsin Javed
ذرا تازہ دم ہوجاوں
مظاہرین کی خدمت کرتے کرتے تھک کر ایک کسان تھوڑی دیر کے لیے آرام کرتے ہوئے۔
تصویر: Mohsin Javed
ماں کا آغوش
کسان زمین کو اپنی ماں سمجھتے ہیں اور نیند کے لیے ماں کے آغوش سے بہتر کون سی جگہ ہوسکتی ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
حالات سے باخبر
دھرنا اپنی جگہ، لیکن 'دیش اور دنیا‘ کے حالات سے باخبر رہنا بھی تو ضروری ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
علم کا کوئی بدل نہیں
مظاہروں کے ساتھ ساتھ حصول علم کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ مظاہرین نے 'روڈ لائبریری‘ بھی قائم کررکھی ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ڈاکٹر اور دوائیں بھی دستیاب
مظاہرے میں شامل ہزاروں افراد کے لیے صرف کھانے پینے کا ہی نظم نہیں ہے بلکہ کسانوں نے ان کی صحت کی دیکھ بھال کا پورا انتظام بھی کررکھا ہے۔ درجنوں ڈاکٹر اور طبی عملہ رضاکارانہ طور پر ہمہ وقت خدمت میں مصرو ف ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
سکیورٹی انتظامات
حکومت نے تمام سرحدو ں پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کررکھے ہیں۔ لیکن کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ فی الحال دہلی میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ سڑکوں پر ہی بیٹھے رہیں گے۔
تصویر: Mohsin Javed
کنگنا رناوت پھنس گئیں
بالی ووڈ اداکارہ کنگنا رناوت نے مظاہرین کے خلاف ایک ٹوئٹ کیا جس کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی زبردست نکتہ چینی ہورہی ہے۔ کنگنا نے گو اپنا ٹوئٹ واپس لے لیا ہے لیکن مظاہرین اب بھی ناراض ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
'گودی‘ میڈیا سے ناراضگی
کسان حکومت نواز میڈیا سے سخت ناراض ہیں۔انہوں نے ایسے ٹی وی چینلوں کا بائیکاٹ کررکھا ہے۔ بھارت میں 'گودی میڈیا‘ حکومت نواز میڈیا کو کہتے ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
'سوچھ بھارت‘
وزیر اعظم نریندر مودی کی مہم 'سوچھ بھارت‘ کی عملی تصویر۔ کسان خود ہی صفائی ستھرائی بھی کررہے ہیں۔
ٹیکسٹ: جاوید اختر تصاویر: محسن جاوید
تصویر: Mohsin Javed
19 تصاویر1 | 19
حکومت کا موقف
مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کسان رہنما، جس دن اس مسئلے کو حل کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے، اسی دن تعطل ختم ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا، ''حکومت بھی راستہ تلاش کر رہی ہے۔ مرکز بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے اور چاہتی ہے کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے۔“
لیکن کسانوں کا کہنا ہے کہ حکومت پہلے تینوں متنازعہ زرعی قوانین واپس لے اور ایم ایس پی کے متعلق قانون بنائے۔
دریں اثنا ان متنازعہ زرعی قوانین کا جائزہ لینے کے لیے سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ ماہرین کی کمیٹی نے اپنی رپورٹ عدالت عظمی کو ایک مہر بند لفافے میں پیش کر دی ہے۔ اس رپورٹ پر پانچ اپریل کو سماعت ہو گی۔ فروری میں قائم کردہ اس کمیٹی نے کسانوں کی 65 تنظیموں سے مشورے کرنے کا دعوی کیا لیکن ایس کے ایم نے اس کمیٹی پر حکومت کی حامی ہونے کا الزام لگاتے ہوئے ابتدا میں ہی اس میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔
کسانوں کے احتجاج ميں عورتيں بھی پيش پيش
03:00
This browser does not support the video element.
کسانوں نے عارضی مکانات تعمیر کر لیے
حکومت اور کسانوں کے درمیان تعطل کے خاتمے کے آثار دکھائی نہ دینے کی وجہ سے مظاہرین نے بعض علاقوں میں سڑکوں کے کنارے پختہ مکانات تعمیر کرنے شروع کر دیے تھے۔ انتظامیہ نے اس کے خلاف کئی مقامات پر مقدمات درج کیے ہیں، جس کے بعد ایس کے ایم نے کسانوں کو دھرنے کے مقامات پر مکانات تعمیر نا کرنے کی ہدایت دی ہے۔
حکومت غلط فہمی میں نہ رہے
کسانوں کا کہنا ہے کہ ان کی تحریک پرامن ہے اور جب تک حکومت کسانوں کی باتیں نہیں مانے گی وہ اس وقت تک دہلی کی سرحد سے نہیں اٹھیں گے۔ کسان رہنما مہندر سنگھ ٹکیت نے کہا کہ حکومت اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ کسان دہلی کی سرحد چھوڑ کر چلیں جائیں گے۔
انہوں نے کسانوں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ”حکومت کو لگتا ہے کہ کسان گرمیوں میں گھر لوٹ جائیں گے۔ پہلے بھی انہوں نے سوچا تھا کہ سخت سردیوں میں ہم گھر چلے جائیں گے۔ لیکن ہم کہیں نہیں جا رہے۔“ ٹکیت نے الزام لگایا کہ حکومت کسان تحریک کی مدد کرنے والوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
ہم پر انگلی کيوں اٹھائی؟ مودی حکومت کی طرف سے عالمی شخصیات کی مذمت
بھارتی کسانوں نے متنازعہ زرعی اصلاحات کی مخالفت ميں دو ماہ سے زائد عرصے سے نئی دہلی کے مضافات ميں دھرنا دے رکھا ہے۔ کئی عالمی شخصيات نے کسانوں کے حق ميں بيانات ديے، جنہیں مودی حکومت نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S.Radke
اہم شخصيات کی حمايت اور بھارت کی ناراضگی
سوشل ميڈيا پر مشہور گلوکارہ ريحانہ اور سويڈش ماحولیاتی کارکن گريٹا تھونبرگ سميت کئی اہم عالمی شخصيات نے بھارت ميں سراپا احتجاج کسانوں کی حمايت کی۔ بھارتی حکومت نے اسے اپنے اندرونی معاملات ميں ’دخل اندازی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Ivanov
اصلاحات يا کارپوريشنوں کا مفاد؟
گزشتہ برس ستمبر ميں بھارتی حکومت نے زراعت کے شعبے ميں نئے متنازعیہ قوانین وضع کیے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ اقدامات بڑی بڑی کارپوريشنوں کے مفاد ميں ہيں۔ کسانوں نے دو ماہ سے زائد عرصے قبل دارالحکومت دہلی کے نواح ميں اپنا احتجاج شروع کيا۔ مگر وزيراعظم نريندر مودی ڈٹے ہوئے ہيں کہ اصلاحات کسانوں کے مفاد ميں ہيں اور انہيں واپس نہيں ليا جائے گا۔
تصویر: Manish Swarup/AP Photo/picture alliance
نيا قانون کيوں متنازعہ؟
کسانوں تنظیموں کا موقف ہے کہ نيا قانون اس بات کی گارنٹی نہيں ديتا کہ زرعی پيداوار کسی کم از کم قيمت پر بک سکے گی، جس کے باعث وہ کارپوريشنوں کے چنگل ميں پھنس جائيں گے۔ اپنے مطالبات منوانے کے ليے کسانوں نے کئی ريلياں نکاليں۔ چھبيس جنوری کو بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر ايک ريلی ميں ہنگامہ آرائی کے بعد سے ماحول کشيدہ ہے۔
تصویر: Danish Siddiqui/REUTERS
ريحانہ
باربيڈوس کی معروف پاپ اسٹار ريحانہ نے حال ہی ميں بھارتی کسانوں کی حمايت کا اظہار کيا۔ انہوں نے ٹوئيٹ میں کہا، ’’ہم اس بارے ميں بات کيوں نہيں کر رہے؟‘‘ عالمی سطح پر ان کی اس ٹوئيٹ کو کافی سراہا گيا مگر بھارت ميں کئی نامور ستارے اپنے ملک کے دفاع ميں بول پڑے اور ريحانہ کے خلاف کافی بيان بازی کی۔
تصویر: picture alliance/dpa/A.Cowie
گريٹا تھونبرگ
اٹھارہ سالہ ماحول دوست کارکن گريٹا تھونبرگ نے بھی ايک ٹوئيٹ ميں بھارتی کسانوں اور ان کی تحريک کی حمايت کی، جس پر حکمران بھارتی جنتا پارٹی کافی نالاں دکھائی دے رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Hitij
جسٹن ٹروڈو
کينيڈا کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو نے دسمبر ميں کسانوں کی حمايت ميں بيان ديتے ہوئے دھرنے پر تشويش ظاہر کی۔ اس پر بھارتی وزارت خارجہ نے بيان جاری کيا کہ ٹروڈو کا بيان بھارت کے اندونی معاملات ميں دخل اندازی ہے۔
تصویر: Sean Kilpatrick/The Canadian Press/ZUMAPRESS.com/picture alliance
امانڈا سرنی
انسٹاگرام اسٹار امانڈا سرنی نے اپنے اکاؤنٹ پر تين بھارتی خواتين کی تصوير شيئر کی، جس پر لکھا تھا کہ ’دنيا ديکھ رہی ہے۔ آپ کا يہ مسئلہ سمجھنے کے ليے بھارتی، پنجابی يا جنوبی ايشيائی ہونا ضروری نہيں۔ صرف انسانيت کے ليے فکر ضروری ہے۔ ہميشہ آزادی اظہار رائے، آزادی صحافت، سب کے ليے بنيادی شہری حقوق اور ملازمين کے احترام کا مطالبہ کريں۔‘
تصویر: Scott Roth/Invision/AP/picture alliance
مينا ہيرس
امريکی نائب صدر کملا ہيرس کی بھانجی اور وکيل مينا ہيرس نے بھی ٹوئيٹ کی کہ ’ہم سب کو بھارت ميں انٹرنيٹ کی بندش اور کسانوں کے خلاف نيم فوجی دستوں کے تشدد پر برہم ہونا چاہيے۔‘
تصویر: DNCC/Getty Images
جم کوسٹا
امريکی ڈيموکريٹ سياستدان جم کوسٹا نے بھی بھارت ميں کسانوں کی تحريک کی حمايت کی ہے۔ انہوں نے وہاں جاری حالات و واقعات کو پريشان کن قرار ديا۔ خارجہ امور سے متعلق کميٹی کے رکن کوسٹا نے کہا کہ کسانوں کو پر امن احتجاج کا حق حاصل ہے اور اس کا احترام لازمی ہے۔
تصویر: Michael Brochstein/ZUMA Wire/picture alliance
روپی کور
چوٹی کی نظميں لکھنے والی بلاگر روپی کور نے ريحانہ کی جانب سے اس مسئلے پر روشنی ڈالنے کی تعريف کی اور خود بھی کسانوں کی حمايت ميں بيان ديا کہ بھارت ميں زراعت کا شعبہ مشکلات کا شکار ہے۔ گزشتہ دو برسوں ميں وہاں کئی کسان خود کشياں کر چکے ہيں۔
تصویر: Chris Young/The Canadian Press/AP Images/picture alliance
جان کيوسک
امريکی اداکار اور رضاکار جان کيوسک بھی اس سال جنوری سے بھارتی کسانوں کی تحريک کی حمايت ميں بيان ديتے آئے ہيں۔