1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی کسان بھوک ہڑتال پر مجبور

جاوید اختر، نئی دہلی
14 دسمبر 2020

بھارت میں حکومت کے متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا مظاہرہ پیر کو مزید شدت اختیار کرگیا اور ہزاروں کسانوں نے بھوک ہڑتال شروع کردی۔

Indien Demonstration gegen Landwirtschaftgesetze
تصویر: Mohsin Javed

متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف قومی دارالحکومت کی سرحدودں کا تقریباً محاصرہ کرلینے والے کسانوں کے احتجاج کا آج انیسواں دن ہے۔ کسانوں نے حکومت پر دباو ڈالنے کے لیے آج بھوک ہڑتال شروع کردی ہے اورملک بھرمیں ضلعی صدر دفاتر پر مظاہرے کررہے ہیں دوسری طرف حکومت جھکنے کے لیے آمادہ نظر نہیں آرہی ہے۔

کسانوں کے احتجاجی مظاہروں سے پیدا شدہ بحران کو دور کرنے کے لیے حکومت میں اعلی سطح پر میٹنگوں کا سلسلہ جاری ہے۔ آج پیر کے روز وزیر داخلہ امیت شاہ کی رہائش گاہ پر وزارتی گروپ کی میٹنگ ہوئی۔ اس کے بعد وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے علیحدہ سے بھی تبادلہ خیال کیا۔

 حکومت اور کسانوں کے درمیان بات چیت کے پانچ ادوار ہوچکے ہیں لیکن تعطل اب تک برقرار ہے۔ کسان تینوں متنازعہ قوانین کو واپس لینے سے کچھ بھی کم پر رضامند نہیں ہیں۔ دوسری طرف حکومت نے گو کہ آج کہا کہ وہ کسانوں سے بات کرنے کے لیے جلد ہی ایک بار پھر انہیں مدعو کرے گی تاہم یہ بھی واضح کیا کہ یہ قوانین کسی بھی صورت میں واپس نہیں لیے جائیں گے۔

وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بھارت کے اہم تجارتی اداروں کی انجمن ''فیڈریشن آف انڈین چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری‘‘ کے ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا”زرعی شعبے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے پیچھے ہٹنے کا سوال ہی نہیں ہے۔ مرکزی حکومت نے تینوں نئے زرعی قوانین کسانوں کے مفاد کے لیے بنائے ہیں۔"  مرکزی وزیر کا مزید کہنا تھا ”ہم اپنے کسان بھائیوں کو ہمیشہ سننے کے لیے، ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنے اور انہیں بھروسہ دلانے کے لیے تیار ہیں کہ ہماری حکومت ہمیشہ بات چیت کے لیے تیار ہے۔"

قانون واپسی سے کچھ کم منظور نہیں

کسان رہنماوں کا تاہم کہنا ہے کہ وہ زرعی قوانین کو واپس لینے سے کچھ بھی کم پر تیار نہیں ہوں گے کیونکہ بھارت میں بی جے پی سمیت تمام حکومتوں کے وعدوں کا سابقہ ریکارڈ انتہائی مایوس کن اور خراب رہا ہے۔

دہلی کے سنگھو بارڈر پر مظاہرہ پر بیٹھے کسان رہنما بلدیو سنگھ سرسا نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’اب حکومت کو ہی کچھ کرنا ہے، کسان کو نہیں۔ جب تک حکومت زرعی قوانین واپس نہیں لیتی ہے، ہماری تحریک جاری رہے گی۔ حکومت کسانوں کے صبر کا امتحان نہ لے۔"  انہوں نے مزید کہا کہ ”پہلے کسانوں کو پاکستانی کہا گیا، پھر کہا گیا کہ چین اس تحریک کو چلا رہا ہے اور اب حکومت کہہ رہی ہے کہ بائیں بازو کے انتہاپسند نکسلی اس کی قیادت کررہے ہیں۔ ہم اپنا پرامن احتجاج جاری رکھیں گے۔" کسان رہنما نے مزید کہا کہ احتجاجی مظاہرے شروع ہونے کے بعد سے اب تک گیارہ کسان اپنی جان قربان کرچکے ہیں۔

خیال رہے کہ بھارتی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے کل ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ 'ملک کے ٹکڑے کرنے کی کوشش کرنے والے گینگ‘ سے تعلق رکھنے والے جو لوگ شہریت ترمیمی قانون، آئین کی دفعہ 370 کی منسوخی اور رام مند ر کے خلاف تھے وہی بائیں بازو کے کردار کسانوں کی تحریک میں بھی شامل ہیں۔ انہوں نے ان کے خلاف سخت کارروائی کی دھمکی بھی دی۔

معاملہ سپریم کورٹ میں

کسانوں اور دیگر اپوزیشن لیڈروں کا کہنا ہے کہ ان قوانین کی وجہ سے کسان بڑی کارپوریٹ کمپنیوں کے مزدور بن کر رہ جائیں گے۔انہیں ابھی اپنے پیداوار کی کم از کم قیمت کی جو ضمانت حاصل ہے وہ ختم ہوجائے گی اور بڑے تاجر اپنی مرضی کے مطابق کسانوں کو اپنا اناج اور پیداوار فروخت کرنے کے لیے مجبور کردیں گے۔ کسانوں کی تنظیم بھارتیہ کسان یونین نے ان قوانین کو منسوخ کرنے کے لیے سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا ہے۔

دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان قوانین کی منظوری سے قبل ہی حکومت کو تنبیہ کی تھی کہ اسے کسانوں کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن اس کے باوجود حکومت نے اتنے اہم قوانین پر پارلیمان میں خاطر خواہ بحث کرانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی اورصرف پندرہ منٹ کے اندر 'غلط طریقے‘ سے اسے منظور کرلیا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ، گو کہ حکومت کسانوں کی اس تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے مختلف حربے آزما رہی ہے۔  ان پر طرح طرح کے الزامات عائد کرنے کے علاوہ ان کے اند ر پھوٹ ڈالنے کی بھی کوشش کررہی ہے تاہم کسان جس اتحاد کا مظاہرہ کررہے ہیں اور ان کی یہ تحریک جس تیزی سے ملک بھر میں پھیلتی جارہی ہے اسے دیکھتے ہوئے حکومت کا اپنے مقصد میں کامیاب ہونا آسان نہیں دکھائی دیتا ہے۔

جاوید اختر/ ک م

کورونا بحران، چینی کسانوں کے کاروبار کرنے کے انوکھے طریقے

03:50

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں