بھارت: کشمیریوں کے خلاف پرتشدد واقعات کا سلسلہ جاری
7 مارچ 2019تازہ واقعہ کل شام اترپردیش کے دارالحکومت لکھنو میں پیش آیا جہاں ہندو شدت پسندوں نے دو کشمیری نوجوانوں کو بری طرح پیٹ دیا۔ اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے چارملزموں کو گرفتار کر لیا ہے۔
وزیر اعلی یوگی ادیتیہ ناتھ کی قیادت میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنو میں کل چھ مارچ کی شام وشو ہندو دل نامی ہندو شدت پسند تنظیم کے کارکنوں نے سڑک کے کنارے خشک میوے فروخت کرنے والے دو کشمیری نوجوانوں کو اچانک پیٹنا شروع کردیا۔
جب لوگوں نے ان سے پوچھاکہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں توحملہ آوروں کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ کشمیری ہیں اسی لیے ہم انہیں پیٹ رہے ہیں کیوں کہ یہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں پر پتھراؤ کرتے ہیں۔ بہرحال کچھ لوگ کشمیری نوجوانوں کو کسی طرح بچا کر تھانہ لے گئے جہاں انہوں نے حملہ آوروں کے خلاف مقدمہ درج کرایا۔
حملہ آوروں نے ہی اس مار پیٹ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈالی اور اپنے اس ’کارنامے‘ پر فخر کا اظہار کیا۔ بعد میں یہ ویڈیو وائرل ہوگئی جس کے بعد کانگریس پارٹی، عام آدمی پارٹی، سماج وادی پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں نیز سماجی تنظیموں نے اس واقعے کی شدید مذمت کی اور ملزموں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔
پلوامہ میں 14فروری کو بھارتی نیم فوجی دستے پر ہوئے حملے، جس میں 45 سے زیادہ فوجی ہلاک ہوگئے تھے، کے بعد ملک کے مختلف علاقوں میں کشمیریوں کے خلاف تشدد کے واقعات پیش آئے تھے۔ شدت پسند ہندو تنظیموں سے تعلق رکھنے والے کارکنوں نے بھارت کے مختلف شہروں میں کشمیر سے آکر سامان اور میوہ جات فروخت کرنے والے چھوٹے موٹے تاجروں اور یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھنے والے کشمیری طلبہ کو نشانہ بنایا تھا۔ اتر پردیش میں بھی بریلی میں کشمیری دست کاروں کی ایک نمائش میں توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔
ان واقعات کے بعد سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کے علاوہ گیارہ ریاستوں کو نوٹس جاری کرکے کشمیریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ہدایت دی تھی۔ وفاقی حکومت نے اس پرعمل کرتے ہوئے تمام ریاستوں کو ایڈوائزری جاری کر کے بھارت میں رہنے والے کشمیریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے اور انہیں ہراساں کرنے کے واقعات کو روکنے کا حکم دیا۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک جلسہ عام سے خطا ب کرتے ہوئے کہا تھا، ’’ہماری لڑائی کشمیرکے لیے ہے، کشمیریوں کے خلاف نہیں۔ کشمیری بچوں کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔‘‘ اسی تقریر میں انہوں نے مزید کہا تھا، ’’کشمیر کا بچہ بچہ دہشت گردی کے خلاف ہے، ہمیں انہیں اپنے ساتھ رکھنا ہے، امرناتھ یاتریوں کو جب گولی لگی تھی تو کشمیر کے مسلمان خون دینے کے لیے قطاروں میں کھڑے تھے۔‘‘
وفاقی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا تھا، ’’کشمیر اور کشمیری ہمارے ہیں اور ہمارے ہی رہیں گے۔ میں ملک کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ کشمیری نوجوانوں کی سلامتی اور تحفظ کے ساتھ کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کریں گے۔‘‘
تاہم ان تمام یقین دہانیوں کے باوجود بھارت کے مختلف شہروں میں کشمیریوں کے خلاف تشدد کے واقعات رک نہیں ہو ہیں۔ اس کی ایک اہم وجہ نیوز چینلوں کے ذریعے کشمیریوں کے خلاف مبینہ طورپر پھیلایا جانے والا پروپیگنڈہ ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی رہنماؤں حتی کہ آئینی عہدوں پر فائز افرادکے اشتعال انگیز بیانات بھی کشمیریوں کے خلاف تشدد بھڑکانے کا سبب بن رہے ہیں۔
خیال رہے کہ میگھالیہ کے گورنر تتھا گت رائے نے اپنے ایک متنازعہ بیان میں کشمیریوں کے بائیکاٹ کی اپیل کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ بھارتی شہریوں کو کشمیریوں، کشمیری مصنوعات اور تاجروں کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔
لکھنؤ میں کشمیریوں کے خلاف تشدد کے تازہ واقعہ پر بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں بھی شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اپنی ٹوئیٹ میں لکھا،’’ایک طرف سڑکوں پر بجرنگ دل اور آر ایس ایس کے غنڈے کشمیریوں کی پٹائی کر رہے ہیں تو دوسری طرف اٹوٹ انگ کی باتیں کی جا رہی ہیں، اس طرح کام نہیں چلے گا۔ آرایس ایس اور بجرنگ دل کے غنڈوں کے ہاتھوں کشمیریوں کی کھلے عام پٹائی سے اٹوٹ انگ کا راگ پھیکا پڑجائے گا۔ جموں کشمیر میں بھارت کی امیج کو سب سے زیادہ نقصان اسی قسم کی ویڈیوز سے پہنچے گا۔‘‘
عمر عبداللہ نے ایک اور ٹویٹ میں لکھا، ’’محترم پی ایم صاحب، اس (تشدد)کے خلاف آپ نے زبان کھولی تھی لیکن یہ سب مسلسل ہو رہا ہے اور یہ اس ریاست میں ہو رہا ہے جس کا وزیر اعلیٰ آپ کا منظور نظر بندہ ہے۔‘‘
پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا، ’’بیرون ریاست کشمیریوں کو زد کوب کرنے اور ان کی تذلیل کرنے کا مقصد ملک میں انتخابات تک فرقہ پرستی کے زہر آلود ماحول کو قائم رکھنا ہے۔ اترپردیش کی راجدھانی لکھنو میں دوکشمیریوں کی پٹائی کرنے والے بھگوا کپڑوں میں ملبوس تھے اور وی ایچ پی سے وابستہ ہیں اور انہوں نے بلا خوف وڈر اس کا ویڈیو اپ لوڈ کیا۔‘‘
ایسے واقعات پر مرکزی حکومت کی خاموشی کو ایک سیاسی چال سے تعبیر کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ ’ایسے شر پسند عناصر کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تاکہ انتخابات تک ماحول کو فرقہ پرستی کے زہر سے آلودہ رکھا جاسکے‘۔ انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا، ’’جب کشمیریوں کو زدکوب کیا جارہا ہے ان کی تذلیل کی جا رہی اور انہیں یہ محسوس کروایا جارہا ہے کہ وہ مجرم ہیں اور اس ملک کے باشندے نہیں ہیں تو پھر جب وہ جنگجو تنظیموں کے زیر سایہ آتے ہیں تو ا س پر حیرانگی کیوں ظاہر کی جاتی ہے۔‘‘
انڈین ایڈمنسٹرٹیو سروس کے سابق افسر ڈاکٹر شاہ فیصل نے لکھنو واقعے کو قابل افسوس قرار دیتے ہوئے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ’’ان شر پسند جماعتوں نے ملک کی سیکولر ساخت کو تباہ کیا ہے اور کشمیری ان کے تازہ ٹارگیٹ ہیں۔‘‘ انہوں نے وزیر اعظم سے بجرنگ دل، وشو ہند پریشد اور دیگر شدت پسند جماعتوں پر پابندی عائد کرنے کی اپیل کی ہے۔ شاہ فیصل نے اقوام متحدہ اور امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ ان انتہا پسند تنظیموں کو دہشت گرد تنظیمیں قراردیں۔