بھارت: کشمیر میں صحافیوں اور میڈیا کے گرد گھیرا تنگ
24 جنوری 2022
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کئی سالوں سے صحافیوں کو مختلف دھمکیوں اور مشکلات کا سامنا ہے مگر سن 2019 میں جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے کشمیری صحافیوں کے لیے مشکلات میں نمایاں اضافہ ہوا۔
اشتہار
کشمیری صحافی سجاد گل کا قلم گزشتہ پانچ برسوں سے اپنے آبائی علاقے کی صورتحال بیان کر رہا ہے۔ اس ہمالیائی خطے میں گزشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصے سے ایک پرتشدد بغاوت اور اس کے خلاف بھارتی فوج کی مسلح کارروائیاں جاری ہیں۔
سجاد گل کی جبری گرفتاری
جموں و کشمیر میں اس کی ایک مثال رواں ماہ کے دوران سردیوں کی ایک شب کو اس وقت دیکھی گئی جب سجاد گل کے گھر کے دروازے پر اچانک دستک ہوئی اور بھارتی فوجی اپنے ہتھیاروں کے ساتھ ان کے گھر میں زبردستی داخل ہوگئے۔ ان کا گھر سری نگر سے تقریباﹰ بیس میل کے فاصلے پر حاجن نامی گاؤں میں واقع ہے۔ سجاد کی والدہ گلشانہ نے بتایا کہ فوجیوں نے ان کے بیٹے کو جبری طور پر گاڑی میں دھکیلا اور پھر انہیں اپنے ساتھ لے گئے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں صحافی اکثر عسکریت پسند باغیوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جاری لڑائی کے بیچ تشدد کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ لیکن اگست سن 2019 کے بعد میڈیا اور صحافیوں کے لیے صورتحال مزید بگڑتی جا رہی ہے، کیونکہ اس وقت بھارتی حکومت نے بھارتی زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے وادی میں سکیورٹی اور مواصلاتی لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا۔
میڈیا کنٹرول کرنے کی منظم کوشش
اس متنازعہ اقدام کے ایک سال بعد، حکومت کی نئی میڈیا پالیسی کے ذریعے آزادانہ اور غیر جانبدار رپورٹنگ کو روکنے کے لیے پریس کو زیادہ مؤثر طریقے سے کنٹرول کرنے کی واضح کوششیں شروع کر دی گئیں۔ اس دوران انسداد دہشت گردی کے سخت ترین قانون کے تحت درجنوں صحافیوں کو گرفتار کرکے پوچھ گچھ کی گئی اور اسی خوف کی وجہ سے مقامی میڈیا شدید دباؤ کا شکار رہا۔
نیویارک میں واقع صحافیوں کے تحفظ کی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کے معاون برائے ایشیا پروگرام اسٹیون بٹلر کہتے ہیں کہ بھارتی حکام صحافیوں کو اپنا صحافتی کام کرنے سے روکنے کے لیے کافی سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔ سی پی جے نے سجاد گل کی گرفتاری کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے، کشمیر میں آزادی صحافت پر قدغن اور صحافیوں کے خلاف مجرمانہ کارروائیوں کے خاتمے پر زور دیا ہے۔
بھارتی زیر انتظام کشمیر میں میڈیا چپ ہوتا ہوا
03:24
ادھر پولیس نے گل کے اہل خانہ کو بتایا ہے کہ انہیں 'لوگوں کو تشدد کے لیے اکسانے اور عوامی امن کو خراب کرنے‘ پر گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس نے اپنے بیان میں انہیں سوشل میڈیا پر ''غلط معلومات اور جھوٹا بیانیہ پھیلانے‘‘ کا عادی قرار دیا ہے۔
’میرا بیٹا مجرم نہیں، لکھاری ہے‘
اس سے قبل سجاد گل کو 11 روز تک حراست میں اس لیے رکھا گیا تھا کیونکہ انہوں نے ٹوئٹر پر ایک کشمیری عسکریت پسند کی ہلاکت کے نتیجے میں بھارتی حکومت کے خلاف کیے جانے والے مظاہرے کا ایک ویڈیو کلپ شیئر کیا تھا۔ مقامی عدالت نے بعد میں انہیں ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔
کشمیر میں پیلٹ کے متاثرین کی تاریک زندگیاں
04:16
This browser does not support the video element.
اس کے بعد حکام نے سجاد گل پر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ایک نیا مقدمہ قائم کردیا۔ اس قانون کے تحت حکام ملزم کو دو سال تک بغیر کسی عدالتی کارروائی کے قید میں رکھ سکتے ہیں۔ اس تمام معاملے پر سجاد گل کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا مجرم نہیں ہے بلکہ صرف ایک لکھاری ہے۔
متنازعہ علاقوں سے رپورٹنگ
پاکستان اور بھارت دونوں ہی کشمیر خطے کے مختلف علاقوں پر اپنے اپنے کنٹرول کا دعویٰ کرتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے تنازعے میں اب تک لاکھوں افراد کی موت ہوچکی ہے۔ ان تمام مشکلات کے باوجود کشمیری صحافی بہادری کے ساتھ رپورٹنگ کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ مگر سن 2019 کے بعد بعض صحافیوں کے خلاف بھارتی حکام نے فوجداری مقدمے درج کرنا شروع کردیے۔ اسی وجہ سے بہت سارے صحافی اپنے ذرائع بتانے پر مجبور ہوگئے اور بعض صحافیوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
اشتہار
’آزاد میڈیا پر براہ راست حملہ‘
سن 1954 سے شائع ہونے والے انگریزی اخبارکشمیر ٹائمز کی مدیر انورادھا بھاسن کے بقول، ''حکام نے ایک منظم خوف پیدا کر رکھا ہے اور آزاد میڈیا پر براہ راست حملہ شروع کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ ایک بھی تنقیدی لفظ کو برداشت نہیں کیا جاتا۔‘‘
’والدین بے یارومددگار میری راہ تک رہے تھے‘
03:17
This browser does not support the video element.
بھاسن نے سن 2019 کے بلیک آؤٹ کے بعد مختلف افراد کے ساتھ مل کر سپریم کورٹ میں مواصلاتی سہولیات کی بحالی کے لیے پٹیشن دائر کی تھی۔ اس بات کی ان کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑ ی۔ سری نگر میں ان کے اخبار کے دفتر کو حکام نے کسی نوٹس کے بغیر بند کردیا اور عملے کو کوئی بھی سامان باہر لے جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
بھاسن کہتی ہیں، ''وہ مقامی میڈیا کا قتل کر رہے ہیں، صرف ایسے اداروں کو چھوڑ کر جو حکومت کے اسٹینوگرافر بننے کے لیے راضی ہوجاتے ہیں۔‘‘
بھارت میں پریس فریڈم کی تنزلی
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دور حکومت میں، سن 2014 میں جب سے وہ پہلی بار منتخب ہوئے تھے، پریس کی آزادی میں مسلسل تنزلی نوٹ کی جارہی ہے۔ میڈیا پر نظر رکھنے والے ادارے رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی گزشتہ برس کی عالمی صحافتی آزادی کی درجہ بندی میں بھارت کو افغانستان اور زمبابوے سے بھی نیچے 142 ویں نمبر پر رکھا گیا تھا۔
’جموں و کشمير کے انضمام کا ادھورا خواب پورا ہو گيا‘
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ اس دوران کئی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ بھارتی سکیورٹی اہلکار اور کشمیری عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں کئی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Dar Yasin
وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا تھا
ایک سال قبل بھارتی حکومت نے بھارتی زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا۔ کشمیریوں کے پاس یہ خصوصی حیثیت صدراتی حکم کے تحت گزشتہ ستر سالوں سے تھی۔ بھارتی حکومت نے اس فیصلے کے فوری بعد کشمیری رہنماؤں کو ان کے گھروں میں نظر بند کر دیا ور بڑی تعداد میں گرفتاریاں بھی کی گئیں۔
تصویر: AFP/R. Bakshi
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع
لاک ڈاؤن کے فوری بعد بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر شدید کریک ڈاؤن کیا گیا۔ احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھارت کے دیگر علاقوں میں بھی پھیل گیا۔ مودی مخالف جذبات رکھنے والے سرگرم کارکنوں اور شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو واپس بحال کیا جائے۔
تصویر: Imago Images/S. Majeed
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس
اگست 2019ء میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے بھارت کے زیر انتطام کشمیر پر ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ بھارت کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سےشہریوں پر مبینہ تشدد
لاک ڈاؤن کے پہلے ماہ ہی برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ بھارتی افواج کی جانب سے سویلین شہریوں پر تشدد کیا گیا۔ اس رپورٹ میں بی بی سی نے ان مقامی افراد سے گفتگو کی جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ان پر بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے شدید تشدد کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا
ستمبر دو ہزار انیس میں پاکستان، برطانیہ، بھارت اور خود بھارتی زیر انتطام کشمیر میں بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ لاک ڈاؤن کے باعث کشمیر کی معیشت بد حالی کا شکار ہونا شروع ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
نیشنل کانفرس کے اراکین کو ان کی قیادت سے ملاقات کی اجازت
گزشتہ برس اکتوبر میں بھارتی حکومت نے نیشنل کانفرس کے اراکین کو ان کی قیادت سے ملاقات کی اجازت دی۔ اسی ماہ پولیس نے جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی بہن اور بیٹی سمیت کئی خواتین کو احتجاجی مظاہرہ کرنے پر گرفتار کر لیا۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
جموں و کشمير اب دو مختلف خطے بن گئے
اکتیس اکتوبر کو سرکاری طور پر بھارتی وفاقی حکومت کے احکامات لاگو ہوئے اور جموں و کشمير اب دو مختلف خطے بن گئے، ایک جموں و کشمیر اور دوسرا لداخ، جن کے انتظامات اب براہ راست وفاقی حکومت کے ہاتھ میں چلے گئے۔ اس حوالے سے بھارتی وزير داخلہ امت شاہ نے اس پيش رفت پر کہا، ’’جموں و کشمير کے انضمام کا ادھورا خواب آج پورا ہو گيا ہے۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustfa
مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان
نومبر میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق مودی حکومت کی طرف سے اگست 2019ء میں جموں کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے اعلان کے بعد صرف کشمیر میں سکیورٹی شٹ ڈاؤن کے نتیجے میں مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/M. Mattoo
انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کر دیا گیا
نومبر میں ہی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع لداخ کے خطہ کرگل میں ایک سو پینتالیس روز کے بعد انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کر دیا گیا۔ تاہم وادی کمشیر میں اس پر پابندیاں عائد رہیں۔ دسمبر میں اعلان کیا گیا کہ کشمیر میں موبائل فون کی ٹیکسٹ میسیجنگ سروس بحال کی جائے گی تاہم یہ بحالی بہت محدود تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/X. Galiana
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس
جنوری دو ہزار بیس میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک مرتبہ پھر کشمیر کی صورتحال پر اجلاس بلایا۔ اس موقع پر چین کی جانب سے کہا گیا کہ کشمیر کی قمست کا فیصلہ وہاں کی عوام کو کرنا چاہیے اور چین کشمیریوں کے حق رائے دہی کی حمایت کرتا ہے۔
تصویر: Imago Images/ZUMA Press/F. Khan
پاکستانی وزیر اعظم کا خطاب
رواں سال فروری میں بھارتی زیر انتظام کشمیر میں لاک ڈاؤن کو چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے پانچ فروری کو مظفرآباد میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا ہی ایک دن کشمیر کی آزادی کا سبب بنے گا۔‘‘
تصویر: AFP/Getty Images
عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر رہنماؤں کی نظر بندی کا سلسلہ جاری
بھارت کی جانب سے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر رہنماؤں کی نظر بندی کا سلسلہ جاری ہے۔ فروری میں ہی امریکی صدر کی جانب سے کشمیر کی صورتحال کا حل نکالنے کے لیے ثالثی کے کردار کی پیش کش کی گئی۔
تصویر: Getty Images/S. Hussain
انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں کچھ کمی
اس سال مارچ میں انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں کچھ کمی کی جاتی ہے۔ لیکن انٹرنیٹ کی انتہائی سست رفتار کے ساتھ۔
تصویر: Reuters/A.
نئے قوانین کا نفاظ
اپریل میں بھارتی حکومت کی جانب سے نئے قوانین کا نفاظ کیا جاتا ہے۔ نئے قانون کے تحت کوئی بھی شخص جو جموں اور کشمیر میں پندرہ سال تک رہائش پذیر ہوگا وہ کشمیری ڈومیسائل کا اہل بن جائے گا۔
تصویر: AFP/T. Mustafa
بھارتی فوجیوں اور چار کشمیری جنگجوؤں کی ہلاکت
مئی میں بھارتی سکیورٹی فورسز اور کشمیری جنگجوؤں کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں پانچ بھارتی فوجیوں اور چار کشمیری جنگجوؤں کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency/J. Dar
’بھارت جمہوریت کے امتحان میں ہار گیا’
اسی سال جولائی میں 'فورم فار ہیومن رائٹس ان جے اینڈ کے‘ نامی انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا تھا کہ کشمیر کئی لحاظ سے بھارتی جمہوریت کے لیے ایک امتحان رہا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت اس امتحان میں بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔
تصویر: AFP/T. Mustafa
بچے کی موجودگی میں اس کے نانا کی ہلاکت
جولائی میں ہی ایک چھوٹے بچے کی موجودگی میں اس کے نانا کی ہلاکت پر کشمیر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اس بچے کے نانا سکیورٹی افواج اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپ کا مبینہ طور پر نشانہ بن گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
چار اور پانچ اگست کے دوران سخت کرفیو نافذ
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں چار اور پانچ اگست کے دوران سخت کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ گزشتہ برس پانچ اگست کو ہی کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
’یوم استحصال‘
پاکستان کی جانب سے پانچ اگست کو ’یوم استحصال‘ کہا جا رہا ہے۔ آج پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا،’’ کشمیر کا معاملہ ہر فورم پر اٹھاتے رہیں گے۔‘‘ وزیر اعظم پاکستان نے ملک کا ایک نیا ’سیاسی نقشہ‘ منظر عام پر لایا ہے جس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
19 تصاویر1 | 19
کشمیر اوبزرور نامی ایک اخبار کے اعلیٰ مدیر سجاد حیدر نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا، ''ہم بس گزارا کر رہے ہیں، متعدد وجوہات کی بنا پر ہم ٹھیک طرح سے صحافت نہیں کر پا رہے، اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہم حکومتی اشتہارات پر انحصار کرتے ہیں۔‘‘
’کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ‘
نئی دہلی حکومت کی طرف سے کئی سالوں سے جموں و کشمیر میں غیر ملکی صحافیوں کو رپورٹنگ کے لیے اجازت نہیں دی جاتی۔ لہٰذا قومی اور بین الاقوامی میڈیا کے لیے زمینی حقائق تک رسائی کا واحد ذریعہ مقامی رپورٹرز ہی ہوتے ہیں۔ کشمیر میں حکام اب پریس پر مکمل کنٹرول چاہتے ہیں تاکہ ملک میں صرف حکومتی بیانیہ ہی پیش کیا جائے، جس کے مطابق کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔
حکومتی بیانیے کا پرچار
بیانیے کی اس جنگ میں میڈیا پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ علیحدگی پسند باغیوں کو واضح طور پر دہشت گرد قرار دیا جائے۔ اخبارات کے فرنٹ پیج پر حکومت نواز کشمیری گروپوں کی خبریں شائع کی جاتی ہیں جبکہ مودی حکومت کی پالیسیوں کے ناقد مخالف دھڑوں کی خبروں کو اکثر اشاعت سے روک دیا جاتا ہے۔
کشمیر تنازعے سے متعلق اخبارات کے ادارتی صفحات نا ہونے کے برابر ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی خبروں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے والے من گھڑت مواد، اور سکیورٹی فورسز کے خلاف پروپیگینڈا کے طور پر مسترد کر دیا جاتا ہے۔
ع آ / ا ب ا (اے پی)
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔