1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ایک ہی ٹویٹ نے بھارت میں آگ لگا دی‘ 

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
8 فروری 2022

کار بنانے والی کمپنی ہنڈائی کے بعد اب کے ایف سی اور پیزا ہٹ نے بھی بھارتی صارفین سے معذرت کی ہے۔ پاکستان میں کئی غیر ملکی  کمپنیوں نے 'یوم کشمیر ‘ کے موقع پر کشمیریوں کی حمایت میں ٹویٹ کیے تھے۔

Indien das Press Klub in Srinagar wurde geschlossen
تصویر: Tauseef Mustafa/AFP

بھارت میں صارفین کے ایک گروپ نے سوشل میڈیا پر کشمیر کی آزادی کی حمایت میں بیان دینے پر کار بنانے والی کمپنی ہنڈائی، کے ایف سی اور پیزا ہٹ جیسی متعدد غیر ملکی کمپنیوں کے خلاف بائیکاٹ مہم شروع کر رکھی ہے۔ ان میں سے کئی کمپنیوں نے بھارتی صارفین سے معذرت بھی کی ہے۔

پانچ فروری کو پاکستان میں کشمیریوں کے لیے ’یوم یکجہتی‘ منایا جاتا ہے اور اسی مناسبت سے پاکستان میں کام کرنے والی متعدد غیر ملکی کمپنیوں نے کشمیر کی حمایت میں بعض بیانات جاری کیے تھے، جس کے خلاف بھارت میں ایک طوفان سا برپا ہے اور ان کمپنیوں کی اشیا کا بائیکاٹ کرنے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔

معاملہ کیا ہے؟

پانچ فروری کو اس ضمن میں سب سے پہلے جنوبی کوریا کی کار بنانے والی کمپنی ہنڈائی کی ٹویٹ سامنے آئی تھی، جو پاکستان میں ہنڈائی کے ہینڈل سے کی گئی تھی۔ اس میں کہا گيا، ’’ہمیں اپنے کشمیری بھائیوں کی قربانیوں کو یاد رکھنا چاہیے جن کی جد و جہد آزادی جاری ہے اور ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘

ہنڈائی موٹرز کی پیرنٹ کمپنی کییا موٹرز ہے اور ’کیا پاکستان‘ نے بھی اپنی ایک ٹویٹ میں کشمیر ڈے کے ہیش ٹیگ کے ساتھ کہا، ’’ہم کشمیر کی آزادی کے لیے متحد ہیں۔‘‘ ان ٹویٹس کے بعد بھارت میں اتوار کو سب سے پہلے ہنڈائی کمپنی کے بائیکاٹ کی مہم شروع ہوئی اور پھر بہت سے لوگوں نے کمپنی کی کار نہ خریدنے کا اعلان شروع کر دیا۔

 اس پر کمپنی نے افسوس کا اظہار کیا اور اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ’’کاروباری پالیسی کے طور پر ہنڈائی کمپنی کسی مخصوص علاقے میں سیاسی یا مذہبی مسائل پر تبصرہ نہیں کرتی ہے۔ لہذا یہ واضح طور پر ہنڈائی موٹر کی پالیسی کے خلاف ہے کہ پاکستان میں آزاد ملکیت والے ایک ڈسٹری بیوٹر نے اپنے اکاؤنٹس سے کشمیر سے متعلق غیر مجاز سوشل میڈیا پوسٹ کیں۔‘‘ 

تصویر: Yawar Nazir/Getty Images

کمپنیوں کی معذرت

اس کا مزید کہنا تھا، ’’اس غیر سرکاری سوشل میڈیا کی سرگرمی سے بھارتی لوگوں کو پہنچنے والے کسی بھی دکھ پر ہمیں گہرا افسوس ہے۔‘‘ کمپنی کا کہنا ہے کہ ایک بار جب صورتحال اس کی توجہ میں لائی گئی تو اس نے ڈسٹری بیوٹر کو ’’کارروائی کے نامناسب ہونے‘‘ پر سختی سے آگاہ کیا ہے۔

فاسٹ فوڈ کے معروف امریکی برانڈ ’کے ایف سی‘ کی پاکستان میں قائم فرنچائز نے بھی اپنی ایک پوسٹ میں کشمیر میں آزادی کی حمایت کی تھی اور بھارت میں اس کے خلاف بھی بائیکاٹ مہم شروع ہوئی تو اس نے معذرت طلب کی ہے۔

پیزا ہٹ نے بھی اس سلسلے میں ایک بیان جاری کر کے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک پوسٹ کے مواد کی حمایت یا اس سے اتفاق نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

’بھارت کا احترام کرتے ہیں‘

بھارت میں کے ایف سی کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے جاری بیان میں کہا گیا، ’’ہم ان پوسٹ کے لیے دل کی گہرائیوں سے معذرت خواہ ہیں جو ملک سے باہر کے ’کے ایف سی کے‘ کچھ سوشل میڈیا ہینڈل پر شائع ہوئی تھیں۔ ہم بھارت کی عزت اور اس کا احترام کرتے ہیں، اور فخر کے ساتھ تمام بھارتیوں کی خدمت کے اپنے عزم پر ثابت قدم ہیں۔‘‘

پاکستان میں کے ایف سی کے اکاؤنٹ نے کہا تھا کہ کشمیر کشمیریوں کا ہے جبکہ پیزا ہٹ نے کشمیر کی جدوجہد آزادی کی حمایت کی تھی۔ تاہم بائیکاٹ کی مہم کے بعد کے ایف سی اور پیزا ہٹ دونوں ہی نے بیانات کو سوشل میڈیا سے ہٹا لیا گیا ہے۔

پاکستان میں شاخیں

ہنڈائی، کیا موٹرز اور فاسٹ فوڈ چین کی ’کے ایف سی‘، پیزا ہٹ اور ’ڈومینوز‘ جیسی معروف عالمی کمپنیوں کی شاخیں بھارت میں بھی کام کرتی ہیں اور ظاہر ہے کہ بھارت میں کشمیر کے حوالے سے نکتہ نظر پاکستان سے یکسر مختلف ہے۔ کشمیر کے حوالے سے بھارت کا ایک بڑا طبقہ بھارتی حکومت کی پالیسیوں کا حامی ہے اور وہ بھارت کے ہند نواز کشمیری رہنماؤں سے بھی شدید طور پر مختلف ہے۔

اسی کے رد عمل میں سوشل میڈیا پر بھارتی صارفین میں سے کسی نے ان کمپنیوں سے معافی کا مطالبہ شروع کیا تو بعض نے ان کمپنیوں کی اشیا کو ترک کرنے کی مانگ شروع کر دی۔ بعض نے اپنی پوسٹس میں فاسٹ فوڈ ترک کر کے تازہ سبزیاں کھانے کی بھی تبلیغ شروع کر دی۔

بھارت کے ایک سخت گیر نظریات کے حامل ریٹائرڈ فوجی افسر جنرل جی ڈی بخشی نے اپنی ایک ٹویٹ میں ان تمام کمپنیوں کا نام ذکر کرتے ہوئے کہا، ’’یہ سب بھارت کے خلاف پاکستان کی حمایت کر رہی ہیں۔ بھارت جاگ جاؤ، اس پہلے کے وہ تمہیں تباہ و برباد کر دیں۔‘‘ 

تاہم پاکستان میں بہت سے لوگوں نے ان ٹویٹس کی حمایت کی اور ایک صارف نے لکھا کہ بس ایک ہی ٹویٹ نے ’’بھارت میں آگ لگا دی ہے۔‘‘

کشمیر کے خشک ہوتے قدرتی چشمے

03:44

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں