بھارت: کم عمری کی شاديوں کی روک تھام ميں مساجد کا کردار
بینش جاوید، روئٹرز
23 اگست 2017
ٹیکنالوجی کے ليے معروف بھارتی شہر حیدر آباد میں کم سن لڑکیوں کو عرب مردوں کو فروخت کیے جانے کے عمل کو اب مساجد کی مدد سے روکا جا رہا ہے۔ مقامی مساجد اس مسئلے کے حل کے لیے پر عزم نظر آتی ہیں۔
اشتہار
نیوز ایجنسی تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ماضی قریب میں کئی ايسے واقعات منظر عام پر آئے ہیں، جن میں کم سن بھارتی لڑکیوں کو اکثر ادھیڑ عمر عرب مردوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں اکثر یہ لڑکیاں گھروں میں ملازم کے طور پر کام کرتی ہیں اور انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔
گزشتہ ہفتے ایک ایسے ہی کیس کی تحقیقات کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ بھارت کی ایک سولہ سالہ لڑکی کی شادی عمان کے ایک 65 سالہ مرد کے ساتھ پانچ لاکھ روپے کے عوض کر دی گئی تھی۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی اس لڑکی نے روتے ہوئے اپنی ماں کو فون کیا۔ حیدر آباد پولیس کے مطابق اس لڑکی کے والد نے دستاویزات میں اپنی بیٹی کی عمر غلط ظاہر کی تھی۔ بھارت میں اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادی ممنوع ہے۔ اس لڑکی کے والد کو پولیس نے پوچھ گچھ کے لیے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ پولیس اس قاضی کو بھی ڈھونڈ رہی ہے، جس نے اس لڑکی کا پینسٹھ سالہ شخص کے ساتھ نکاح پڑھایا تھا۔ مقامی پولیس کے مطابق بھارت میں کئی سرکاری ایجنسیاں سولہ سالہ متعلقہ لڑکی کو واپس بھارت لانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
کم عمری ميں شادیوں کے خلاف مہم جوئی کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ ہر سال ایسی کئی شادیاں کر دی جاتی ہیں اور کم عمر لڑکیوں کو عرب ممالک بھیج دیا جاتا ہے۔ ان لڑکیوں کو وہاں زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حیدرآباد میں’ ڈسٹرک چائلڈ پروٹیشکن‘ کے افسر امتیاز رحیم نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا،’’ یہ انسانی اسمگلنگ ہے، جسے شادی کے لبادے میں چھپا دیا جاتا ہے۔‘‘ امتیاز کا کہنا ہے کہ مساجد کی مدد سے ایسے قاضیوں کے لائسنسز کو منسوخ کر دیا گیا ہے، جنہوں نے کم عمر لڑکیوں کے نکاح پڑھائے تھے۔ امتیاز کے مطابق ان مساجد کو یہ ہدایات بھی دی جا رہی ہیں کہ وہ خطبات میں کم عمری کی شادیوں کے خلاف بات کریں۔ امتیاز کے مطابق مساجد کی جانب سے آگہی پھیلانا کافی سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔
بھارت کے امراء میں بھی کم عمری کی شادیوں کا رواج
بھارت میں ہر سال لاکھوں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے۔ غیر قانونی ہونے کے باوجود لڑکیوں کی نصف آبادی کو بچپنے میں ہی شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے۔
تصویر: AP
برا تصور نہیں کیا جاتا
سماجی مبصرین کی رائے میں بھارتی معاشرے میں کم عمری کی شادی کو برا تصور نہیں کیا جاتا اور قانونی طور پر جرم کے زمرے میں آنے والے اس فعل کو کم ہی رپورٹ کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/S. Andrade
حکومتی پالیسی ناکام
غیر سرکاری تنظیم ’ایکشن ایڈ انڈیا‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق کم عمری کی شادیوں سے متعلق حکومت کی پالیسی ملک میں چھوٹی عمر میں شادیوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ قانونی اقدامات بھارتی معاشرے میں ایسی ثقاتی روایات کے اثرات کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے جو کم عمری کی شادیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
تصویر: AP
لڑکوں کی تعداد لڑکیوں سے کم
تھامسن روئٹرز فاؤندیشن کی رپورٹ کے مطابق لڑکوں کی شادی بھی چھوٹی عمر میں کرنے کے واقعات عام ہیں لیکن ان کی تعداد لڑکیوں سے کافی کم ہے۔ اٹھارہ سال سے کم عمر میں لڑکی کی شادی کر دینے کا مطلب ہے کہ اسے اسکول چھوڑنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ ایسی لڑکیوں کو گھریلو تشدد، جنسی استحصال اور بچے کو جنم دیتے ہوئے موت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
بھارت کے امراء میں بھی کم عمر کی شادیاں عام
اگرچہ بھارت میں تعلیم کے فقدان اور غربت کو کم عمری کی شادیوں کی وجہ بتایا جاتا ہے لیکن امیر گھرانوں میں بھی چھوٹی عمر میں لڑکیوں کی شادیوں کا رواج عام ہے۔ بھارت کے دیہی علاقوں میں ہر چار میں سے ایک لڑکی اور شہروں میں ہر پانچ میں سے ایک لڑکی کی اٹھارہ سال سے کم عمر میں شادی کر دی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
کم عمر کی شادیوں کو روکنے کے لیے اقدامات
’’ایکشن ایڈ انڈیا‘ کی رپورٹ کے مطابق حکومت کو سوشل میڈیا، اسکولوں کے نصاب اور دیگر ذرائع کے ذریعے کم عمر کی شادی کے بھارتی قانون اور اس سے پیدا پونے والے سماجی مسائل کے بارے میں آگاہی پھیلانی چاہیے۔ اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو یہ قانونی حق دیا جائے کہ وہ کم عمر بچوں کی شادیوں کو روک سکیں۔
تصویر: AP
کچھ سرکاری اقدامات سے فائدہ
حال ہی میں کچھ سرکاری اقدامات سے فائدہ حاصل ہوا ہے۔ حکومت ایسی لڑکی کے اکاؤنٹ میں کچھ پیسے منتقل کرتی ہے جو اٹھارہ سال کی عمر میں تعلیم حاصل کر رہی ہو اور اس کی شادی نہ ہوئی ہو۔ راجھستان میں شادیوں کے ٹینٹ فراہم کرنے والی کمپنی نے بھی کم عمری کی درجنوں شادیوں کو رکوایا ہے۔
تصویر: AP
6 تصاویر1 | 6
عمر رسیدہ عرب مردوں کے ساتھ شادیوں کا سلسلہ حیدرآباد میں کافی پرانا ہے۔ ’شاہین ویمنز ریسورس اینڈ ویلفیئر ایسوسی ایشن‘ کی بانی جمیلہ نشاط کے مطابق قوانین کی سختی سے کم عمری کی شادیوں کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ لیکن ایسے کیسز منظر عام پر آ رہے ہیں جن میں لڑکیوں کو کام کے ویزے پر مشرق وسطیٰ لے جایا جاتا ہے اور وہاں جا کر انہیں شادی کے چنگل میں پھنسا دیا جاتا ہے۔