بھارت: کورونا سے متاثرین کی تعداد پندرہ لاکھ سے تجاوز
29 جولائی 2020کووڈ 19 سے سب سے زیادہ متاثرین ملکوں کے لحاظ سے بھارت امریکا اور برازیل کے بعد تیسرے نمبر پر ہے، جبکہ ریاست کے لحاظ سے مہاراشٹر سرفہرست ہے۔ تمل ناڈو دوسرے اور قومی دارالحکومت دہلی تیسرے نمبر پر ہے۔ اس کے بعد آندھرا پردیش، کرناٹک، اترپردیش اور مغربی بنگال کا نمبر آتا ہے۔
بھارتی وزارت صحت کے مطابق ملک میں کورونا سے متاثرین کے صحت یاب ہونے کی شرح 64.50 فیصد ہے اور اب تک نو لاکھ 90 ہزار کے قریب لوگ صحت یاب ہوچکے ہیں۔ حالانکہ صحت یاب ہونے کی شرح میں بہتری آئی ہے لیکن ملک کے دیہی علاقوں میں کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کے کیسز نے ریاستی حکومتوں اور مرکز کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ مغربی صوبہ مہارشٹر میں تقریبا ًچار لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جب کہ 14ہزار سے زائد افراد موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ دہلی میں ایک لاکھ 32 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ 3888 لوگوں کی موت ہوچکی ہے۔
خبروں کے مطابق بھارت میں کیسز کی رفتار امریکا کوچھوڑ کر دیگر تمام ملکوں کے مقابلے زیادہ ہے۔ البتہ برازیل اور امریکا میں ہلاک ہونے والوں کی شرح بھارت کے مقابلے زیادہ ہے۔
ملک میں ٹیسٹنگ کی صلاحیت میں اضافے کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ دنوں اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت ٹیسٹنگ کی سہولیات میں اضافہ کررہی ہے تاکہ تمام ریاستیں 'ٹیسٹ، ٹریک اور ٹریٹ‘ کی پالیسی پر عمل کرسکیں۔ وزیر اعظم مودی کے مطابق بھارت میں اس وقت 1300ٹیسٹنگ لیباریٹریز ہیں جہاں روزانہ پانچ لاکھ سے زیادہ ٹسٹ ہورہے ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے کہا تھا کہ ’مناسب وقت پر مناسب فیصلہ لینے‘ کی وجہ سے بھارت ’دیگر ملکوں کے مقابلے میں بہتر پوزیشن‘ میں ہے۔
بھارت میں ہر روز اوسطاً 50 ہزار نئے کیسز سامنے آنے اور ماہرین کی تنبیہات کے باوجودحکومت اس بات پر مصر ہے کہ ملک میں ابھی تک کمیونٹی ٹرانسمیشن شروع نہیں ہوا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں جس تیزی سے نئے کیسز سامنے آرہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے یہ جلد ہی برازیل کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔
حکومت کی طرف سے کمیونٹی ٹرانسمیشن کو تسلیم نہیں کرنے کی وجہ سے ماہرین کافی پریشان ہیں۔ گلوبل ہیلتھ میں تحقیق کرنے والے پونے کے ڈاکٹر اننت بھان نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ 'کمیونٹی ٹرانسمیشن کا اعتراف کرنے سے پالیسی سازوں کو پریشانی ہوتی ہے لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے، خاص طور پر اس صورت میں جب ہم دیکھ رہے ہیں کہ بڑی تعداد میں لوگ کورونا پازیٹیو پائے جارہے ہیں۔"
وبائی امراض کے ماہر کرسچین میڈیکل کالج ویلو ر کے ڈاکٹر جے پرکاش مولیال کہتے ہیں کہ بعض سیاسی رہنما کمیونٹی ٹرانسمیشن کی بات اس لیے تسلیم نہیں کررہے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے عوام میں یہ پیغام جائے گا کہ حکومت اس وبا پر قابو پانے میں ناکام ہے اور وائرس پر قابو پانے کے لیے لاک ڈاون جیسے دیگر اقدامات کامیاب ثابت نہیں ہوئے ہیں۔
گزشتہ ہفتے انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن نے ہاسپیٹل بورڈ آف انڈیا کے چیئرمین کے اس بیان سے خود کو الگ کرلیا تھا کہ کووڈ 19کا کمیونٹی ٹرانسمیشن شروع ہوچکا ہے۔ انڈین کاونسل آف میڈیکل ریسرچ کے ڈائریکٹر جنرل بلرام بھارگوا نے بھی کمیونٹی ٹرانسمیشن کی تردید کی ہے۔
دوسری طرف انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس نے پیشن گوئی کی ہے کہ یکم ستمبر تک بھارت میں کووڈ کے کیسز کی تعداد 35 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ امریکا میں مقیم وبائی امراض کے ماہر بھرمار مکھرجی نے بھارتی میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ بھارت میں کورونا کے کیسز کی تعداد 30 لاکھ پہنچ چکی ہے اور اگلے چھ ہفتوں کے دوران یہ ایک کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔ ڈاکٹر مکھرجی کا کہنا ہے”اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بھارت میں کمیونٹی ٹرانسمیشن شروع ہوچکا ہے۔ میں یہ جانناپسند کروں گا کہ سائنس داں یہ کیسے ثابت کرتے ہیں کہ کمیونٹی ٹرانمیشن نہیں ہورہا ہے۔"