1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: کورونا سے 200 سے زائد ڈاکٹروں کی موت

جاوید اختر، نئی دہلی
10 اگست 2020

بھارت میں کورونا وائرس سے جہاں ایک طرف ہلاک ہونے والے عام لوگوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے وہیں ان کی طبی دیکھ بھال کرنے والے تقریباً 200 ڈاکٹروں کی بھی اب تک موت ہوچکی ہے۔

Indien Greater Noida | Sharda Hospital
تصویر: Getty Images/AFP/X. Galiana

یہ انکشاف بھارت میں ڈاکٹروں کی سب سے بڑی تنظیم انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن (آئی ایم اے) نے اپنے اراکین کی موت کی اطلاعات کی بنیاد پر کیا ہے۔ تنظیم نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھ کر اس سنگین صورت حال پرفوراً توجہ دینے کی اپیل کی ہے۔

آئی ایم اے کے اراکین کی تعداد ساڑھے تین لاکھ ہے۔ سن 2018 میں حکومت نے پارلیمان کو بتایا تھا کہ ملک میں رجسٹرڈ ایلوپیتھک ڈاکٹروں کی تعداد 10 لاکھ 41 ہزار 395 ہے۔ لہذا اس بات کا شدید خدشہ ہے کہ کووڈ 19سے ہلاک ہونے والے ڈاکٹروں کی حقیقی تعداد 200 سے کہیں زیادہ ہوگی کیوں کہ بہت سے ڈاکٹر دوسری تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ دوسری طرف ہندوستانی طریقہ علاج یعنی یونانی، آیوروید اور ہومیو پیتھی طریقہ علاج کے ڈاکٹروں کی بھی موت کی خبریں موصول ہوتی رہی ہیں۔

آئی ایم اے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ تمل ناڈو میں 43، مہاراشٹر میں 23، گجرات میں 23، مغربی بنگال میں 16، کرناٹک میں 15، دہلی میں 12 اور اترپردیش میں11 ڈاکٹروں کی موت ہوچکی ہے۔ موت کا شکار ہونے والے بیشتر ڈاکٹروں کی عمر 50 برس سے زیادہ تھی۔  32 ڈاکٹروں کی عمر 50 برس سے کم اور 27 کی عمر 70 برس سے زیادہ تھی۔  ان میں 32 میڈیسن کے ماہرین اور 62 ڈاکٹر جنرل فزیشیئن تھے۔

خیال رہے کہ وزیر اعظم مودی نے کورونا وائرس سے مقابلہ کرنے میں ڈاکٹروں کے رول کی زبردست تعریف کی تھی اور ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے عوام سے چراغاں کرنے کی اپیل کی تھی اور فوجی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ بعض اسپتالوں پر فضاء سے پھول برسائے گئے تھے۔ تاہم کووڈ 19 کا مقابلہ کرنے کے لیے سب سے اگلی صف میں کھڑے طبی عملے کو شکایت ہے کہ انہیں خاطر خواہ تعداد میں حفاظتی ساز و سامان اب بھی فراہم نہیں کیے جارہے ہیں۔

تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam

آئی ایم اے نے ڈاکٹروں کے تحفظ پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ آبادی کا بڑا حصہ بخار یا اس جیسی علامتوں پر سب سے پہلے ڈاکٹروں کے پاس ہی جاتا ہے لہذا وہی سب سے پہلے رابطے میں آتے ہیں۔

آئی ایم اے کے قومی صدر ڈاکٹر رنجن شرما نے اس حوالے سے کہا کہ”ایسی تشویشناک خبریں مسلسل مل رہی ہیں کہ ڈاکٹروں اور ان کے اہل خانہ کو ہسپتال میں داخل کرنے کے لیے بیڈ نہیں مل پارہے ہیں اور بعض معاملات میں تو انہیں دوائیں بھی نہیں مل سکیں۔"  ڈاکٹر شرما نے وزیر اعظم مودی سے اپیل کی ہے کہ اس وبا کے دوران اپنی جان کی پرواہ کے بغیرعوام کی خدمت کرنے والے ڈاکٹر وں کی حفاظت کے لیے خاطرخواہ انتظاما ت کیے جائیں۔

آئی ایم اے کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر آر وی اشوکن کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کی وجہ سے ڈاکٹروں کی شرح اموات 'تشویش ناک‘ حد تک پہنچ چکی ہے۔  ان کا کہنا تھا کہ ”ایک ایک ڈاکٹر کی زندگی بچانا ہزاروں مریضوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے مترادف ہے لہذا ڈاکٹروں کی حفاظت کے لیے تمام ممکنہ تدابیر اختیار کئے جائیں۔“

نیم طبی عملے مثلاً نرسوں، لیباریٹری ٹیکنیشئنز وغیر ہ کی حالت اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔ بعض شہروں میں مکان مالکان نے ڈاکٹروں اور نرسوں کو اپنے مکانات خالی کرنے پر مجبور کردیا۔ دوسری طرف ڈاکٹروں کو بالعموم مسلسل چودہ دنوں تک اپنے گھر سے باہر رہ کر ہسپتالوں میں ڈیوٹی کرنی پڑ رہی ہے۔ اس کے نفسیاتی اثرات ان پر اور ان کے گھر والوں پر مرتب ہورہے ہیں۔

تصویر: Reuters/A. Abidi

بھارت میں یونانی طریقہ علاج سے وابستہ ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کے قومی جنرل سکریٹری حکیم سید احمد خان نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کورونا مریضوں کا علاج کرنے والے 30 سے زائد یونانی ڈاکٹروں کی موت اب تک ہوچکی ہے۔ ان میں سب سے زیادہ آٹھ ڈاکٹروں کی موت مہاراشٹر میں ہوئی ہے۔

حکیم سید احمد خان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک و قوم اور عوام کی خدمت کے لیے اپنی زندگی داو پر لگادینے والے ان ڈاکٹروں کے لواحقین کو کم از کم ایک کروڑ روپے بطور معاوضہ دیا جائے تاکہ ان کے لواحقین باعزت زندگی گزار سکیں اور ان کے بچے مناسب تعلیم حاصل کرسکیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ابتدا میں ریاستی حکومتوں نے ڈاکٹروں کو پی پی ای اور دیگر حفاظتی سازوسامان کی فراہمی کے سلسلے میں انتہائی لاپرواہی کا مظاہرہ کیا بہر حال اب صورت حال قدرے غنیمت ہے، لیکن اسے مزید بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں