1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: کورونا وائرس کی ویکسین حلال ہے یا حرام؟

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
4 جنوری 2021

ایک ایسے وقت جب بھارت میں کووڈ 19 کی ویکسین لگانے کی تیاریاں زوروں پر ہیں مسلمانوں میں یہ بحث جاری ہے کہ کورونا وائرس کی نئی ویکسین حلال ہے یا حرام؟ 

 Indien Cood-19 Impfstoff
تصویر: Sondeep Shankar/Pacific Press/picture alliance

بھارت میں مسلم علماء کے ایک طبقے کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی نئی ویکسین میں سور کی جلیٹن شامل ہے اور چونکہ مسلمانوں کے لیے خنزیر حرام ہے اس لیے ایسی ویکسین کو مسلمانوں کو نہیں لگایا جا سکتا۔ لیکن بعض دیگر علماء کے مطابق چونکہ ہنگامی حالت میں انسانی زندگی کے تحفظ کے لیے شریعت نے ایسی ممنوعہ اشیاء کے استعمال کی اجازت دی ہے اس لیے یہ ویکسین لگوانا جائز ہے۔

بھارت میں سنیوں کے ایک معروف ادارے رضا اکیڈمی نے اس ویکسین کو حرام قرار دیتے ہوئے، ’’مسلمانوں سے سور کی جلیٹن والی تمام ویکسین سے اجتناب کرنے کی اپیل کی ہے۔‘‘ اس سے قبل ملائیشیا اور انڈونیشیا کے بعض علماء نے بھی اس ویکسین کے حوالے سے کچھ اسی طرح کی باتیں کہی تھیں جس کے بعد بھارت میں یہ بحث زور پکڑگئی ہے کہ اس ویکسین کا لگوانا جائز ہے یا نہیں؟

بھارت کے معروف مسلم ادارے’جماعت اسلامی ہند‘  نے اس سلسلے میں وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ اسلام میں ہنگامی صورت حال میں انسانی زندگی کے تحفظ اور بقا کے لیے اس وقت ناجائز اشیاء بھی جائز قرار دی گئی ہیں جب اس کا کوئی دوسرا متبادل موجود نہ ہو، اس لیے یہ ویکسین بھی جائز ہے۔

نئی دہلی میں جماعت اسلامی ہند کی ایک پریس کانفرنس کے دوران جماعت کی شریعہ کونسل کے سکریٹری ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے کہا،’’اگر کسی حرام مادے کی اجزائے ترکیبی کی خصوصیات کو اس انداز سے بدل دیا گيا ہو کہ وہ بالکل مختلف چیز میں تبدیل ہوجائے تو اسے پاک اور جائز سمجھا جا سکتا ہے۔ اسی لیے بعض فقہا نے حرام جانور کے جسم سے حاصل کی گئی جلیٹن کے استعمال کو بھی درست قرار دیا ہے۔‘‘ 

ان کا مزید کہنا تھا،’’جو فقہا اس طرح کی تبدیلی کے اصول کے تحت بھی ایسی ویکسین کے حلال کے قائل نہیں ہیں وہ بھی شدید ضرورت اور ہنگامی صورت حال کے شرعی اصول کے تحت اسے درست پائیں گے کیونکہ متبادل کے طور پر کوئی بھی حلال ویکسین میسر نہیں ہے۔‘‘

کورونا وائرس کی نئی قسم کے علاج کے لیے ویکسین

03:09

This browser does not support the video element.

تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جن ویکسین کی دستیابی کا ابھی تک باقاعدہ اعلان کیا گيا ہے ان کے اجزاء کے ماخذ سے متعلق کوئی حتمی وضاحت نہیں پیش کی گئی ہے،’’اس بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے بعد اس کے استعمال یا  نہ استعمال کرنے سے متعلق اصول و ضوابط وضع کیے جا سکتے ہیں۔‘‘

اس دوران دوا ساز کمپنی فائزر، موڈرینا اور آسٹرا زینکا نے اپنے کووڈ 19 ویکسین میں سور کے مادوں سے متعلق وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی دوا میں ایسا کوئی مادہ استعمال نہیں کیا گيا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ البتہ ویکسین کو جمع کرنے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے دوران اس کے تحفظ اور اس کے اثرات کو برقرار رکھنے کے مقصد سے سور سے حاصل کی گئی جلیٹن کو اسٹیبلائزر کے طور پر استعمال کیا گيا ہے۔

اطلاعات کے مطابق اس سلسلے میں سعودی عرب اور ملائیشیا مشترکہ طور ایک ایسی ویکسین تیار کرنے کی کوشش میں ہیں جو کسی حرام مادے سے پوری طرح فری ہو۔ فی الوقت ملائیشیا کی دوا ساز کمپنی 'اے جے فارما' اس پر کام کر رہی ہے۔

بھارت نے جن دو ویکسین کو منظوری دی ہے اس میں سے آکسفورڈ کی ویکسین میں چمپانزی اڈینو وائرل ویکٹر کا استعمال کیا گيا ہے جبکہ بھارتی کمپنی 'بائیو ٹیک' نے غیر فعال سارس-کو -2  کا استعمال کیا ہے۔

بھارتی حکومت نے ان دونوں ٹیکوں کی منظوری کے بعد دنیا کی سب سے بڑی کووڈ ویکسینیشن مہم کے لیے تیاریاں شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سلسلے میں دو جنوری سنیچر کو ملک گیر ڈرل کی گئی، جس میں ملک بھر میں قائم مراکز میں سے ہر ایک میں پچیس ہیلتھ ورکز کو ڈمی ویکسین لگائی گئی تھی۔

حکومت کا کہنا ہے کہ ویکسین فراہم کرنے کے پہلے مرحلے میں میڈیکل سٹاف، پولیس، فوج اور پچاس سال سے زیادہ عمر کے ایسے افراد کو ویکسین کی خوراکیں دی جائیں گی جنہیں کوئی طبی مسئلہ یا بیماری لاحق ہو۔

لیکن میڈیا میں اس طرح کی باتیں سامنے آنے کے بعد سے ہی بھارت میں مسلمانوں کا ایک طبقہ پس و پیش میں مبتلا ہوگیا ہے۔ بعض حلقے ویکسین لگوانے کی وکالت کر رہے ہیں تو بعض اس کی مخالف پر اتر آئے ہیں۔ بھارت میں ماضی میں بعض علماء نے پولیو کے ویکسین مہم کی بھی مخالفت کی تھی جس کے برے اثرات مرتب ہوئے تھے تاہم بعد میں حکومتی نمائندوں سے بات چيت کے بعد اس مسئلے پر قابو پا لیا گيا تھا۔

جرمنی: کورونا وائرس کی ایک اور دوا کے تجربات کی منظوری

01:36

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں