1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: کورونا وباء کے دوران غریبوں کی تعداد دوگنی ہوگئی

جاوید اختر، نئی دہلی
17 جنوری 2022

آکسفیم کی تازہ رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کی وبا کے دوران غریبو ں کی تعداد دو گنی ہوگئی ہے۔ دوسری طرف امیروں کی دولت میں دوگنا اضافے کے ساتھ ارب پتیوں کی تعداد 102سے بڑھ کر 142ہوگئی۔

Indien Symbolbild Arbeitslosigkeit
تصویر: Pradeep Gaur/Zumapress/picture alliance

رپورٹ کے مطابق چین اور امریکا کے بعد ارب پتیوں کی سب سے زیادہ تعداد بھارت میں ہے۔ بھارت میں جتنے ارب پتی ہیں ان کی تعداد فرانس، سویڈن اور سوئٹزرلینڈ کے ارب پتیوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔ اور سال 2021 کے دوران ان میں 39 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

عالمی ادارے آکسفیم انٹرنیشنل کی طرف سے جاری رپورٹ 'ان ایکوالیٹی کلس‘  کے مطابق بھارت میں گزشتہ ایک برس کے دوران 84 فیصد کنبوں کی آمدنی میں گراوٹ آئی۔ دوسری طرف ارب پتی افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا اور یہ تعداد 102سے بڑھ کر 142ہوگئی۔ ان کی دولت 720 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ پہنچ گئی ہے، جو کہ 130کروڑ کی آبادی والے بھارت کی 40 فیصد غریب آبادی کی مجموعی دولت سے بھی زیادہ ہے۔

آکسفیم کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے بھارت میں امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج میں کافی اضافہ ہوگیا ہے۔کووڈ انیس کی وجہ سے جہاں ملک کا ہیلتھ انفرااسٹرکچر بری طرح متاثر ہوا وہیں قبرستانوں اور شمشان گھاٹوں میں لاشوں کی آخری رسومات کے لیے جگہیں بھی کم پڑ گئیں۔ لیکن دولت مند افراد کی دولت میں دو گنا سے زیادہ اضافہ ہوا۔

بلوم برگ کے مطابق گزشتہ برس بھارت میں گوتم اڈانی کی دولت میں سب سے زیادہ اضافہ ہواتصویر: Hindustan Times/imago images

امیری اور غریبی کے درمیان خلیج میں اضافہ

آکسفیم نے اتوار کے روز جاری اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ غربت میں اتنے زیادہ اضافے کی وجہ سے بھارت سب سہارا افریقہ کی صف میں آگیا ہے۔ جوہری طاقت رکھنے والے اس جنوبی ایشیائی ملک میں سن 2020 میں غریبوں کی تعداد دو گنا ہوکر 13کروڑ 40 لاکھ ہوگئی۔ آکسفیم نے جرائم سے متعلق حکومتی اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس دوران خودکشی کرنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد خود کاروبار کرنے والے اور بے روزگار افراد کی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائر س کی وبا کا قہر بھارت میں جیسے جیسے بڑھتا گیا ملک کے ہیلتھ بجٹ میں گراوٹ آتی گئی۔ سن 2020-21 کے دوران ہیلتھ بجٹ میں مجموعی طورپر 10فیصد کی گراوٹ درج کی گئی۔

آکسفیم کے سی ای او امیتابھ بیہر کا کہنا ہے کہ رپورٹ عدم مساوات کی تلخ حقیقت کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہم بھارت سرکار سے ایک ایسے اقتصادی نظام پر عمل پیرا ہونے کی اپیل کرتے ہیں جو ایک زیادہ مساوی اور پائیدار قوم بناتی ہے۔ بھارت دنیا کو یہ دکھا سکتا ہے کہ وہ ایک جمہوری نظام پر قائم ہے جو دولت کی ہر سطح پر تقسیم اور شمولیتی ترقی کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس نظام میں کوئی بھی پیچھے نہیں رہتا۔‘‘

بھارت: طویل لاک ڈاؤن تنہائی اور غربت وبالِ جان

02:49

This browser does not support the video element.

ارب پتیوں پر خصوصی ٹیکس لگانے کی ضرورت

امیتابھ بیہر کہتے ہیں، ''ان ارب پتیوں کو مساوات کے فروغ اور غربت کے خلاف بھارت کی لڑائی کی حمایت کرنی چاہیے، جنہوں نے وبا کے دوران ملک میں ریکارڈ منافع کمایا۔‘‘

بلوم برگ کی ارب پتیوں کی فہرست کے مطابق گزشتہ برس بھارت میں سب سے زیادہ اضافہ گوتم اڈانی کی دولت میں اضافہ ہوا۔ سن 2021 میں دنیا میں جن لوگوں کی دولت میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا، اڈانی ان میں پانچویں نمبر پر ہیں۔ ان کی دولت میں 42.7 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اور وہ اس وقت 90 ارب ڈالر کے مالک ہیں۔ مکیش امبانی کی دولت میں 13.3 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ ان کی دولت کی مجموعی مالیت 97 ارب ڈالر ہے۔

آکسفیم کے سی ای او امیتابھ بیہر کہتے ہیں، ''سیاسی حلقوں سے جو بیانات آرہے ہیں ان سے یہ واضح ہے کہ بھارت کو ابھی عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے بہت زیادہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہمیں صرف لفظی بیانات سے آگے بڑھ کر عدم مساوات اور غربت کے تسلسل کو ختم کرنے کے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب حکومت ان امیروں پر اضافی ٹیکس لگائے۔ تاکہ وبا سے پیداشدہ صورت حال سے نکلنے کے لیے وسائل پیدا ہوسکیں۔‘‘

امیتابھ بیہر کے مطابق اگر 98 ارب پتیوں کی جائیداد پر چار فیصد ٹیکس لگادیا جائے تو ملک میں 17برس تک مڈ ڈے میل پروگرام یا چھ برس تک جامع تعلیمی مہم چلائی جاسکتی ہے۔ اگر اتنے ارب پتیوں پر ایک فیصد جائیداد ٹیکس لگایا جائے تو غریبوں کے لیے مفت علاج پروگرام ''آیوشمان بھارت‘‘ کے لیے سات برس تک کا فنڈ یکجا ہوسکتا ہے۔

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں