طبی ماہرین کے مطابق کورونا ٹیسٹنگ میں اضافہ کے علاوہ لاک ڈاون میں نرمی، معیشت کو کھولنے کا فیصلہ اور عوام میں کورنا کے تئیں عدم احتیاط کا رویہ بھارت میں کووڈ۔19کے کیسز میں مسلسل اضافے کے اہم اسباب میں شامل ہیں۔
اشتہار
بھارت میں کورونا کے کیسز اب یومیہ ایک لاکھ پہنچنے کے قریب ہیں۔ پچھلے 24 گھنٹوں میں کورونا کے ریکارڈ 95735 نئے کیسز سامنے آئے جبکہ 1172لوگوں کی موت ہوگئی، جو ایک دن میں اموات کی اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
بھارتی وزارت صحت کی طرف سے جاری رپورٹ کے مطابق ملک میں کورونا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد تقریباً 45 لاکھ تک پہنچ گئی ہے جبکہ 75 ہزار سے زائد افراد موت کا شکار ہوچکے ہیں۔
کورونا کے کیسز کے سلسلے میں بھارت پہلے ہی برازیل کو پیچھے چھوڑ کر دوسرے نمبر پر پہنچ چکا ہے اور اب یہ صرف امریکا سے پیچھے ہے۔ جہاں متاثرین کی تعداد 65لاکھ سے متجاوز کرچکی ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ بھارت میں کورونا سے متاثرین کی تعداد میں جس تیزی سے مسلسل اضافہ ہورہا ہے آنے والے چند ہفتوں میں وہ امریکا کو بھی پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔
کووڈ۔19 قومی ٹاسک فورس سے وابستہ ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ ٹیسٹنگ کی تعداد میں اضافہ اور انفیکشن کے پھیلنے کی رفتار کی وجہ سے ستمبر یا اکتوبر تک کورونا کے کیسز میں کافی اضافہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ”ہمارا لائحہ عمل یہ ہے کہ کورونا کیسیز کی جانچ کرکے اموات کی کم سے کم شرح کو یقینی بنایا جائے۔ مارچ اور اپریل میں ہمارے پاس ٹیسٹنگ کے لیے خاطرخواہ انفرااسٹرکچر نہیں تھا۔ لیکن ہم نے یورپ کے تجربات سے بہت کچھ سیکھا اس لیے ہمارے یہاں اٹلی اور فرانس کی طرح شرح اموات بہت زیادہ نہیں ہے۔"
کورونا میں شادی، زندگی تو چلتی رہتی ہے
03:33
انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ میں شعبہ وبائی اور متعدی امراض کے سربراہ ڈاکٹر سمیرن پانڈا کا تاہم کہنا ہے کہ ٹیسٹنگ کی تعداد میں غیر معمولی طورپر کافی اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے کورونا پازیٹیو کے زیادہ کیسز سامنے آرہے ہیں۔ ڈاکٹر پانڈا کا مزید کہنا تھا ”معیشت کو کھولنے اور لوگوں کے نقل و حمل میں اضافہ نیز کورونا کے سلسلے میں لوگوں کے احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرنے کی وجہ سے بھی کورونا کے کیسز کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔"
ڈاکٹر سمیرن پانڈا کا حالانکہ یہ بھی کہنا تھا کہ کورونا کے کیسز میں اضافے کی رفتار پورے ملک اور تمام ریاستوں میں یکساں نہیں ہے اس لیے جن ریاستوں میں اس کی رفتار تیز ہے وہاں تدارک کے زیادہ موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کورونا سے بچاو کے لیے لوگوں کے مناسب اور ضروری تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
ماہرین کورونا کے کیسز میں تیزی سے اضافہ کی ایک اہم وجہ لوگو ں کے غیر محتاط رویے کو بھی قرار دیتے ہیں۔
سکھوں کے گردواروں نے لاکھوں افراد کو بھوک سے بچا لیا
بھارت میں کورونا وائرس کی وبا کے مشکل اوقات کے دوران دہلی کی سکھ برادری گردواروں میں قائم باورچی خانوں میں روزانہ کھانا پکا کر لاکھوں ضرورت مند افراد میں مفت لنگر تقسیم کر رہی ہے۔
تصویر: DW/S. Chabba
دہلی کے تاریخی گردوارے
بھارت میں تقریباﹰ 21 ملین سکھ افراد بستے ہیں۔ اس طرح سکھ مذہب بھارت کا چوتھا بڑا مذہب قرار دیا جاتا ہے۔ ’سیوا‘ یعنی ’خدمت‘ سکھ مذہب کا ایک اہم ستون ہے۔ سکھ عبادت گاہ گردوارہ میں قائم لنگر خانوں میں لاکھوں افراد کے لیے مفت کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/S. Chabba
کورونا وائرس سے بچنے کے حفاظتی اقدامات
بھارت میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے رواں برس مارچ کے اواخر تک دہلی کے تمام گردواروں کے دروازے عوام کے لیے بند رہے۔ تاہم گردواروں کا عملہ روزانہ مذہبی سرگرمیاں اور ضرورت مند افراد کی خدمت جاری رکھےہوئے تھا۔ گزشتہ ماہ سے ملک بھر میں مذہبی مقامات دوبارہ سے کھول دیے گئے اور عوام کے لیے جراثیم کش مواد کا استعمال، چہرے پر ماسک اور جسم کا درجہ حرارت چیک کروانے جیسے احتیاطی ضوابط لاگو کر دیے گئے۔
تصویر: DW/S. Chabba
سکھوں کے کمیونٹی کِچن
سکھ مذہب کی تعلیمات کے مطابق عقیدت مندوں کو خالی ہاتھ گھر واپس نہیں جانا چاہیے۔ گردوارے کی یاترا عموماﹰ تین چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ سکھ گرووں کا درس، گندم کے آٹے سے تیار کردہ ’پرشاد‘ (نیاز)، اور کمیونٹی کچن میں پکائے گئے لنگر کو یاتریوں میں مفت تقسیم کرنا۔
تصویر: DW/S. Chabba
روزانہ لاکھوں افراد کا کھانا پکانا
گردوارہ کے باورچی خانوں میں لاکھوں افراد کے کھانے کی تیاری ہر صبح تین بجے سے شروع ہو جاتی ہے۔ مرد اور خواتین ایک ساتھ مل کر دال، روٹی اور چاول پکاتے ہیں۔ لنگر کا اہتمام دہلی کی ’سکھ گردوارہ مینیجمنٹ‘ اور سکھ عبادت گزاروں کے چندے کی مدد سے کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/S. Chabba
بیس سے زائد مقامات پر مفت لنگر کی سہولت
دہلی کے مضافاتی شہروں غازی آباد اور نوئڈا میں بھی مفت لنگر تقسیم کیا جاتا ہے۔ کھانے کو ٹرک میں لوڈ کر کے متاثرہ علاقوں میں ترسیل کیا جاتا ہے۔ سرکاری حکام اور غیر سرکاری تنظیمیں بھی مفت کھانے کے لیے گردوارہ سے رجوع کرتی ہیں۔
تصویر: DW/S. Chabba
ضرورت مندوں کے لیے خوراک اور راشن
سکھوں کے لیے کسی ضرورت مند کی مدد کرنے کا کام ایک اعلیٰ فضیلت سمجھی جاتی ہے۔ غریب اور مستحق افراد طویل قطاروں میں روزانہ کھانے کا انتظار کرتے ہیں، جن میں نوجوان مرد اور خواتین، اسٹریٹ چائلڈ، معذور اور معمر افراد بھی شامل ہوتے ہیں۔ کورونا وائرس سے متاثرہ خاندان راشن وصول کرتے ہیں کیونکہ ان کی آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں رہا۔
تصویر: DW/S. Chabba
انتہائی منظم طریقہ کار
یہاں دو الگ الگ قطاریں بنائی گئ ہیں۔ ایک مردوں کے لیے اور دوسری خواتین، بوڑھے اور معذور افراد کے لیے۔ کھانا تقسیم کرنے کے نظام کا اچھا بندوبست کیا گیا ہے لیکن ایک اعشاریہ تین ارب سے زائد آبادی کے ملک میں سماجی دوری کے ضوابط پر عملدرآمد یقیناﹰ مشکل ہے۔
تصویر: DW/S. Chabba
دھوپ میں کھانے کا انتظار
اس قطار میں کھڑے بہت سارے افراد کے لیے یہ ایک وقت کا کھانا، دن بھر کی واحد خوراک ہے۔ بعض افراد اپنے دیگر ضرورت مند دوستوں اور ساتھیوں کے لیے بھی کھانا ساتھ لے کر جاتے ہیں کیونکہ وہ گردوارے کے ٹرک تک نہیں آسکتے۔ لنگر کے یہ ٹرک ایسے مقامات تک پہنچتے ہیں جہاں ابھی تک سرکاری یا غیر سرکاری تنظیمیں پہنچنے سے قاصر رہی ہیں۔
تصویر: DW/S. Chabba
8 تصاویر1 | 8
معروف وائرولوجسٹ ڈاکٹر شاہد جمیل کا کہنا ہے کہ لوگ ماسک پہننے، ہاتھ صاف کرنے، حفظان صحت اور سوشل ڈسٹینسنگ کے مشوروں پر عمل نہیں کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا”لوگوں میں حکومت کے اس بیانیہ سے بھی خوشی فہمی پیدا ہوگئی ہے کہ بھارت میں کورونا سے متاثرین کے صحت مند ہونے کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور شرح اموات کم ہورہی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یومیہ متاثرین کے لحاظ سے ہم دنیا میں سب سے آگے جارہے ہیں۔"
بھارتی وزارت صحت نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ”بھارت میں فی دس لاکھ پر متاثرین اور ہلاکتوں کی تعداد دنیا میں سب سے کم تر تعداد میں سے ایک ہے۔ بھارت میں فی دس لاکھ متاثرین کی تعداد 2424 اور ہلاکتوں کی تعداد 44 ہے جبکہ عالمی اوسط بالترتیب 3161 اور 107.2 ہے۔"
ماہرین تاہم حکومت کے اس موقف سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شرح اموا ت کا فیصد دیکھنے کے بجائے ہمیں اموات کی تعداد دیکھنے کی ضرورت ہے اورسب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اموات پر قابو پایا جائے۔
ترکی کی مسجد اب ایک امدادی مرکز
ترک شہر استنبول کی ایک مسجد کورونا وائرس کی وبا کے دور میں ایک امدادی مرکز میں تبدیل ہو چکی ہے۔ آئیے اس مسجد کو دیکھیں تصاویر میں۔
تصویر: DW/S. Rahim
دید یمن مسجد بے شمار میں یکتا
استنبول میں یوں تو تین ہزار سے زائد مساجد ہیں، مگر دیدیمن مسجد دیگر مساجد کی طرح عبادت کے لیے بند ہو جانے کے بعد ایک نئے کردار میں دیکھی جا سکتی ہے۔ امام مسجد نے اسے ایک ’سپر مارکیٹ‘ میں تبدیل کر دیا ہے، جہاں خوارک کا ایک بینک ہے جو وبا سے متاثرہ افراد کی مدد کرتا ہے۔
تصویر: DW/S. Rahim
مسجد کے دروازے کھلے ہیں
اب تین ہفتے سے زائد عرصہ ہونے کو ہے، جب اس مسجد نے امداد کے لیے اپنے دروازے کھول دیے۔ یہاں روزانہ ایک ہزار افراد آ کر ضروریات کی چیزیں حاصل کرتے ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ تعداد بارہ سو تک پہنچ جاتی ہے۔
تصویر: DW/S. Rahim
مسجد اب خوراک کی ذخیرہ گاہ
مسجد کی مرکزی جائے نماز اب ایک اسٹور میں تبدیل کی جا چکی ہے۔ جب سپلائی یہاں پہنچتی ہے، تو امام اور ان کی رضاکار ٹیم اسے یہاں ذخیرہ کر دیتی ہے اور یہاں سے خوراک مسجد کے دروازے کے قریب شلیف تک پہنچا دیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/S. Rahim
سامان کی قلت نہیں
یہاں تمام شلیف طرح طرح کی چیزوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ کوکنگ آئل ہو کہ پاستا، آٹا ہو کہ دالیں، چینی، ہو چائے ہو یا دیگر ڈیری پروڈکٹس، سب کچھ دستیاب ہے۔
تصویر: DW/S. Rahim
بچوں کی چاکلیٹ کہاں ہے؟
ایسا نہیں یہاں فقط انتہائی ضرورت کی اشیاء رکھی گئی ہیں اور بچوں کا بالکل خیال نہیں۔ یہاں موجود رضا کار امدادی سامان لینے والے لوگوں سے پوچھتے دکھائی دیتے ہیں کہ کیا آپ نے بچوں کے لیے چاکلیٹ لی؟
تصویر: DW/S. Rahim
یہ بھی تو عبادت ہے
33 سالہ عبدالسمیت شاکر دیدیمن مسجد کے امام ہیں۔ استنبول کے شہریار ضلع میں قائم اس مسجد میں یہ میلہ انہی کی وجہ سے ہے۔ وہ اپنی رضا کار ٹیم کے ساتھ گاڑیوں سے چیزیں اتارنے میں پیش پیش نظرآتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Rahim
پرانی روایت
امام شاکر کے مطابق سلطنت ِ عثمانیہ کے دور میں’سنگ خیرات‘ کی روایت سے متاثر ہوکر انہیں مسجد میں امدادی مرکز بنانے کا خیال آیا۔ عثمانیہ دور میں شہر کے مختلف مقامات پر پتھروں سے ستون بنائے جاتے تھے، جہاں امیر افراد غریبوں کے لیے اپنی خیرات رکھ جایا کرتے تھے۔
تصویر: DW/S. Rahim
مسجد تک خوراک کون پہنچاتا ہے؟
خوراک سے متعلق سامان ترکی اور بیرون ترکی میں موجود ڈونرز کی طرف سے آتا ہے۔ یہ مسجد نقد رقم قبول نہیں کرتی، مگر اشیائے خوراک یہاں عطیہ کی جا سکتی ہیں۔ کئی ڈونرز خود آ کر چیزیں مسجد کے حوالے کرتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Rahim
ضرورت مند کون ہے؟
مسجد کے باہر ایک فہرست لگی ہے، جس پر ضرورت مند افراد اپنا نام اور ٹیلی فون نمبر لکھ جاتے ہیں۔ امام مسجد ان تفصیلات کی چھان بین کرتے ہیں اور پھر ان کی ٹیم کی جانب سے متعلقہ افراد کو ایس ایم ایس بھیجا جاتا ہے کہ آئیے سامان لے جائیے۔
تصویر: DW/S. Rahim
مسجد کا اپنا امدادی طریقہ کار
دیدیمن مسجد سے مدد کے حصول کے لیے ایک طریقہ کار مقرر ہے، مگر ایسا نہیں کہ اگر کوئی انتہائی ضرورت مند امداد لینے مسجد پہنچ جائے تو اسے ٹہلا دیا جاتا ہے۔ ایسے ضرورت مند سے مسجد کے رضاکار چند بنیادی سوالات کرتے ہیں اور اسے سامان مہیا کر دیتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Rahim
کپڑے اور جوتے بھی دستیاب ہیں
بعض ڈونرز کی جانب سے ضرورت مندوں کے لیے جوتے اور کپڑے تک مہیا کیے گئے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ماہ رمضان میں خیرات کرنے والے کو کہیں زیادہ ثواب ملتا ہے۔
تصویر: DW/S. Rahim
کورونا وائرس کی وبا
ترکی میں کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے اب تک تین ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس وبا کی وجہ سے وہاں مصدقہ کیسز کی تعداد ایک لاکھ پندرہ ہزار ہزار تک پہنچ چکی ہے تاہم اس بیماری سے صحت یاب ہونے والے افراد کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔
تصویر: DW/S. Rahim
سماجی فاصلے کے قواعد مسجد میں بھی رائج
مسجد کی انتظامیہ وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے رائج سماجی فاصلےکے قواعد پر عمل درآمد کی کوشش کرتی ہے۔ مسجد کے اندر ایک وقت میں فقط دو افراد داخل ہو سکتے ہیں اور انہیں ہر حال میں ماسک پہننا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/S. Rahim
کارگو سے امداد
بہت سے ڈونرز کارگو کے ذریعے امدادی پیکیج اس مسجد کو بھیج رہے ہیں۔ اختتام ہفتہ پر چوں کہ کرفیو ہوتا ہے، اس لیے تب تو یہاں خامشی ہوتی ہے، مگر عام دنوں میں مختلف کارگو کمپنیوں کی گاڑیاں مسلسل اس مسجد تک سامان پہنچاتی دکھائی دیتی ہیں۔
تصویر: DW/S. Rahim
ترکی میں کرفیو
ترکی میں اختتام ہفتہ پر کرفیو نافذ کیا جاتا ہے۔ تاہم اب حکومت نے ماہ رمضان میں کرفیو کو تین روز تک پھیلا دیا ہے۔ اب لوگوں کو جمعے کی نصف شب سے اتوار کی نصف شب تک اپنے گھروں ہی میں رہنا ہوتا ہے۔