بھارت کی ’اینٹی کرپشن پارٹی‘ کو کرپشن کے الزامات کا سامنا
شمشیر حیدر dpa
7 مئی 2017
بھارتی سیاسی جماعت ’عام آدمی پارٹی‘ کرپشن مخالفت، سماجی انصاف اور ملک میں غربت کے خاتمے کا منشور رکھنے کے باعث بھارت میں مقبول ہوئی۔ یہ سیاسی جماعت نئی دہلی میں حکومت بنانے میں بھی کامیاب رہی تھی۔
اشتہار
لیکن ’اینٹی کرپشن‘ منشور رکھنے والی عام آدمی پارٹی کو اب خود بھی کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی نئی دہلی سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق بھارتی سیاست میں تیزی سے ترقی کرنے والی اس سیاسی جماعت کے سربراہ اروند کیجریوال اب کرپشن الزامات کے بعد ’ڈیمج کنٹرول‘ یعنی پارٹی کی ساکھ کو بچانے کی کوششوں میں ہیں۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال پر بیس ملین بھارتی روپے کی رشوت لینے کا الزام انہی کی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے اور نئی دہلی کے سابق ریاستی وزیر کپل مشرا نے لگایا ہے۔ کیجریوال نے ہفتہ چھ مئی کے روز ہی مشرا کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔
مشرا نے آج نئی دہلی میں صحافیوں کو بتایا کہ کیجریوال نے صوبائی وزیر صحت ستیاندر جین سے دو کروڑ روپے بطور رشوت وصول کیے تھے اور وہ اس کے عینی شاہد ہیں۔
دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ اور کیجریوال کے قریبی ساتھی منیش سیسودیا نے مشرا کے الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے بے بنیاد الزامات کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔
عام آدمی پارٹی کے ایک سیاست دان کمار وشواس نے ڈی پی اے سے گفت گو کرتے ہوئے کہا، ’’یہ بات ناقابل یقین ہے کہ کیجریوال رشوت لیں، ان کے دشمن بھی اس بات پر یقین نہیں کریں گے۔‘‘
دوسری جانب مشرا نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے وفاقی تحقیقاتی ادارے اور ملکی اینٹی کرپشن ایجنسی سے اس معاملے کی چھان بین کرنے کی درخواست کی ہے۔
عام آدمی پارٹی سن 2013 میں دہلی کے ریاستی انتخابات بھاری اکثریت سے جیت کر اقتدار میں آئی تھی۔ ان انتخابات کے دوران پارٹی کا بنیادی نعرہ ہی کرپشن کا خاتمہ تھا۔ کیجریوال نے صوبائی وزیر اعلیٰ کے عہدہ سنبھالنے کے محض پچاس دن بعد ہی استعفیٰ دے دیا تھا تاہم سن 2015 میں انہوں نے دوبارہ صوبائی وزیر اعلیٰ کا عہدہ قبول کر لیا تھا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس کے کارکنوں نے کیجریوال پر کرپشن کے الزامات لگنے کے بعد ان کے گھر کے باہر احتجاجی مظاہرے کیے۔ مظاہرین نے کیجریوال کے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا۔
کیجریوال سے اختلافات کے بعد عام آدمی پارٹی چھوڑنے والے سیاست دان یوگیندرا یادیو کا کہنا تھا کہ مشرا کو ’بغیر شواہد کے اتنے بڑے الزامات نہیں لگانا چاہییں‘۔
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔