بھارت کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت: کیا خطے کے لیے پریشان کن ہے؟
عبدالستار، اسلام آباد
8 مارچ 2018
بھارت کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت کو پاکستان میں کئی حلقے پہلے ہی بہت تشویش کے ساتھ دیکھ رہے تھے لیکن اب بھارت کی عسکری طاقت کے حوالے سے ایک نئی رپورٹ نے اس تشویش میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
اشتہار
’ورلڈ فائر پاور انڈیکس‘ کے مطابق اب نئی دہلی دنیا کی چوتھی بڑی عسکری قوت ہے، جس کے پاس بیالیس لاکھ سے زائد فوجی ہیں، جس میں ساڑھے تیرہ لاکھ سے زائد ایکٹی و اور قریب ساڑھے اٹھائیس لاکھ ریزرو ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے پاس 676 لڑاکا طیارے ہیں اور آٹھ سو نو حملہ کرنے والے ایئر کرافٹ بھی ہیں۔
پاکستانی ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت کے بڑھتی ہوئی عسکری طاقت کی وجہ سے خطہ عدم استحکام سے دوچار ہو سکتا ہے۔ دفاعی تجزیہ نگار کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ پہلے ہی سے شروع ہے، اب اس میں مزید تیزی آجائے گی۔اس بڑھتی ہوئی طاقت کی وجہ سے سی پیک کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے کیوں کہ بھارت یہ ساری طاقت چین اور پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے جمع کر رہا ہے اور یہ کوئی گاندھی کا بھارت نہیں ہے بلکہ نئی دہلی کے تخت پر ہندو انتہا پسند قابض ہوگئے ہیں، جو اندورنی طور پر مسلمان اور دوسری اقلیتوں کے خلاف نفرتیں پھیلا کر ووٹ حاصل کر رہیں ہیں اور بیرونی طور پر چین اور پاکستان کے خلاف جنگجویانہ پروپیگنڈہ بھی کر رہے ہیں۔ان کے عزائم جارحانہ ہیں۔ لہذا خطے کے ممالک کو اس مسئلے کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے۔‘‘
آج کی دنیا میں محض فوجیوں کی تعداد ہی کسی ملک کی فوج کے طاقتور ہونے کی نشاندہی نہیں کرتی، بھلے اس کی اپنی اہمیت ضرور ہے۔ تعداد کے حوالے سے دنیا کی دس بڑی فوجوں کے بارے میں جانیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Reuters/F. Aziz
چین
سن 1927 میں قائم کی گئی چین کی ’پیپلز لبریشن آرمی‘ کے فوجیوں کی تعداد 2015 کے ورلڈ بینک ڈیٹا کے مطابق 2.8 ملین سے زیادہ ہے۔ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز ’’آئی آئی ایس ایس‘‘ کے مطابق چین دفاع پر امریکا کے بعد سب سے زیادہ (145 بلین ڈالر) خرچ کرتا ہے۔
تصویر: Reuters/Xinhua
بھارت
بھارت کی افوج، پیرا ملٹری اور دیگر سکیورٹی اداروں کے ایسے اہلکار، جو ملکی دفاع کے لیے فوری طور پر دستیاب ہیں، کی تعداد بھی تقریبا اٹھائیس لاکھ بنتی ہے۔ بھارت کا دفاعی بجٹ اکاون بلین ڈالر سے زائد ہے اور وہ اس اعتبار سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters
روس
ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق روسی فیڈریشن قریب پندرہ لاکھ فعال فوجیوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے تاہم سن 2017 میں شائع ہونے والی انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق روسی فوج کے فعال ارکان کی تعداد ساڑھے آٹھ لاکھ کے قریب بنتی ہے اور وہ قریب ساٹھ بلین ڈالر کے دفاعی بجٹ کے ساتھ دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
شمالی کوریا
شمالی کوریا کے فعال فوجیوں کی مجموعی تعداد تقربیا تیرہ لاکھ اسی ہزار بنتی ہے اور یوں وہ اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Wong Maye-E
امریکا
آئی آئی ایس ایس کی رپورٹ کے مطابق 605 بلین ڈالر دفاعی بجٹ کے ساتھ امریکا سرفہرست ہے اور امریکی دفاعی بجٹ کی مجموعی مالیت اس حوالے سے ٹاپ ٹین ممالک کے مجموعی بجٹ سے بھی زیادہ بنتا ہے۔ تاہم ساڑھے تیرہ لاکھ فعال فوجیوں کے ساتھ وہ تعداد کے حوالے سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
پاکستان
پاکستانی فوج تعداد کے حوالے سے دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستانی افواج، پیرا ملٹری فورسز اور دیگر ایسے سکیورٹی اہلکاروں کی، جو ملکی دفاع کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہیں، مجموعی تعداد نو لاکھ پینتیس ہزار بنتی ہے۔ آئی آئی ایس ایس کے مطابق تاہم فعال پاکستانی فوجیوں کی تعداد ساڑھے چھ لاکھ سے کچھ زائد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/SS Mirza
مصر
ورلڈ بینک کے مطابق مصر آٹھ لاکھ پینتیس ہزار فعال فوجیوں کے ساتھ اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ تاہم آئی آئی ایس ایس کی فہرست میں مصر کا دسواں نمبر بنتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
برازیل
جنوبی امریکی ملک برازیل سات لاکھ تیس ہزار فوجیوں کے ساتھ تعداد کے اعتبار سے عالمی سطح پر آٹھویں بڑی فوج ہے۔ جب کہ آئی آئی ایس ایس کی فہرست میں برازیل کا پندرھواں نمبر ہے جب کہ ساڑھے تئیس بلین ڈالر کے دفاعی بجٹ کے ساتھ وہ اس فہرست میں بھی بارہویں نمبر پر موجود ہے۔
تصویر: Reuters/R. Moraes
انڈونیشیا
انڈونیشین افواج، پیرا ملٹری فورسز اور دفاعی سکیورٹی کے لیے فعال فوجیوں کی تعداد پونے سات لاکھ ہے اور وہ اس فہرست میں نویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/R.Gacad
جنوبی کوریا
دنیا کی دسویں بڑی فوج جنوبی کوریا کی ہے۔ ورلڈ بینک کے سن 2015 تک کے اعداد و شمار کے مطابق اس کے فعال فوجیوں کی تعداد چھ لاکھ چونتیس ہزار بنتی ہے۔ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق قریب چونتیس بلین ڈالر کے دفاعی بجٹ کے ساتھ جنوبی کوریا اس فہرست میں بھی دسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters/Yonhap/S. Myung-Gon
10 تصاویر1 | 10
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’امریکا چین کی ابھرتی ہوئی معاشی طاقت سے پریشان ہے۔ اسی لیے وہ چین کے مقابلے میں بھارت کو تیار کر رہا ہے۔ اس خطے میں بھارت اور افغانستان دو ایسے ممالک ہیں جہاں امریکا چین کے مفادات کے خلاف کام کر سکتا ہے۔‘‘
نیشنل یونیورسٹی فار سائنس ایند ٹیکنالوجی، اسلام آباد،کے بین الاقوامی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکڑ بکر نجم الدین کے خیال میں اس ابھرتی ہوئی عسکری قوت سے خطے کے ممالک میں پریشانی ہے۔’’بھارت اور امریکا کی اسٹریجک شراکت نے نئی دہلی کو بہت طاقت ور بنا دیا ہے۔ اس سے امریکا خوش ہو گا لیکن خطے کے لیے یہ بہت برا شگون ہے۔ کیوں کہ پاکستان کی عسکری پالیسی بھارت سینٹرک ہے۔ اگر بھارت کے پاس دوسو خطرناک ہتھیار ہیں تو پاکستان کم از کم سو ضرور رکھے گا۔پاکستان پہلے ہی روایتی جنگ میں بھارت کی عددی برتری سے پریشان ہے، اسی لیے اسلام آباد نے حال ہی میں ابابیل میزائل کا تجربہ کیا ہے، جو جنوبی ایشیا میں ابھی کسی کے پاس نہیں ہے۔ تو میرے خیال میں ایسے میزائل مزید بنائے جائیں گے کیوں کہ بین الاقوامی دنیا میں کمزور رہنا جارحیت کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’چین بھی اپنے دفاعی اخراجات بڑھائے گا۔ ایک طرف وہ امریکا سے مقابلہ کر رہا ہے اور دوسری طرف اس کو بھارت کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت سے بھی خطرہ ہے۔ تو بھارت کی بڑھتی ہوئی قوت خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ میں بہت شدت پیدا کرے گی جو یقیناً اس خطے کے عوام کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔‘‘
لیکن دفاعی امور کے ماہر میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کے خیال میں پاکستان اور چین کو اس طاقت سے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’ہمارے پاس جوہری ہتھیار ہیں، ٹیکٹیکل نیوکلئر ہتھیار بھی ہیں۔ روایتی طور پر ہمارے اور ان کے فوجیوں کی شرح ایک سے تین رہی ہے لیکن صرف عددی برتری ہی اہم نہیں ہے۔ لڑنے کی صلاحیت کا بھی بہت اہم عمل دخل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر بھارتی ایئر فورس کی لڑنے کی صلاحیت صرف 33 فیصد ہے۔ ان کے ٹینکوں کی بھی حالت خستہ ہے جب کہ پاکستان نہ صرف اپنے ٹینک خود بنا رہا ہے بلکہ ہم چین کے تعاون سے جے ایف 17 بھی تیار کر سکتے ہیں اور آنے والے دس برسوں میں ہماری پوری ایئر فورس اس کو استعمال کر رہی ہوگی۔ تو ان حقائق کے پیشِ نظر ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔‘‘
جدید ٹیکنالوجی اورجنگی میدانوں میں ہتھیاروں کی طاقت کے مظاہرے کے باوجود فضائی قوت جنگوں میں کامیابی کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ 2017ء میں سب سے زیادہ فضائی قوت رکھنے والی افواج کون سی ہیں؟ دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: Imago/StockTrek Images
امریکا
گلوبل فائر پاور کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق امریکی فضائیہ دنیا کی سب زیادہ طاقت ور ترین ہے۔ امریکی فضائیہ کے پاس لگ بھگ چودہ ہزار طیارے ہیں۔ ان میں سے تیئس سو جنگی طیارے، تین ہزار کے قریب اٹیک ائیر کرافٹ، تقریبا چھ ہزار کارگو طیارے، لگ بھگ تین ہزار تربیتی جہاز اور تقریبا چھ ہزار ہیلی کاپٹر ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں ایک ہزار اٹیک ہیلی کاپٹرز بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/CPA Media/Pictures From History
روس
دنیا کی دوسری بڑی فضائی طاقت روس ہے، جس کے پاس تقریبا چار ہزار طیارے ہیں۔ ان میں 806 جنگی طیارے، پندرہ سو کے قریب اٹیک ایئر کرافٹ، گیارہ سو کے قریب آمدو رفت کے لیے استعمال ہونے والے طیارے، لگ بھگ چار سو تربیتی طیارے اور چودہ سو کے قریب ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے 490 اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
چینی فضائیہ کے پاس لگ بھگ تین ہزار طیارے ہیں۔ دنیا کی تیسری طاقت ور ترین فضائی فورس کے پاس تیرہ سو کے قریب جنگی طیارے، قریب چودہ سو اٹیک ایئر کرافٹ، آمدو رفت کے لیے استعمال ہونے والے 782طیارے، 352 تربیتی طیارے اور ایک ہزار کے قریب ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے لگ بھگ دو سو اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: Picture alliance/Photoshot/Y. Pan
بھارت
بھارتی فضائیہ کے پاس دو ہزار سے زیادہ طیارے ہیں۔ دنیا کی اس چوتھی طاقت ور ترین فضائیہ کے پاس 676 جنگی طیارے، قریب آٹھ سو اٹیک ایئر کرافٹ، آمدو رفت کے لیے استعمال ہونے والے ساڑھے آٹھ سو طیارے، 323 تربیتی طیارے اور لگ بھگ ساڑھے چھ سو ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے سولہ اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Nv
جاپان
گلوبل فائر پاور کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق اس فہرست میں جاپان کا نمبر پانچواں ہے، جس کے پاس تقریبا سولہ سو طیارے ہیں۔ ان میں سے لگ بھگ 300 جنگی طیارے، تین سو اٹیک ائیر کرافٹ، سامان کی ترسیل کے لیے مختص پانچ سو کے قریب طیارے، 447 تربیتی طیارے اور کل 659 ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹروں میں سے 119 اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: KAZUHIRO NOGI/AFP/Getty Images
جنوبی کوریا
چھٹے نمبر پر جنوبی کوریا ہے، جس کی فضائیہ کے پاس لگ بھگ پندرہ سو طیارے ہیں۔ ان میں سے 406 جنگی طیارے، ساڑھے چار سو اٹیک ائیر کرافٹ، آمد ورفت کے لیے مختص ساڑھے تین سو طیارے، 273 تربیتی طیارے اور لگ بھگ سات سو ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے 81 اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: picture alliance/Yonhap
فرانس
دنیا کی ساتویں بڑی فضائی طاقت فرانس کے پاس لگ بھگ تیرہ سو طیارے ہیں۔ ان میں سے تقریبا تین سو جنگی طیارے ہیں، اتنی ہی تعداد اٹیک ائیر کرافٹ کی ہے۔ اس ملک کے پاس آمد ورفت کے لیے مختص لگ بھگ ساڑھے چھ سو طیارے، قریب تین سو تربیتی طیارے اور تقریبا چھ سو ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے پچاس اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Ena
مصر
دنیا کی آٹھویں بڑی فضائی فورس مصر کے پاس کل ایک ہزار سے زیادہ طیارے ہیں۔ ان میں سے تین سو سے زیادہ جنگی طیارے، چار سو سے زیادہ اٹیک ائیر کرافٹ،260 آمد ورفت کے لیے مختص طیارے، 384 تربیتی طیارے اور کل 257 ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے 46 اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Bob Edme
ترکی
دنیا کی نویں بڑی فضائیہ ترکی کے پاس بھی ایک ہزار سے زیادہ طیارے ہیں۔ ان میں سے 207 جنگی طیارے ہیں جبکہ اتنی ہی تعداد اٹیک ائیر کرافٹ کی ہے۔ ترکی کے پاس آمد ورفت کے لیے مختص 439 طیارے، 276 تربیتی طیارے اور لگ بھگ ساڑھے چار سو ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے 70 اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Gurel
پاکستان
پاکستانی فضائیہ کا شمار دنیا کی دسویں فورس کے طور پر کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے پاس تقریبا ساڑھے نو سو طیارے ہیں۔ ان میں سے تین سو جنگی طیارے، قریب چار سو اٹیک ائیر کرافٹ، آمد ورفت کے لیے مختص261 طیارے، دو سو کے قریب تربیتی طیارے اور کل 316 ہیلی کاپٹر ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے 52 اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔