بھارت کی بے سہارا اور بے آسرا ’سنگل‘ عورتیں
27 جون 2016ستائیس سالہ راجشری گنگو چالیس خواتین پر مشتمل ایک گروپ کے سامنے بھارت میں ایک تنہا عورت ہونے کے مسائل پر بات چیت کرتے ہوئے کہتی ہے، ’’میرے لیے بہت مشکل ہے، میرا شوہر نہیں ہے، بیٹا بھی نہیں ہے اور میرا باپ بھی مجھے نہیں چاہتا۔‘‘ گلوگیر راجشری اپنی ساڑی کے پلو سے آنسو پونچھتے ہوئے کہتی ہے کہ وہ تنہا اور بے بس ہے۔ خواتین کی اس میٹنگ کا انعقاد غیر سرکاری تنظیم ’پاریائے‘ نے کیا ہے۔ یہ تنظیم بھارتی معاشرے کے پسماندہ طبقے کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتی ہے۔
اس میٹنگ میں سماجی تنظیم پاریائے کی پارٹنر بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ایکشن ایڈ کے مینجر نیرج بھٹناگر نے راجشری کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ روئے مت۔ شوہر ، باپ یا بیٹا نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کے اُس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بھٹناگر نے راجشری کی ہمت بڑھاتے کہا کہ اُسے اپنے اوپر بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔
تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق مہاراشٹر کے قحط زدہ علاقے مارتھ واڑا میں راجشری جیسی کئی تنہا اور بے سہارا عورتیں ہیں۔ کچھ عورتوں کے کسان شوہروں نے خود کشیاں کر لی ہیں، کچھ کے شوہروں نے انہیں بیٹا نہ پیدا کرنے کے باعث چھوڑ دیا ہے تو کچھ کے شوہر بہتر روزگار کی تلاش میں انہیں چھوڑ کر جا چکے ہیں۔
بغیر کسی ذریعہٴ معاش کے ان تنہا عورتوں کو ان کے سسرال والے گھر سے نکال دیتے ہیں اور زمین پر بھی ان کا حق انہیں نہیں دیا جاتا۔ ان عورتوں کو ایسے افراد کی جانب سے طنز اور تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے جو ایک مرد کے بغیر عورت کے وجود کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔
پاریائے کے سیکریٹری ویشوانتھ ٹوڈکر کہتے ہیں، ’’بھارت میں غیر شادی شدہ، طلاق یافتہ یا بیوہ عورتوں کو ان کا خاندان، معاشرہ اور حکومت سب ہی نظر انداز کرتے ہیں، انہیں اپنی زمین، حتیٰ کہ اپنی قانونی شناخت لینے کے لیے بھی تگ ودو کرنا پڑتی ہے۔‘‘
پیدائش سے ہی امتیازی سلوک
جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے ملک میں حکومت کی جانب سے بیوہ عورتوں کو روزمرہ کے اخراجات کے لیے ماہانہ 500 بھارتی روپے دیے جاتے ہیں۔ان عورتوں کے لیے حکومت کی جانب سے کوئی مالی مدد فراہم نہیں کی جاتی جنہیں طلاق دی جا چکی ہے یا وہ غیر شادی شدہ ہیں۔ اسی طرح اِس معمولی سے حکومتی امداد سے وہ خواتین بھی محروم ہیں جنہیں ان کے شوہر چھوڑ چکے ہیں۔ اس ملک میں مذہبی قوانین بھی مردوں کو جائیداد اور زرعی زمین میں وراثتی حصہ دینے کے حق میں ہیں اور عورتوں کے لیے کوئی ہدایت موجود نہیں ہے۔ اس طرح پیدائش کے ساتھ ہی ایک لڑکی امتیازی سلوک برداشت کرنا شروع کردیتی ہے۔ اقتصادی ترقی کے باوجود کئی علاقوں میں بچیوں کو کم تعلیم دینے کے علاوہ کم عمری میں شادی کا رواج بھی ہے۔ سماجی ماہرین کے مطابق ایک عورت تمام عمر اپنے باپ یا شوہر کی محتاج رہتی ہے۔
پاریائے کی پروگرام ڈائریکٹر لتا بندگر نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا،’’ ہمیں عورتوں کے شناختی کارڈ حاصل کرنے کے لیے بھی جدو جہد کرنا پڑتی ہے، شناختی ثبوت کے بغیر عورت نہ کسی زمین کی مالک بن سکتی ہے اور نہ ہی کوئی کام کر سکتی ہے۔‘‘ واضح رہے کہ سن 2011 کی مردم شماری کے مطابق بھارت کے پدرانہ نظام میں صرف 13 فیصد عورتیں زمین کی ملکیت رکھتی ہیں۔
عورت کے لیے ایک انتہای خطرناک دنیا
بھارت کی ریاست مہاراشٹر کو ملک کی ایک خوش حال ریاست تصور کیا جاتا ہے۔ اسی صوبے میں سن 1990 کی دہائی میں خاندان کی کل جائیداد کا نصف خواتین کو دیے جانے کی ایک مہم 'لکشمی مکتی‘ شروع کی گئی تھی۔ اسی مہاراشٹرمیں 45 فیصد سے زائد خواتین زمین کی ملکیت نہیں رکھتیں اور مزدوری کر کے پیسے کماتی ہیں۔ سارے بھارت میں مجموعی طور پر ایسی خواتین کی تعداد 41 فیصد ہے۔
مارتھ واڑا میں بہت سی خواتین کی دھوکے سے شادی کرا دی جاتی ہے یا انہیں اسمگل کر دیا جاتا ہے۔ اس بارے میں لتا بندگر کہتی ہیں،’’ بے سہارا عورتوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک روا رکھا جاتا ہے، اس دنیا میں ان کے لیے قدم قدم پر خطرہ ہے اور ایسے میں اگر ایک عورت کے پاس زمین کی ملکیت ہو تو وہ کچھ حد تک اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرسکتی ہے۔‘‘
معاشرتی تحفظ
انڈیا میں رواں برس مئی میں تیار کردہ ایک حکومتی پالیسی میں عورتوں کو درپیش مشکلات کا اعتراف کیا گیا ہے۔ اس پالیسی کے تحت عورتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک جامعہ میکینزم بنائے جانے کو تجویز کیا گیا ہے۔
پاریائے نے گزشتہ برس عثمان آباد کی ڈسٹرکٹ کونسل سے تیس دیہات کی ’سنگل‘ خواتین کو دو لاکھ روپے تک کا قرضہ فراہم کرنے کے لیے 2 ملین روپے مختص کروائے تھے۔ اس قرضے سے خواتین پولٹری اور بکریاں خرید کر چھوٹے کاروبار کا آغاز کر سکتی ہیں۔ ان تیس دیہات میں ایسی تنہا عورتوں کی اکثریت کا تعلق نچلی ذات سے ہے۔
عثمان آباد کی ڈسٹرکٹ کونسل کے چیف اے ای رائتے نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا،’’ اس پیسے سے عورتیں کاروبار شروع کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ خواتین معاشی طور پر خودمختار ہوں۔‘‘