1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کی دو ریاستیں آم پر کیوں لڑ رہی ہیں؟

جاوید اختر ، نئی دہلی
14 جون 2025

آم کی خوبی اس کے رسیلے پن اور مٹھاس میں ہے لیکن اس نے بھارت کی دو جنوبی ریاستوں کرناٹک اور آندھرا پردیش کے تعلقات میں تلخی پیدا کردی ہے۔

طوطا پری آم
طوطا پری آم کو لمبی شکل اور طوطے کی چونچ نما نوک کے لیے جانا جاتا ہے اس میں رس اور گودا بہت زیادہ ہوتا ہےتصویر: Colourbox

سات جون کو آندھرا پردیش کے چتوڑ کے ضلع کلکٹر کی طرف سے جاری کردہ ایک حکم کے ذریعے، ریاستی حکومت نے دیگر ریاستوں کے رسیلے 'طوطا پری' آموں کے ضلع میں داخلے پر پابندی عائد کر دی، اس فیصلے نے پڑوسی ریاست کرناٹک کے ساتھ تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔

پاکستانی آم اب بھارتی درختوں پر اگیں گے

کرناٹک کی چیف سکریٹری شالنی رجنیش نے 10 جون کو لکھے ایک خط میں، اور وزیر اعلیٰ سدارامیا کی جانب سے 11 جون کو لکھے گئے ایک خط میں، اپنے آندھرا پردیش کے ہم منصبوں، کے وجیانند اور این چندرا بابو نائیڈو سے بالترتیب اس حکم کو واپس لینے کے لیے کہا۔ انہوں نے کہا کہ چتوڑ کے ضلع کلکٹر کے حکم کی وجہ سے کرناٹک میں آم کے کاشتکاروں کو کافی پریشانی ہو رہی ہے۔

کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدا رمیاتصویر: IDREES MOHAMMED/AFP

طوطا پری آم کی خصوصیت

طوطا پری، جسے بنگلور یا سنیدرشا بھی کہا جاتا ہے، آندھرا پردیش، کرناٹک اور تمل ناڈو کے سرحدی اضلاع میں اگائی جانے والی آم کی ایک قسم ہے۔

یہ اپنی لمبی شکل اور طوطے کی چونچ نما نوک کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس میں رس اور گودا بہت زیادہ ہوتا ہے۔ طوطا پری آم کو بالخصوص ڈبہ بند مینگو ڈرنکس میں استعمال کیا جاتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں نے پاکستان میں ’آم کی فصل خراب کر دی‘

ملٹی نیشنل کمپنیوں سمیت فوڈ اینڈ بیوریج پروسیسرز یہ آم براہ راست کسانوں سے خریدتے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ آندھرا پردیش کے چتوڑ ضلع میں آم کی پروسیسنگ اور گودا نکالنے والی متعدد کمپنیاں ہیں، جو مقامی بازاروں سے طوطا پری آم خریدتی ہیں۔t

کرناٹک میں ایک دکاندار آم فروخت کرتا ہواتصویر: picture-alliance/dpa/Jagadessh

تنازع کا سبب

چتوڑ کے ضلعی عہدیداروں نے ریونیو، جنگلات، مارکیٹنگ اور پولیس محکموں کے تعاون سے کرناٹک کے طوطا پری آموں کے ضلعے میں داخل ہونے پر پابندی لگا دی ہے۔ وجہ ہے کرناٹک کے آم آندھرا پردیش میں اگائے جانے والے آم سے سستے ہیں۔

’سلاد کے ليے پھلوں کے بادشاہ کی قربانی‘

آندھرا پردیش حکومت کے ایک سرکاری اہلکار نے بھارتی میڈیا کو بتایا، "ہر سال، آندھرا حکومت اس قیمت کا اعلان کرتی ہے جس پر پروسیسرز کو طوطا پری آم خریدنا چاہیے۔"

ایشوریا رائے، نریندر مودی اور سچن ٹنڈولکر آم کس کی محنت کا پھل؟

انہوں نے بتایا،"اس سال ریاستی حکومت نے 8 روپے فی کلو کی قیمت کا اعلان کیا ہے۔ کم قیمت اور زیادہ سپلائی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے کسانوں کو اضافی 4 روپے فی کلو فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔"

آندھرا پردیش حکومت کا دعویٰ ہے کہ کرناٹک میں، تاہم، قیمت صرف 5 سے 6 روپے فی کلو ہے۔

آندھرا پردیش حکومت کے اہلکاروں کا کہنا تھا،"اگر ہم (کرناٹک) کے آموں کو آندھرا پردیش کی منڈی تک پہنچنے دیتے ہیں، تو پروسیس کرنے والے ان آموں کو ریاست میں اگائے جانے والے آموں پر ترجیح دیں گے۔ اس سے آندھرا کے کسانوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔"

تقریباً دو سو بیس لاکھ ٹن آموں کی خریداری متوقع ہے، حکومت ان آموں پر تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ روپے خرچ کرنے والی ہے۔

بڑھتا ہوا تعطل

اس اچانک اور یک طرفہ اقدام سے کرناٹک میں آم کے کاشتکاروں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، خاص طور پر سرحدی علاقوں کے وہ لوگ جو کافی مقدار میں طوطا پری آم کی کاشت کرتے ہیں۔ یہ کسان طویل عرصے سے چتوڑ کے پروسیسنگ اور گودا نکالنے والے یونٹوں کے ساتھ کاربار کررہے ہیں۔

 کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارامیا نے کہا، "موجودہ پابندی نے ایک اچھی طرح سے قائم سپلائی چین میں خلل ڈالا ہے اور فصل کے بعد کے اہم نقصانات کا خطرہ لاحق ہے، جس سے ہزاروں کسانوں کی روزی روٹی متاثر ہو رہی ہے"۔

کرناٹک کی چیف سکریٹری شالنی رجنیش کے خط میں بھی ایسے ہی خدشات کی بازگشت ہے۔ دونوں خطوط میں کہا گیا ہے کہ کرناٹک کے کسان جوابی اقدامات کر سکتے ہیں۔ جس میں آندھرا پردیش سے کرناٹک تک سرحد کے پار سبزیوں اور دیگر زرعی اجناس کی فروخت کو روکنا شامل ہے، جس سے "بین ریاستی کشیدگی بڑھے گی۔"

یہ تعطل اس تناظر میں سامنے آیا ہے کہ دو ہمسایہ ریاستوں میں ایک دوسرے کی مخالف جماعتوں کی حکومت ہے۔ کرناٹک میں کانگریس برسراقتدار ہے، جب کہ آندھرا پردیش میں تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) کی قیادت والی حکومت ہے، جو مرکز میں بی جے پی کی زیرقیادت قومی جمہوری اتحاد میں کلیدی اتحادی ہے۔

آندھرا پردیش حکومت نے کرناٹک کے خطوط کا سرکاری طور پر ابھی تک جواب نہیں دیا ہے۔

ادارت: صلاح الدین زین

جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں