بھارت کی براہ راست حکمرانی کے چار سالوں کے کشمیر پر اثرات
6 اگست 2023نئی دہلی حکومت کی طرف سے بھارتی زیر انتظام کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کے خاتمے کو چار برس مکمل ہو گئے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق صورتحال بدتر ہو گئی ہے اور اب ان کی امیدیں بھارتی سپریم کورٹ سے ہیں جو کشمیر کی خصوصی حیثیت واپس دلا سکتی ہے۔
بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت کی جانب سے مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی خود مختار حیثیت ختم کرنے کے چار سال بعد بھی بھارت کے زیر انتظام علاقے کے مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ترقی کا جو وعدہ کیا گیا تھا وہ پورا نہیں ہوا اور خطے کا نازک جمہوری توازن بگڑنے کے قریب ہے۔
بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 کی منسوخی نے جموں و کشمیر کو سات دہائیوں سے حاصل خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا تھا، جس میں کشمیر میں بیرونی لوگوں کے زمین خریدنے پر پابندی بھی شامل ہے۔ اس مسلم اکثریتی ریاست میں 70 لاکھ لوگ رہتے ہیں۔
حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے کہا تھا کہ خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور ریاست کو دو انتظامی علاقوں یعنی جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کرنے سے ترقی کو فروغ ملے گا۔ تاہم مسلم اکثریت کو خدشہ ہے کہ اس تقسیم سے خطے کی آبادی میں ہندوؤں کی تعداد بڑھ جائے گی۔
لیکن بھارتی سپریم کورٹ نے دو اگست کو آرٹیکل 370 کی منسوخی کو کالعدم قرار دینے کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت شروع کی۔
حکومت کے فیصلے میں تبدیلی کے لیے سپریم کورٹ امید کی کرن
کشمیری اب ملک کے عدالتی نظام سے اپنی امیدیں وابستہ کر رہے ہیں، کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی جانب سے نئی دہلی کے اس اقدام کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔
سابق کشمیری سیاسی رہنما محبوبہ مفتی اور محمد یوسف تاریگامی نے، جنہیں 2019 میں بھارتی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی سے قبل گرفتار کیا گیا تھا، ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ اس فیصلے کو منسوخ کر دے گی۔
خطے کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا، '' سپریم کورٹ امید کی آخری کرن ہے۔‘‘
جموں و کشمیر کے ضلع کولگام سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر سیاست دان یوسف تاریگامی کے مطابق وہ سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں اس امید کے ساتھ شامل ہوئے تھے کہ کشمیر کے لوگوں کے لیے انصاف ہوگا۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم نے اس منسوخی کو چیلنج کیا ہے کیونکہ یہ خود آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ خطے کو اس افراتفری اور غیر یقینی صورتحال کے خاتمے کی ضرورت ہے جو اس کی خود مختار حیثیت کے خاتمے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔
تاریگامی نے مزید کہا کہ گزشتہ چار سالوں میں خطے میں صورتحال بدتر ہو گئی ہے اور نئی دہلی کی طرف سے نوجوانوں کے لیے ترقی کو ممکن بنانے کے جو وعدے کیے گئے تھے حکومت انہیں عملی شکل دینے میں ناکام رہی ہے۔ تاریگامی کے بقول، ''2019 ء کے بعد سے صحافت کو خاموش کر دیا گیا ہے۔ بہت سے صحافی جیلوں میں ہیں۔ نوکریاں کہاں ہیں؟ تحفظ کا احساس کہاں ہے؟‘‘
محبوبہ مفتی کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت کے خاتمے کے بعد سے یہ علاقہ وفاقی حکومت کے براہ راست زیر انتظام ہے۔ حکومت نے ابھی تک یہ نہیں بتایا ہے کہ اگلے عام انتخابات کب ہوں گے۔
یوسف تاریگامی کے مطابق، ''گزشتہ پانچ سالوں سے ہماری اپنی اسمبلی کا الیکشن نہیں ہوا ہے۔ یہ جمہوریت کے لیے ایک جھٹکا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’اس حق سے انکار لوگوں کے آئینی طور پر فراہم کردہ حقوق پر حملہ ہے۔‘‘
بھارت: غیر مسلم بھی یکساں سول کوڈ کے مخالف کیوں؟
بھارتی کشمیر: فوج پر مسجد میں مسلمانوں سے جے شری رام کے نعرے لگوانے کا الزام
کشمیری اپنی خودمختاری واپس کیوں چاہتے ہیں؟
جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے بھارتی سول سوسائٹی کے ارکان کے ایک گروپ ’’فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں و کشمیر‘‘ نے جمعرات تین اگست کو ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ ''اسمبلی انتخابات کے انعقاد میں ناکامی نے وسیع پیمانے پر اس کشمیری نکتہ نظر کو مضبوط کیا ہے کہ یونین کے منتظمین خطے میں جمہوریت سے ڈرتے ہیں۔‘‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگست 2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے سے اس نازک جمہوری اتفاق رائے کو ختم کر دیا گیا جو ایک دہائی کے قیام امن کے اقدامات کے نتیجے میں ابھرنا شروع ہوا تھا۔
اس گروپ کی ایک رکن رادھا کوما نے، جو دہلی سے تعلق رکھنے والی مصنفہ اور سیاسی تجزیہ کار ہیں، ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگست 2019 ء سے پہلے کے مقابلے میں آج کی صورت حال بہت خراب ہے۔‘‘
کشمیر کے نوجوانوں نے ’اپنا وقار کھو دیا‘
کشمیر کے نوجوان بھی روزگار کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ خطے میں 19 فیصد نوجوان بے روزگار ہیں، جو قومی اوسط 7.5 فیصد سے قریب تین گنا ہے۔
ہزاروں نوجوانوں کالج کی ڈگریاں حاصل کرنے کے باوجود ڈرائیور، سیلز مین اور دیگر نجی ملازمتوں جیسی چھوٹی چھوٹی نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں۔
سرینگر کے رہائشی 32 سالہ رئیس احمد کے مطابق، ''وزیر اعظم نے وعدہ کیا تھا کہ کشمیر میں ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا، ہم نے ابھی تک یہ نہیں دیکھا ہے۔‘‘
سائنس گریجویٹ رئیس احمد نے حال ہی میں اپنی قابلیت کے مطابق نوکری تلاش کرنے کے لیے کئی کوششوں کے بعد ایک آٹو رکشہ خریدا تھا۔
انہوں نے کہا، ''کشمیر میں نوجوان، تعلیم یافتہ لوگ اپنا وقار اور اپنی آواز کھو چکے ہیں۔‘‘ رئیس احمد کا مزید کہنا تھا کہ ان کے لیے نوکری تلاش کرنے کی بہت کم امید رہ گئی ہے۔ اور یہ گزشتہ چار سال عام لوگوں کے لیے تکلیف کا سبب رہے ہیں۔
کشمیریوں کی خود مختاری کے امکانات
بھارتی سپریم کورٹ نے اس معاملے کی سماعت کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے، لیکن محبوبہ مفتی جیسی پارٹی سربراہ کی امیدیں غلط بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔
حکمران جماعت بی جے پی مخالفت کے باوجود آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے اپنے فیصلے پر قائم ہے۔ کچھ ماہرین کو شبہ ہے کہ سپریم کورٹ شاید ہی اس کو تبدیل کرنے کے لیے کچھ کر پائے ۔
کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی تجزیہ کار کے مطابق، ''ان چار سالوں میں حکومت نے زمین کے قوانین پاس کیے ہیں اور جموں و کشمیر کی زمین کو ہر ہندوستانی شہری کے لیے قابل رسائی بنایا ہے۔‘‘ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط کے ساتھ اس تجزیہ کار کا مزید کہنا تھا، '' وہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور لداخ میں چین کے ساتھ لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر آمنے سامنے تصادم کو ہوا دے چکے ہیں۔‘‘
ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں انہوں نے مزید کہا، ''میرے خیال میں یہ فرض کرنا بے وقوفی ہے کہ سپریم کورٹ آف انڈیا کوئی تبدیلی لا پائے گی۔‘‘
رفعت فرید، سری نگر (ا ب ا/ک م)