بھارت کی پارلیمانی شان، جو اب ماند پڑ رہی ہے
28 ستمبر 2020اجلاس کی تاریخوں کا اعلان ہوتے ہی دارلحکومت نئی دہلی میں گہما گہمی شروع ہوجاتی ہے۔ خاص طور پر کیپٹل ایریا، جہاں پارلیمنٹ کے علاوہ دیگر دفاتر واقع ہیں، میں تو میلہ جیسا سماں ہوتا ہے۔
ایک سے ایک عالیشان گاڑیاں، علاقائی مخصوص لباس میں ملبوس اراکین پارلیمان اور کارروائی کا مشاہدہ کرنے کے لیے ملک کے دور دراز علاقوں سے آئے لوگو ں کی آمد سے شہر دہلی جیسے ایک منی بھارت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ صحافیوں کے لیے تو یہ اجلاس ایک نعمت کی صورت میں نازل ہوتا ہے۔ چونکہ اس دوران وزیر اعظم سمیت سبھی وزیروں کے دفاتر پارلیمنٹ ہاوس کی عمارت میں منتقل ہو جاتے ہیں، اس لیے آتے جاتے کئی وزراء سے ہم کلام ہونے اور نیٹ ورکنگ کا موقع ملتا ہے۔ اسٹوریز کی تلا ش میں مصروف صحافیوں کے لیے تو عید ہوتی ہے۔ اپوزیشن اراکین تو پارلیمنٹ سیشن کے انتظار میں ہوتے ہی ہیں، کیوں کہ یہی موقع تو ہوتا ہے کہ حکومت اور وزراء کو آڑے ہاتھوں لینے کا۔ سوالوں کا وقفہ تو پارلیمنٹ کی کارروائی کی جان ہوتا ہے۔ جو وزراء تیاری کر کے نہیں آئے ہوتے ہیں، ان کی جان پر بن جاتی ہے۔ وہ بار بار افسروں کی گیلری کے طرف دیکھ کر جواب طلب کرتے رہتے ہیں۔
مگر جس طرح دنیا بھر میں کورونا کی وباء نے سرگرمیاں بند کر دی ہیں، وہیں اس بار بھارت میں بھی پارلیمنٹ سیشن کی رونق پھیکی تھی۔ کورونا کی آڑ میں حکومت کو بھی موقع ملا کہ پارلیمنٹ کی اصل روح یعنی احتساب کو ہی پرے رکھا گیا اور صرف حکومتی بزنس یعنی قانون سازی تک ہی اس کو محدود رکھا گیا۔
علاوہ ازیں تقریباً دو درجن کے قریب اراکین پارلیمنٹ اور سات وزراء کے کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد بدھ کو اچانک ہی دونوں ایوانوں کی کارروائی معطل کر دی گئی۔ آخری دن تو اپوزیشن پارٹیاں ایوان سے ہی غائب تھیں اور وہ باہر سراپا احتجاج تھیں۔ بجائے ان کو منانے کے، حکومت نے ان کے بغیر ہی نہایت ہی اہم قوانین پاس کروا دیے۔ کارپوریٹ اداروں کو کسانوں سے براہ راست فصل خریدنے سے متعلق بل پر بحث کے اختتام پر، جب اپوزیش اراکین اس پر باضابطہ ووٹنگ کی مانگ کر رہے تھے، تو راجیہ سبھا یعنی ایوان بالا کے ڈپٹی چیر پرسن ہری ونش رائے سنگھ نے ان کو خاطر میں نہ لاکر زبانی ووٹنگ سے ہی بل کو پاس کروایا۔
حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کو ایوان زیریں یعنی لوک سبھا میں قطعی اکثریت حاصل ہے، اپوزیشن اراکین کی قلیل تعداد کی وجہ سے سوالوں کے وقفہ کے علاوہ دیگر وقفوں میں یہاں بحث و مباحثہ میں زیادہ گرم گفتاری اب نہیں ہوتی ہے۔ پر راجیہ سبھا میں حکومت ابھی بھی نسبتاً اقلیت میں ہے اور اپوزیشن ابھی بھی خاصی مضبوط ہے۔ کئی برسوں تک پارلیمنٹ کی کارروائی کور کرنے سے پتہ چلا کہ جمہوریت کے لیے ایک ذمہ دار اپوزیشن اتنی ہی ضروری ہے، جتنا کسی انسانی جسم میں خون کی روانی۔
یہ بھی پڑھیے:
سرکاری رازداری قانون، جمہوریت پر لٹکتی تلوار ہے
صرف دس دن کے وقفے میں حکومت نے 20 مجوزہ قوانین پیش کیے اور 25 پاس کروائے۔ لہذا یہ نتیجہ اخذ کرنا بلکل جائز ہے کہ یہ سیشن صرف حکومتی کام کو انجام دینے کے لیے بلایا گیا تھا۔ اپوزیشن پارٹیوں اور نہ ہی قوانین سے متاثر ہونے والے طبقوں کے ساتھ کوئی مشورہ کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ ان میں سے تین قوانین تو برا ہ راست پنجاب اور ہریانہ صوبوں میں کسانوں کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ خطے ملک کے لئے اناج کے کٹورے کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ کیونکہ ملک کے لئے بیشتر اناج ان علاقوں کے کسان ہی اگاتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ مخلوط حکومتوں کے دور میں حکومت کی کچھ زیادہ جوابدہی ہوتی ہے۔ اس لیے اگر دیکھا جائے، تو پچھلے متحدہ ترقی پسند اتحاد حکومت کے دوران بیشتر مجوزہ قوانین کو پاس کروانے سے قبل پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی یا سیلکٹ کمیٹی کے سپرد کیا جاتا تھا تاکہ ان سے متاثر افراد اور اپوزیشن کے ساتھ سیر حاصل صلاح و مشورہ کرنے کے بعد اس کو پارلیمنٹ میں بحث کے لیے لایا جائے۔
یہ سیشن صحافیوں کے لیے بھی المیے سے کم نہیں تھا۔ کورونا اور سماجی فاصلہ رکھنے کے نام پر بیشتر صحافیوں کو پارلیمنٹ تک رسائی ہی نہیں دی گئی۔ گو کہ ٹی وی چینلوں کے کیمرہ مین اور نمائندوں کو احاطے تک رسائی دی گئی، مگر پریس گیلری میں محض چند نیوز ایجنسیاں اور اکا دکا قومی اخبارات کے رپورٹر کارروائی کور کر رہے تھے۔ علاقائی میڈیا، جو بھارت میں خاصا پھیلا ہوا ہے، کو رسائی نہیں دی گئی۔ علاقائی میڈیا اراکین پارلیمان کے لئے خاصا اہم ہوتا ہے کیونکہ اسی کے ذریعے وہ اپنے حلقہ اور ووٹروں کو بتانے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں کہ انہوں نے اپنے علاقے کی آواز اور مسائل پارلیمنٹ میں اٹھائے۔
بھارتی پارلیمنٹ کے دو ایوانوں کے درمیان ایک سینٹرل ہال ہے، جہاں سال کے اوائل میں پارلیمنٹ کا ایک دن کا مشترکہ اجلاس ہوتا ہے، جس کو صدر خطاب کرتے ہیں۔ دیگر دنوں میں پارلیمنٹ سیشن کے دوران یہ سیاسی سرگرمیوں کا محور ہوتا ہے۔ خاص طور پر اگر مخلوط حکومت ہو، یا حکومت اقلیت میں ہو، فلور منیجمٹ یا بل کو پاس کروانے کے لیے اکثریت جتانے کا کام یہیں ہوتا ہے۔
جن صحافیوں کے پاس پارلیمنٹ کور کرنے کا 15سال کا تحربہ یا قومی اخبارات کے ایڈیٹر ہوں، صرف ان کو ہی سینٹرل ہال تک رسائی دی جاتی ہے۔ یہاں آپ سیاست کو گردش کرتے ہوئے ایسے دیکھتے ہیں، جیسے ٹی وی پر کوئی لائیو شو چل رہا ہوتا ہے۔ ایک طرف کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی، راہول گاندھی اراکین پارلیمان یا صحافیوں سے بات چیت کر رہے ہوتے ہیں، تو دوسری طرف ایل کے ایڈوانی، اٹل بہاری واجپائی، سشما سوراج یا ارون جیٹلی اپنا موقف رکھتے ہوئے نظر آتے تھے۔
مگر نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد اس ہال کی رونق مانند پڑ گئی، کیونکہ وہ وہاں آنا پسند نہیں کرتے ہیں اور اپنے وزیروں کا بھی سینٹرل ہال میں بیٹھنا پسند نہیں کرتے ہیں۔ گو کہ ضوابط کے تحت سینٹرل ہال میں سنی گئی باتوں کو صحافی بطور نیوز رپورٹ نہیں کر سکتے ہیں مگر ایڈیٹروں اور سینئر صحافیوں کے لیے یہ ایک طرح کی اندر کی انفارمیشن حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتا تھا، جس کو وہ اپنے ایڈیٹوریل کالمز میں بیان کرتے تھے۔ اس بار ہر صحافی کو سینٹرل ہال میں جانے سے منع کر دیا گیا۔
مگر کیا اپوزیشن اراکین اور پریس کی رسائی بند کرنے سے جمہوریت کی روح متاثر نہیں ہوتی ہے؟ جہاں اس وقت بھارت کورونا وباء میں کیسوں کے لحاظ سے دنیا میں دوسرے نمبر تک پہنچ گیا ہے، تو صحت عامہ سے متعلق سوال پوچھنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ بتایا جاتا ہے کہ وزیراعظم کے کیئر فنڈ میں اس وبا سے نمٹنے کے لیے 30 بلین روپے جمع ہو چکے ہیں۔
اب کیا پارلیمنٹ کو بھی جاننے کا حق نہیں ہے کہ کس نے اس میں کتنی رقم دی اور پھر اس کو کہاں استعمال کیا جائے گا؟ پارلیمنٹ کا کام قانون سازی تو ہے مگر اگر اس کو احتساب سے الگ کیا جائے تو یہ بغیر روح کے جمہوریت ہو گی، جو شاید عوام کی غالب اکثریت کو قابل قبول نہیں ہو گی۔ بھارت میں عوام نے اس جمہوری نظام کو قائم کروانے کے لیے خاصی قربانیاں دی ہیں اور دنیا میں ملک کو ایک کثیر الجہتی اور لبرل و سیکولر کردار میں متعارف کروایا ہے۔ یہ بھارت کی شان ہے، جو اب ٹوٹ رہی ہے۔ اس کو برقرار رکھنا وقت کی ضرورت ہے۔