بھارت کی یہ ٹیم پاکستان سے بہتر ہے لیکن ۔۔۔
3 جون 2017بھارت کے مشہور سابق کھلاڑی اور کامنٹیٹر روی شاستری نے کچھ برس پہلے پاک بھارت میچ کو سب مقابلوں کا ’ماتا پیتا‘ قرار دیا تھا۔ اس بار بھی سرحد کے دونوں طرف ذرائع ابلاغ میں آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے سلسلے میں ایجبسٹن پر ہونے والے گروپ بی کے اس مقابلے کا ڈھنڈورا دن رات پیٹا جا رہا ہے۔
پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیمیں تقریباً سوا دو سال بعد ایک ایسے وقت میں ایک روزہ بین الاقوامی میچ کھیل رہی ہیں، جب دونوں ملکوں میں سفارتی اور سرحدی کشیدگی اپنے نکتہ عروج پر ہے۔کرکٹ میچ کے لیے کراچی اور ممبئی میں تیار کردہ خصوصی اسٹوڈیوز میں بھی علاقائی سیاست کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
چیمپئنز ٹرافی میں بھارتی عدم شمولیت سے نقصان کس کو؟
پاکستان قومی کرکٹ ٹیم کے سابق ٹیسٹ کپتان جاوید میانداد، جنہوں نے شارجہ میں تاریخی چھکا لگا کر پاکستان کو بھارت کے خلاف ون ڈے کی پہلی بڑی فتح سے ہمکنار کیا تھا، آج کل ایک نیوز چینل کے اشتہار میں للکارتے ہوئے یہ کہتے سنائی دے رہے ہیں، ’’ بھارت والو!آپ مجھے جانتے ہو نا۔ چیمپئنز ٹرافی کا میچ اور کلبھوشن دونوں کو بھول جاؤ۔‘‘
جاوید میانداد کی للکار اور وطن پرستی اپنی جگہ سہی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں زندہ نہیں رہا جا سکتا۔ پاکستان کا مقابلہ اب ایک مختلف بھارتی ٹیم سے ہے جسے شارجہ میں کھیلنے والی ماضی کی انڈین ٹیموں کی طرح جیتے ہوئے میچز ہارنے کی بالکل عادت نہیں۔
بیٹنگ آج بھی بھارتی ٹیم کا طرہٴ امتیاز ہے جس میں کپتان ویراٹ کوہلی، جاوید میانداد جیسے میچ ونرز کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں لیکن بھارت اصل تبدیلی بولنگ کے شعبے میں لایا ہے۔ اب وہ روی ایشون اور روی جدیجہ جیسے نامی اسپنرز پر ہی اکتفا نہیں کر رہا بلکہ بولنگ اٹیک میں اُمیش یادو، محمد شامی اور جسپریت بُمرا جیسے پیسر بھی شامل ہو چکے ہیں، جو 140 کلو میٹڑ فی گھنٹہ کی رفتار سے بال پھینکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
آسٹریلیا کے گیلن میگرا، جو بھارت میں نوجوان فاسٹ بولرز کی کوچنگ کرتے ہیں،کہتے ہیں کہ بھارت کے پاس چیمپئنز ٹرافی کا سب سے متوازن بولنگ اٹیک موجود ہے۔ دوسری جانب پاکستانی ٹیم تشکیل نو کے مرحلے میں ہے۔ سرفراز احمد کی قیادت میں پاکستان پہلی بار بڑا ٹورنامنٹ کھیل رہا ہے۔
سابق پاکستانی کھلاڑی مدثر نذر، جو گزرے ہوئے سنہری دور میں بھارت کے خلاف پاکستان کی کئی فتوحات میں شامل رہے، کہتے ہیں کہ اب وقت بدل گیا ہے اور چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کا سامنا خود سے بڑی بھارتی ٹیم سے ہے۔
ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے مدثر نذر کا کہنا تھا کہ پاکستان کو برمنگھم میں بازی مارنے کے لیے اپنی صلاحیتوں سے بڑھ کر کارکردگی دکھانا ہوگی۔ مدثر نے کہا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کو بھارت کی ایک بڑی ٹیم سے مقابلہ کرنا ہے اور جب آپ خود سے بڑی ٹیم سے کھیلتے ہیں تو اسے ہرانے کے لیے اپنے وزن سے بڑھ کر ’پنچ‘ مارنا پڑتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک روزہ میچوں کا سلسلہ 1978ء میں کوئٹہ میں مشتاق اور بیدی کے دور میں شروع ہوا تھا، جس کے بعد سے پاکستان نے 72 اور بھارت نے 51 میں میچوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔ لیکن آئی سی سی کے زیر اہتمام ہونے والے ٹورنامنٹس میں پاکستان کا ہاتھ تنگ رہا ہے اور یہاں بھارت کا پلڑا 2-11 سے بھاری ہے۔
پاکستان نے یہ دونوں فتوحات اتفاق سے آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں ہی سمیٹی ہیں، جن میں 2004 ء میں اسی ایجبسٹن برمنگھم کی تین وکٹوں کی سنسنی خیز جیت بھی شامل ہے۔ حالیہ عرصے میں ان عالمی مقابلوں میں پاکستانی کھلاڑی پاک بھارت میچ کے دباؤ کا شکار ہو کر یکطرفہ ہارتے رہے ہیں۔ اس بارے میں مدثر نذر کا کہنا تھا کہ اس میچ میں دباؤ دونوں ٹیموں پر یکساں ہوگا اور پاکستانی کرکٹرز کو یہ بات سمجھنا ہو گی۔ آخر میں جو ٹیم اعصاب پر قابو رکھے گی وہی سرخرو نکلے گی۔
بھارتی کپتان ویراٹ کوہلی اور کوچ انیل کومبلے کے درمیان اختلافات کی خبریں اس وقت گرم ہیں۔ مدثر کہتے ہیں کہ پاکستان اس میچ میں اس بات کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ سابق اوپنر نے کہا، ’’اس وقت کوچ اور کپتان کے مابین تنازعے کی وجہ سے بھارتی ڈریسنگ روم کا ماحول خوشگوار نہیں اور اگر پاکستان نے شروع میں حملہ کر دیا تو اس کا اثر پہلے سے پریشان بھارتی ڈریسنگ روم پر پڑے گا اور پھر فیلڈ پر۔‘‘
پاکستان ٹیم میں بابر اعظم، حسن علی اور آل راونڈر فہیم اشرف جیسے نئے کھلاڑی پہلی بار بھارت سے صف آرا ہوں گے۔ مدثر کے مطابق نئے کھلاڑیوں کی شمولیت پاکستان کے سراسر مفاد میں ہے۔ مدثر کے بقول، ’’یہ تمام وہ کھلاڑی ہیں جن پر بھارت سے پاکستان کی حالیہ ناکامیوں کا بوجھ نہیں اس لیے ان کھلاڑیوں سے میچ میں کھل کر کھیلنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔‘‘