بھارت کے انتخابات میں ڈیپ فیک کا بڑھتا خطرہ
23 اپریل 2024عامر خان والا ویڈیو تیس سیکنڈ کا ہے جب کہ رنویر سنگھ والا ویڈیو اکتالیس سیکنڈ کا۔ ویڈیو میں ان کو وزیر اعظم نریندر مودی پر نکتہ چینی کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ جن میں مودی کے انتخابی وعدے پورے نہ کرنے اور اقتصادی اصلاحات کو نافذ کرنے میں ناکام رہنے کی بات کی جارہی ہے۔ آرٹفیشیئل انٹیلی جنس (اے آئی) سے بنائے گئے یہ دونوں ویڈیوز کانگریس کے انتخابی نشان اور نعرے " انصاف کے لیے ووٹ دیں، کانگریس کو ووٹ دیں" کے ساتھ ختم ہوتے ہیں۔
’مصنوعی ذہانت جمہوریت کے لیے بہت بڑا خطرہ اور معاشرتی تقسیم کا سبب بن سکتی ہے‘
مصنوعی ذہانت کے ذریعے پھیلنے والی غلط معلومات خطرناک قرار
جائزوں کے مطابق گزشتہ ہفتے ان دونوں ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر پانچ لاکھ سے زیادہ مرتبہ دیکھا گیا۔
اے آئی سے تیار فیک یا ڈیپ فیک کا استعمال اب امریکہ، پاکستان اور انڈونیشیا سمیت پوری دنیا کے انتخابات میں ہو رہا ہے۔
اے آئی کا استعمال
بھارت میں روایتی طورپر انتخابی مہم گھر گھر جاکر اور ریلیوں کے ذریعہ چلائی جاتی رہی ہے۔ حالانکہ سن 2019 سے واٹس ایپ اور فیس بک بھی انتخابی پروپیگینڈے کے اہم ذرائع کے طورپر استعمال ہونے لگے ہیں۔ اس مرتبہ بھارت کے قومی انتخابات میں پہلی مرتبہ آرٹیفیشیئل انٹیلی جنس (اے آئی) کا بھی بڑے پیمانے پر استعمال ہورہا ہے۔
کانگریس کی ترجمان سجاتا پال نے رنویر سنگھ کے ویڈیو کو اپنے 16000فالوورز کو 17اپریل کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر شیئر کیا۔ اتوار کی شام یعنی 19اپریل تک ان کے پوسٹ کو 2900 مرتبہ ری ٹوئٹ کیا گیا، 8700 لوگوں نے اسے لائک کیا اور 438000 مرتبہ اسے دیکھا گیا۔
بھارت کے الیکشن اس مرتبہ زیادہ اہم کیوں؟
بھارت میں انتخابات: ایکس نے کئی سیاسی پوسٹس بلاک کر دیں
سجاتا پال نے بتایا کہ انہیں معلوم ہے کہ ایکس نے اس ویڈیو کو"Manipulated Media" کے تحت درج کیا ہے، لیکن وہ اسے ڈیلیٹ کرنا نہیں چاہتیں کیونکہ پوسٹ کرتے وقت انہوں نے سوچا کہ یہ شخص رنویر سنگھ جیسا دکھائی دیتا ہے اور "یقینی طورپر یہ کریٹیویٹی ہے۔"
روئٹرز نے جب اس معاملے پر کانگریس کے میڈیا سیل کے سربراہ سے ان کا ردعمل معلوم کیا تو کوئی جواب نہیں ملا۔ اس کے چند گھنٹے بعد اتوار سے یہ پوسٹ دکھائی دینا بند ہوگیا۔
ویڈیو کی پولیس جانچ
دونوں اداکاروں نے کہا ہے کہ یہ ویڈیو فیک تھے۔ فیس بک، ایکس اور کم سے کم آٹھ فیک چیکنگ ویب سائٹوں نے کہا ہے کہ ان سے یا تو چھیڑ چھاڑ کی گئی یا پھر وہ مینی پولیٹیڈ ہیں۔ روئٹرز ڈیجیٹل ویری فیکیشن یونٹ نے بھی اس کی تصدیق کردی ہے۔
اب تک یہ پتہ نہیں چل سکا ہے کہ یہ ویڈیو کس نے بنائے۔ عامر خان اور رنویر سنگھ دونوں کی ٹیموں کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کی جانچ کر رہے ہیں۔ رنویر سنگھ نے ایکس پر لکھا، "ڈیپ فیک سے ہوشیار رہیں، دوستو۔"
وزیر اعظم مودی کے دفتر اور حکمراں بی جے پی کے آئی ٹی سربراہ نے ان ویڈیوز کے متعلق پوچھے گئے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔
ویڈیو کے کچھ ورژن سوشل میڈیا پر بلاک کردیے گئے ہیں، حالانکہ اس کے بعد بھی کم از کم 14ویڈیو سوشل میڈیا پر اتوار کی شام تک ایکس پر دیکھے جاسکتے تھے۔
روئٹرز نے جب کمپنی کو اس کی اطلاع دی تو فیس بک نے دو ویڈیوز ڈیلیٹ کردیے لیکن ایک ویڈیو اب بھی دکھائی دے رہا ہے۔ فیس بک نے ایک بیان میں کہا کہ اس نے "کمپنی کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے ویڈیو ہٹا دیے ہیں۔" ایکس نے روئٹرز کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔
پولیس ان ویڈیوز کی چھان بین کر رہی ہے۔
عامر خان نے ممبئی میں نامعلوم افراد کے خلاف فیک ویڈیو بنانے کے لیے دھوکہ دہی اور مبینہ ہم شکل بنانے کے الزامات میں کیس درج کرایا ہے۔ ممبئی پولیس نے اس معاملے پر کچھ نہیں بتایا لیکن جانچ میں شامل دو افسران نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے فیس بک اور ایکس کو ویڈیو ہٹانے کے لیے لکھا ہے اور کمپنی کا کہنا ہے کہ انہیں ہٹا دیا گیا ہے۔
والدین کا اے آئی ویڈیو
اس سال انتخابات میں سیاسی رہنما دوسرے طریقوں سے بھی اے آئی کا استعمال کررہے ہیں۔ جنوبی بھارت میں کانگریسی رہنما وجئے وسنت کے ترجمان نے بتایا کہ ان کی ٹیم نے اے آئی کا استعمال کرکے دو منٹ کی ایک آڈیو ویڈو کلپ بنائی ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر دکھائی جانے والی اس کلپ میں ان کے والدین ان کے لیے ووٹ مانگے نظر آرہے ہیں۔
وسنت کے والد ایچ وسنت کمار معروف سیاسی رہنما تھا لیکن اب ان کی وفات ہوچکی ہے۔ اس ویڈیو میں ایچ وسنت کمار کو یہ بھی کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے،" خواہ میرا جسم آپ سب کوچھوڑ کر چلا گیا، لیکن میری روح آپ کے آس پاس ہی ہے۔"
یو ٹیوب پر بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی مارکسسٹ (سی پی آئی ایم) نے جو ویڈیو ڈالا ہے اس میں ساڑی پہنے اے آئی سے تیار ایک خاتون نیوز اینکر دکھائی دیتی ہے۔ یہ اینکر اپنے لہجے اور بات چیت میں نیوز چینلوں کی نقل کرتی ہے اور مغربی بنگال کی حکمراں جماعت ترنمول کانگریس کی نکتہ چینی کرتی ہے۔
بھارت میں انٹرنیٹ تک تقریباً 90کروڑ لوگوں کی رسائی ہے۔ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ایسیا سینٹر اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ بزنس اسکول کے سروے سے پتہ چلا ہے کہ اوسط بھارتی ہر دن تین گھنٹے سے زیادہ وقت سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں۔ بھارت میں تقریباً ایک ارب ووٹرز ہیں۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ آرٹیفیشئل انٹیلی جنس یعنی اے آئی سے تیار مواد بھارت کے انتخابات میں کہاں تک جاسکتے ہیں۔
ج ا/ ص ز (روئٹرز)