بھارت میں شہر مسلسل پھیل رہے ہیں۔ اس باعث ٹریفک بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ بڑھتی آبادی اور ٹریفک کے شور سے بڑے شہروں کے بےگھر افراد شب بھر اس خوف میں زندہ رہتے ہیں کہ وہ کسی حادثے کا شکار نہ ہو جائیں۔
اشتہار
بھارت کے بھیڑ والے اور مصروف شہروں میں بسے لاکھوں بے گھر افراد میں سے ایک منجیت کور بھی ہے۔ اُسے یہ نہیں معلوم کہ اُس کی عمر کتنی ہے اور وہ کب سے نئی دہلی کی ایک فٹ پاتھ پر زندگی بسر کر رہی ہے۔ اُس کا سارا سامان پلاسٹ بیگز میں بند ہے اور گندے کپڑے دھو کر انہیں سوکھنے کے لیے فٹ پاتھ کی ریلنگ پر ڈال دیتی ہے۔
برسوں پہلے وہ شمالی بھارتی شہر لدھیانہ میں رہتی تھی اور پھر ایک دن اُس کے سسرال والوں نے جائیداد کے تنازعے پر اُسے گھر سے نکال دیا۔ وہ اپنے دو بیٹوں کو لے کر نئی دہلی پہنچ گئی۔ ابتداء میں وہ خوراک کے لیے ایک گوردوارے جایا کرتی تھی۔ اُس کے پاس کوئی رقم نہیں تھی کہ وہ کسی گھر میں جا بستی۔ اُس کے دونوں بیٹے ایک گوردوارے کے باہر فٹ پاتھ پر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔
تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے منجیت کور نے بتایا کہ اُس کے پاس کوئی جگہ نہیں کہ جہاں جا کر وہ آباد ہو جائے اور اُس کے نام جائیداد کا بھی کوئی ٹکڑا نہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ بھارت میں ایسے بے گھر افراد کو سردی یا شدید گرمی میں پناہ کا کوئی مقام دستیاب نہیں ہوتا۔ یہ پلاسٹک شیٹ کی چھت تلے گرمی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس انہیں ڈراتی دھمکاتی رہتی ہے لیکن وہ کہاں جائیں۔ اسی طرح جب لوگوں کو فٹ پاتھ پر چلنے میں دشواری ہوتی ہے تو وہ اُن پر لعن طعن کرتے ہیں۔ انہیں مسلسل بےآرامی اور حادثوں کا خوف بھی لاحق رہتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسے لوگوں کے پاس ایک چھوٹا سا کمرہ لینے کے پیسے بھی نہیں اور جو ہوتے ہیں، وہ اُن کی شکم کی آگ ٹھنڈی کرنے پر خرچ ہوجاتے ہیں۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں کئی ہزار انسان بےگھری کا شکار ہیں اور مسلسل لوگوں کی آمد ہو رہی ہے۔ یہ لوگ روزگار کی تلاش میں دیہات اور چھوٹے قصبوں سے نئی دہلی جیسے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ انجام کار جب نئے آنے والوں کو بھی کو کوئی جگہ نہیں ملتی تو وہ کسی فٹ پاتھ یا پھر کوئی کچی بستی ڈھونڈ لیتے ہیں۔ اسی طرح بے شمار لوگ فٹ پاتھ کے علاوہ مختلف پلوں اور فلائی اوورز کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
بھارت میں بےگھر افراد کی کُل تعداد میں دس فیصد خواتین ہیں، جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ بھارت میں ایسے لاچار و بے سرو سامان افراد کی تعداد کا تعین کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے اور بےگھری کی شکار خواتین کے بارے میں قابل اعتماد ڈیٹا تو میسر ہی نہیں۔
حقوق کے اداروں کے مطابق صرف نئی دہلی میں بےگھر افراد کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ سن 2011 کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں بے گھر افراد کی تعداد میں کمی ہوئی ہے لیکن یہ سات برس پہلے کی بات ہے۔
بے گھر افراد کا گاؤں
اسکاٹ لینڈ میں بے گھر افراد کی مدد کرنے کے لیے نئے طریقے آزمائے جا رہے ہیں۔ ان میں ایک ’سوشل بائٹ ولیج‘ نامی منصوبہ بھی شامل ہے۔ اس میں لکڑی کے گھران افراد کے لیے بنائے گئے ہیں، جن کے پاس کوئی مستقل رہائش نہیں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
بالکل ایک تعطیلاتی گاؤں کی طرح
یہ ’سوشل بائٹ ولیج‘ ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے یہاں بے گھر افراد کی مدد کی جا رہی ہے۔ اس منصوبے میں تعاون فراہم کرنے والے کھانے پینے کی اشیاء پہلے ہی مہیا کر دیتے ہیں، جنہیں بعد میں یہاں رہنے والے بے گھر افراد میں بانٹ دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
چھوٹا اور صاف ستھرا
’سوشل بائٹ ولیج‘ کا مقصد صرف یہ نہیں کہ بے گھر افراد کوصرف کھانا پینا فراہم کیا جائے بلکہ ایک مقصد انہیں چھت مہیا کرنا بھی ہے۔ اس گاؤں میں بیس افراد رہ رہے ہیں۔ یہ گھر چھوٹے اور انتہائی پائیدار ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
تمام سہولیات میسر
ان چھوٹے گھروں میں ایک ہی کمرہ ڈرائنگ اور ڈائننگ روم ہے۔ اس میں ایک چھوٹا سے باورچی خانہ بھی ہے۔ اسی طرح دوسرے کمرے میں غسل خانہ ہے۔ یہ بہت پر تعیش تو نہیں مگر سڑکوں پر راتیں بسر کرنے سے بہت بہتر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
لکڑی کا استعمال
یہ تمام گھر لکڑی سے بنائے گئے ہیں۔ لکڑی کے ساتھ ساتھ پچیس سینٹی میٹر موٹائی والی انسولیشن بھی لگائی گئی ہے تاکہ سردی سے بچا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
گرم اور آرام دہ
ان گھروں میں خواب گاہ بہت زیادہ فاصلے پر نہیں ہے۔ اس کمرے کو کم جگہ استعمال کرتے انتہائی آرام دہ بنایا گیا ہے۔ بے گھر افراد طویل عرصے تک یہاں قیام نہیں کر سکتے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
سویٹ ہوم
بے گھر افراد کو رہنے میں جتنا بھی مزہ آ رہا ہو، اٹھارہ ماہ سے زیادہ یہاں کوئی قیام نہیں کر سکتا۔ اس دوران ’سوشل بائٹ ولیج‘ کے کارکن ان بے گھر افراد کی مدد کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی زندگی دوبارہ شروع کرنے کے قابل ہو سکیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
اپنی مدد آپ
’سوشل بائٹ ولیج‘ کے کارکن ان کو بھی تعاون فراہم کرتے ہیں، جو ماضی میں بے گھر افراد کے اس گاؤں کا حصہ رہ چکے ہوں۔ انہیں روزگار کی تلاش اور روز مرہ زندگی کے حوالے سے اہم معلومات مہیا کی جاتی ہیں۔ اس تصویر میں دکھائی دینے والے دونوں افراد ماضی میں بے گھر تھے اور اب ’سوشل بائٹ ولیج‘ منصوبے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
بے گھر ہونے کے خلاف جنگ
جوش لٹل جون بے گھر ہونے کی حالت کے خاتمے کے لیے جنگ کا اعلان کر چکے ہیں۔ وہ اس منصوبے کے شریک بانی بھی ہیں۔ شاید یہ منصوبہ اسکاٹ لینڈ کے دیگر حصوں کے لیے بھی ایک مثال بن جائے یا پھر دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اسی طرح کے منصوبے شروع کر دیے جائیں۔