1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کے حصے کا پانی پاکستان کو نہیں دیا جائے گا، مودی

25 نومبر 2016

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ وہ بھارت کے حصے کا پانی پاکستان جانے نہیں دیں گے۔ بھارت پہلے بھی اپنے روایتی حریف پاکستان کے خلاف پانی کو ’ہتھیار کے طور پر‘ استعمال کرنے کی بالواسطہ دھمکی دے چکا ہے۔

Indien Unabhängigkeitstag in Neu-Delhi
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/H. Tyagi

بھارتی صوبہ پنجاب کے شمال میں ہونے والی ایک عوامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے قوم پرست وزیراعظم نریندر مودی کا کہنا تھا، ’’بھارت کے حصے کا پانی بہہ کر پاکستان جا رہا ہے۔ میں اس پانی کا ایک ایک قطرہ روکنے میں مصروف ہوں اور اسے اپنے کسانوں تک پہنچاؤں گا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’اس کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے کہ ہم اپنے حق کا پانی استعمال نہ کریں۔‘‘

بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے صدر ایوب خان نے کراچی میں 19 ستمبر سن 1960 کو عالمی بینک کی ثالثی میں سندھ طاس معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔ جس کی رو سے چھ دریاؤں کو دونوں ملکوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔

کشمیر سے بہنے والے تین مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب پر پاکستان کو خصوصی اختیار اور پنجاب سے بہنے والے تین مشرقی دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج پر بھارت کو مکمل اختیار دیا گیا تھا۔ بھارت اس معاہدے کی رو سے مغربی دریاؤں کا 3.6 ملین ایکڑ فٹ پانی استعمال کرسکتا ہے لیکن اس نے آج تک اس کے لیے کوئی اسٹوریج سہولیات نہیں بنائی ہے۔

پاکستان بڑی حد تک دریائے سندھ کے پانی پر انحصار کرتا ہےتصویر: picture-alliance / dpa

رواں برس ستمبر میں بھی بھارت نے کہا تھا کہ وہ سندھ طاس معاہدے کا دوبارہ جائزہ لے گا، جس کے جواب میں پاکستان نے بین الاقوامی عدالت برائے انصاف اور ورلڈ بینک سے معاملے میں مداخلت کرنے کا کہا تھا۔ حال ہی میں پاکستان نے اقوام متحدہ میں بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ’پانی کو ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کرنے سے باز رہے۔

پاکستان بڑی حد تک دریائے سندھ کے پانی پر انحصار کرتا ہے۔ اس کے تقریباً65 فیصد حصے کو اسی دریا سے پانی ملتا ہے۔ اگر بھارت اپنے یہاں سے پاکستان کی طرف جانے والی دریاؤں کا پانی روک دیتا ہے تو پاکستان میں پانی کا زبردست بحران پیدا ہوجائے گا۔ تاہم آبی ماہرین کہتے ہیں کہ اس سے خود بھارت کو بھی نقصان ہوگا اور جموں و کشمیر نیز بھارتی پنجاب کے علاقے سیلاب کی زد میں آجائیں گے۔

یہ امر بھی دلچسپ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سن 1965اورسن 1971 کی جنگیں نیز سن 1999 کی کارگل عسکری مہم جوئی کے باوجود دونوں ملک سندھ آبی معاہدہ کو نہایت خوش اسلوبی سے برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں اور اس معاہدے کو بین سرحد ی دریاؤں کے پانی کے استعمال کے حوالے سے تعاون کے لیے عالمی رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں