بھارت کے دلت اور چین کے ایغورغلامی کی جدید شکلیں،اقوام متحدہ
18 اگست 2022اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے انسانی حقوق ٹومویا اوبوکاٹا نے عالمی ادارے کو پیش کردہ اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا کے کئی حصوں میں غلامی نئی شکل میں بڑے پیمانے پر موجود ہے۔ ان میں چین اور بھارت سمیت جنوبی ایشیا کے کئی ممالک، خلیجی ممالک، برازیل اور کولمبیا کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔
چین میں ایغور مسلمانوں اور جنوبی ایشیا میں دلتوں کو دور جدید کی غلامی کا شکار بتایا گیا ہے۔ رپورٹ میں موریطانیہ، مالی، نائیجر اور افریقہ کے ساحل علاقے میں تو اقلیتوں کو روایتی طورپر غلام بناکر رکھنے کے واقعات کا بھی ذکر موجود ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بدھ کے روز رکن ممالک کو دستیاب کرائی گئی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بچہ مزدوری، جو کہ دور جدید میں غلامی کی ہی ایک شکل ہے، دنیا کے ہر حصے میں پائی جاتی ہے اور اس کی بدترین صورتیں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔
اوبوکاٹ نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ،"ایشیا اور بحرالکاہل، مشرق وسطیٰ، امریکہ اور یورپ میں چار سے چھ فیصد بچوں کے مزدوری کرنے کی واقعات سامنے آئے ہیں۔ افریقہ میں یہ 21.6 فیصد ہے جب کہ سب سہارا افریقہ میں یہ سب سے زیادہ 23.9 فیصد ہے۔
چین کے ایغور مسلمان
امریکہ نے گزشتہ برس چین کے شمال مغربی صوبے سنکیانگ میں تیار ہونے والی مصنوعات کی درآمد پر پابندی لگادی تھی۔ اوبوکاٹ نے اس کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ چین کے ایغور مسلمانوں کو غلام بنا کر رکھا گیا ہے کیونکہ امریکہ نے پابندی عائد کرنے کے حوالے سے اپنے ضابطے میں کہا ہے کہ اس علاقے سے صرف ایسے مصنوعات کی درآمد کی اجازت دی جائے گی جن کی تیاری میں بندھوا مزدوروں کا استعمال نہیں ہوا ہے۔
چین پر یہ الزام ہے کہ وہ مغربی خطے کے نسلی اور مذہبی ایغور اقلیتوں کا بڑے پیمانے پر اور منظم انداز میں استحصال کر رہا ہے۔ حالانکہ چین ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
انگلینڈ میں کیلے یونیورسٹی میں بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے پروفیسر اوبوکاٹا نے کہا کہ متاثرین اور حکومتوں کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کے علاوہ کئی آزاد ذرائع سے دستیاب کرائی گئی اطلاعات کے غیر جانبدارانہ تجزیہ کی بنیاد پر ان کا خیال ہے کہ "یہ کہنا منطقی ہوگا کہ ایغور، قزاخ اور دیگر نسلی اقلیتوں سے سنکیانگ میں زراعت اور مینوفیکچرنگ جیسے شعبوں میں بالجبر مزدوری کرائی جارہی ہے۔"
چین کا طریقہ کار
انہوں نے چین کے ذریعہ استعمال کیے جانے والے دو طریقہ کار کا ذکر کیا۔ ایک تو جس میں اقلیتوں کو حراستی مراکز میں رکھ کر انہیں تربیت دی جاتی ہے اور پھر انہیں کام پر لگا دیا جاتا ہے اور دوسری غریبی کو ختم کرنے کی اسکیم میں جس کے تحت دیہی علاقوں میں دستیاب اضافی مزدروں کو دیگر علاقوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔
اوبوکاٹ کا کہنا ہے کہ تبت میں ایسی اسکیمیں اپنائی گئی ہیں جہاں کسانوں، چرواہوں اور دیگر دیہی مزدوروں کو دوسرے علاقوں میں کم آمدنی والے شعبوں میں کام کرنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سرکاری دعووں کے مطابق یہ اسکیمیں روزگار اور آمدن تو پیدا کرتی ہیں لیکن بہت سے معاملات میں یہ کام زبردستی کرایا جاتا ہے اور مزدوروں کو بہت زیادہ نگرانی، دھمکیوں اور جسمانی اور جنسی تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
اوبوکاٹا نے کہا،"غلامی کے بعض واقعات تو ایسے ہیں جنہیں انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا جاسکتا ہے۔"
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ووانگ وین بین نے اوباکاٹا کی رپورٹ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے "امریکہ اور بعض دیگر مغربی ملکوں نیز چین مخالف طاقتوں کی جانب پھیلائی گئی جھوٹ اور غلط اطلاعات پر مبنی" قرار دیا۔
عورتوں کو غلام بنانے کا چلن
اوبوکاٹ نے اپنی رپورٹ میں جبراً کرائی جانے والی شادیوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بیشتر جبراً شادیاں پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، بھارت اور صومالیہ میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان کے علاوہ بوکوحرام عیسائی خواتین اور لڑکیوں کو جبراً تبدیلی مذہب کرکے شادی کے لیے مجبور کرتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ"میانمار میں سکیورٹی فورسز روہنگیا مسلم عورتوں کو منظم انداز میں جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان کے بعض اقدامات تو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے دائرے میں آتے ہیں۔"
جنسی غلامی کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انسانی بحران کا شکار علاقوں میں اس کا رجحان پریشان کن ہے۔ اوبوکاٹ نے عراق میں اقلیتی یزیدی فرقے کا ذکر کیا ہے جہاں 6500 خواتین کو داعش کے انتہا پسندوں نے اغوا کر لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان علاقوں میں ریپ کو ہتھیار کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔
ج ا/ص ز (اے پی، روئٹرز)