بھارت کے دیہی علاقوں میں اب کورونا تیزی سے پھیلتا ہوا
12 مئی 2021بھارت میں گزشتہ تقریباً ایک ماہ سے کورونا وائرس کا شدید بحران جاری ہے اور صورت حال میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ممبئی اور دہلی جیسے بڑے شہروں میں انفیکشن کی شرح میں کچھ کمی درج کی گئی ہے تاہم مجموعی طور پر صورت حال میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی ہے۔
اب ایک اور تشویش ناک بات یہ سامنے آ رہی ہے کہ یہ وبا شہروں سے نکل کر ملک کے دیہی علاقوں میں تیزی سے پھیل رہی ہے جس سے شدید جانی و مالی نقصان کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق متاثرین کے تقریباً 45 فیصد کیسز اب دور دراز کے دیہی اضلاع سے آ رہے ہیں جہاں صحت کی سہولیات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔
گزشتہ روز ایک حکومتی رپورٹ میں کہا گيا تھا کہ بھارت کے تقریباً 90 فیصد باشندوں میں وائرس سے جلدی متاثر ہونے کے آثار پائے جاتے ہیں اور دیہی علاقوں میں یہ رجحان کافی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے جہاں ہسپتال تو کیا دوائیں بھی دستیاب نہیں ہیں۔
دیہی علاقوں کے کیسز درج نہیں ہو رہے
بعض غیر سرکاری تنظیموں کا کہنا ہے کہ دیہی اضلاع میں نہ تو متاثرین کے ٹیسٹ ہو رہے ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی درست ڈیٹا دستیاب ہے۔ اس فہرست میں ریاست اتر پردیش اور بہار سر فہرست ہیں جہاں کئی گاؤں میں لوگ تیز بخار اور کھانسی و نزلے جیسی بیماری میں مبتلا ہونے کی شکایت کرتے ملے۔
ریاست اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کے قرب و جوار میں بسے گاؤں کے ایک شخص نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے گاؤں میں اس وقت تقریباً سو افراد،’’ جاڑا، کھانسی اور بخار جیسی بیماریوں میں مبتلا ہیں اور اس دوران بعض ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا، "یہاں نہ تو کوئی ٹیسٹ کرواتا ہے اور نہ ہی کوئی سرکاری ہسپتال ہے اس لیے ڈاکٹر جو بھی دوا دیتے ہیں اسی پر گزارا ہوتا ہے۔ چونکہ کسی کا کوئی ٹیسٹ نہیں ہوا اس لیے انہیں اصل میں کونسی بیماری لاحق ہے؟ یا پھر کس وجہ سے انسان ہلاک ہوئے اس بارے میں یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔‘‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ تقریباً سبھی لوگوں میں تیز بخار اور کھانسی نزلے کی شکایات پائی جاتی ہیں۔ ’’کئی لوگ تو پچھلے دو ہفتوں سے بھی زیادہ وقت سے اس لیے پریشان ہیں کہ آخر مسلسل دوا کے باوجود یہ علامتیں کیوں برقرار ہیں۔‘‘
خدشات کیا ہیں؟
بھارت میں گزشتہ تقریباً ایک مہینے سے متعدد بڑے شہروں میں کووڈ 19 کے مریضوں کو ہسپتالوں میں ایک بیڈ اور ادویات حاصل کرنے کے لیے شدید جد و جہد کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ ایسے بہت سے واقعات ہیں جب لوگ ہسپتال کے باہر انتظار میں بیٹھے بیٹھے انتقال کر گئے یا پھر آکسیجن نہ ہونے کے سبب درجنوں مریض ہلاک ہوگئے۔
دلی اور ممبئی جیسے بڑے شہروں کو طبی سہولیات اور جدید ہسپتالوں سے آرستہ بتایا جاتا تھا جہاں طبی سیاحت کو فروغ دینے کی بھی کوششیں ہوتی رہیں۔ تاہم گزشتہ ایک ماہ سے جو صورت حال ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان شہروں میں ہسپتالوں کا قحط پڑ گيا ہو۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بھارت کے شہروں میں طبی سہولیات کا یہ حال ہے تو پھر دیہی علاقوں میں کیا حال ہو گا۔ ان کے مطابق اگر اس وبا پر فوری طور پر قابو پانے کی کوشش نہ کی گئی تو وہاں صورت حال مزید ابتر ہو سکتی ہے کیونکہ دیہی اضلاع میں تو میلوں تک کہیں اسپتال نہیں ہیں۔
معیشت پر بھی اثرات مرتب ہونے کا خطرہ
اقتصادی ماہرین کے مطابق بھارت میں کورونا وائرس کی دوسری لہر سے اب تک دسیوں لاکھ افراد بے روز گار ہو چکے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اس بار معیشت پر گزشتہ برس سے بھی زیادہ برا اثر پڑے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر دیہی علاقوں میں یہ وبا پھیلتی ہے تو پھر سب سے پہلے اس کا اثر ضروری اشیا کی سپلائی لائن پر پڑے گا اور اس سے جہاں ایک طرف غذائی اشیا کی افراط زر کی شرحوں میں اضافے کا خدشہ ہے وہیں کاشت کی پیداوار بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
کئی بھارتی معاشی ماہرین یہ بات پہلے ہی سے کہتے رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن اور بے روز گاری کے سبب شہری علاقوں میں بھی مانگ میں خاصی کمی واقع ہو گی اور اس سے معاشی ترقی کی شرح میں اضافے کی کوششوں کو شدید دھچکا لگے گا اور معیشت کی بازیابی بہت مشکل ہو گی۔
کورونا کا قہر جاری
اس دوران بھارت میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے چار ہزار 205 مزید افراد کا انتقال ہو گيا ہے جو کہ اس وبا سے ایک دن کے اندر اموات کا ایک نیا ریکارڈ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اسی اثناء میں تقریباً ساڑھے تین لاکھ مزید افراد کووڈ 19 سے متاثر بھی پائے گئے ہیں۔
بھارت میں اس وبا سے مجموعی طور پر ہلاکتوں کی تعداد اب ڈھائی لاکھ سے زیادہ ہو گئی ہے اور حکومت کے مطابق اب تک دو لاکھ چون ہزار 197 افراد اس وبا سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ مجموعی طور پر متاثرہ افراد کی تعداد دو کروڑ 33 لاکھ 44 ہزار سے بھی زیادہ ہے۔ اس وقت بھارت میں تقریباً ساڑھے سینتیس لاکھ ایکٹیو کیسز ہیں جن کا مختلف ہسپتالوں میں علاج جاری ہے۔