بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا خونی اتوار
2 اگست 2010بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں قائم عمر عبداللہ کی حکومت گیارہ جون سے جاری حکومت مخالف مظاہروں کو روکنے یا کنٹرول میں بظاہر ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ اتوار کے روز ہونے والی ہلاکتیں تقریباً سات ہفتوں سے جاری مظاہروں کے دوران کسی ایک دن میں ہونے والا سب سے بڑا جانی نقصان ہے۔ اب تک کل انتیس افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور بے شمار زخمیوں کے علاوہ ڈیڑھ ہزار گرفتار بھی کئے جا چکے ہیں۔
حکام کے مطابق کرفیو کی خلاف ورزی کرنے والے مظاہرین نے جموں سری نگر ہائی وے پر رکاوٹیں کھڑی کرتے ہوئے اُسے بلاک کرنے کی بھی کوشش کی اور انتباہ کے باوجود مظاہرین نے سکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کے علاوہ ڈنڈوں سے حملہ کرنے کی بھی کوشش کی۔ اس صورت حال میں سکیورٹی حکام کو فائرنگ کرنا پڑی اور اس وقوعے میں کم از کم چار افراد کی ہلاکت ہوئی، جن میں ایک بیس سالہ لڑکی افروز اختر بھی شامل ہے۔ تمام ہلاک شدگان کو پولیس کی گولیوں کے زخم آئے تھے۔ مظاہرین نے پامپور کے تحصیل دار آفس کو بھی نذر آتش کر دیا۔ چند گاڑیاں کو جلائے جانے کو بھی رپورٹ کیا گیا ہے۔
مظاہرین کی جانب سے ایک پولیس کیمپ کو نذر آتش کرنے کی بھی اطلاع ہے۔ یہ کیمپ سپیشل اپریشن گروپ کے اراکین کے استعمال میں تھا۔ کھریو کے مقام پر نذر آتش کئے جانے والے کیمپ میں بارود کے ذخیرے کے پھٹنے سے کم از کم پانچ شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔ اتوار کے روز ہلاکتوں کے علاوہ کم از کم پینتیس افراد زخمی بتائے گئے ہیں۔
بھارتی زیر انتظام کشمیر میں پُر تشدد ہنگاموں کے تناظر میں کانگریس کی مرکزی حکومت نے اتوار کو کابینہ کی خصوصی سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ بھی طلب کی۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو مزید مشاورت کے لئے دہلی طلب کر لیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت کا خیال ہے کہ تعینات فورسز کو ریاست کی سیاسی لیڈر شپ سے مزید تعاون درکار ہے۔ ریاستی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے تمام طبقہ ہائے زندگی سے پُر امن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے امن دشمن قوتوں کی مذمت کی ہے۔
گیارہ جون سے پُر تشدد مظاہروں کا سلسلہ ایک سترہ سالہ نوجوان طفیل مٹو کی پولیس ایکشن میں ہلاکت سے شروع ہوا تھا۔ طفیل مٹو سر میں آنسو گیس کا شیل لگنے سے ہلاک ہوا تھا۔ ان ہنگاموں کے ساری وادی میں پھیل جانے کی اطلاعات ہیں۔ متاثرہ اضلاع میں سری نگر کے علاوہ سوپور اور بارہ مولا نمایاں ہیں۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: امجد علی