1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کے لیے تیسری روسی جوہری آبدوز، تین ارب ڈالر کا معاہدہ

8 مارچ 2019

بھارت نے روس کے ساتھ ایک اور جوہری آبدوز کے پٹے پر حصول کے لیے ایک دوطرفہ معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ یہ اپنی نوعیت کی تیسری آبدوز ہو گی، جو تین ارب ڈالر مالیت کے معاہدے کے تحت دس سال کے لیے بھارت کو مہیا کی جائے گی۔

ایک روسی جوہری آبدوزتصویر: Getty Images/AFP/M. Bager

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے جمعہ آٹھ مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ملکی میڈیا نے آج بتایا کہ بھارت کو یہ نئی آبدوز ملنے سے اسے بحر ہند کے خطے میں اپنے دو سب سے بڑے حریف ہمسایہ ممالک پاکستان اور چین پر قدرے برتری حاصل ہو جائے گی۔

ماسکو اور نئی دہلی کے مابین اس معاہدے کے طے پانے سے پہلے مذاکرات کئی ماہ تک جاری رہے اور یہ ڈیل ایک ایسے وقت پر طے پائی ہے جب بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں چودہ فروی کو ہونے والے ایک بڑے خودکش دہشت گردانہ حملے میں چالیس سے زائد بھارتی نیم فوجی اہلکاروں کی موت کے بعد سے نئی دہلی اور اسلام آباد کے مابین انتہائی کشیدگی پائی جاتی ہے۔

بھارتی وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے اے ایف پی کے ساتھ بات چیت میں اس امر کی تصدیق کرنے سے انکار کر دیا کہ اس جوہری آبدوز سے متعلق معاہدہ طے پا گیا ہے اور یہ کہ ایٹمی توانائی سے چلنے والی یہ آبدوز ماسکو 2025ء تک دس سال کے لیے پٹے پر انڈین نیوی کے حوالے کر دے گا۔

روس سرد جنگ کے زمانے سے ہی بھارت کا ایک قریبی اتحادی رہا ہے اور اب تک نئی دہلی کو ہتھیار فراہم کرنے والا ایک بڑا ملک بھی ہے۔ اس ڈیل کے طے پانے سے واشنگٹن میں امریکی رہنما اس لیے بھی خفا ہوں گے کہ امریکا کی طرف سے ایسے ممالک پر پابندیوں کا اعلان کیا جا چکا ہے، جو روس سے فوجی ساز و سامان خریں گے۔

اس دفاعی ڈیل سے قبل گزشتہ برس اکتوبر میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے مابین ایک ملاقات میں یہ بھی طے پا گیا تھا کہ بھارت روس سے ایس چار سو طرز کے زمین سے زمین تک مار کرنے والے میزائل سسٹم خریدے گا۔ اس معاہدے کی مالیت تقریباﹰ 5.2 ارب ڈالر بنتی ہے۔

دوسری طرف بھارت اور امریکا کی بحر ہند کے خطے کی صورت حال سے متعلق سوچ میں ایک قدر مشترک بھی ہے۔ واشنگٹن اور نئی دہلی دونوں کو ہی اس بات پر تشویش ہے کہ چین بحر ہند میں اپنے فوجی اثر و رسوخ میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرتا جا رہا ہے۔

م م / ع ت / اے ایف پی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں