بھارت کے لیے چینی مصنوعات کا بائیکاٹ تقریباً ناممکن
آسیہ مغل
18 جون 2020
بھارت میں چین کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔ لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کی باتیں وقتی جوش سے زیادہ کچھ نہیں۔
تصویر: Reuters/A. Fadnavis
اشتہار
چینی فوجیوں کے ہاتھوں 20 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں چین کی مصنوعات کے بائیکاٹ کامطالبہ کیا جارہا ہے۔ چین کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔ سیاسی رہنما قوم پرستی کے نام پر چینی مصنوعات کے بائیکاٹ اور چین کو سبق سکھانے پر زور دے رہے ہیں۔ تاجر برادری کا ایک حصہ بھی ایسی اپیلیں کررہا ہے۔
لیکن ماہرین کے نزدیک یہ سب وقتی جوش سے زیادہ کچھ نہیں، کیوں کہ بھارت کی مارکیٹ کا چین پر اتنا انحصار ہے کہ اس سے نجات حاصل کرنا مشکل ہے۔
بھارت تقریباً ہر چیز کے لیے چین پرانحصار کرتا ہے۔ بھاری مشنری سے لے کر ہر طرح کے ٹیلی کام، پاور آلات اور دوا سازی میں استعمال ہونے والے اجزاء تک، حتی کہ بھارت اپنی کئی مصنوعات جو دوسرے ملکوں کو برآمد کرتا ہے، ان کے لیے بھی خام مال اسے چین سے ہی درآمد کرنا پڑتا ہے۔
بھارتی محکمہ کامرس کی رپورٹ کے مطابق چین، امریکا کے بعد بھارت کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ رواں مالی سال میں فروری تک چین بھارت کو 62.37 بلین ڈالر کی برآمدات کرچکا ہے جب کہ بھارت سے درآمدات صرف 15.54 بلین ڈالر ہے۔ اس طرح بھارت کو اب تک 46.83 بلین ڈالر کا تجارتی خسارہ ہوچکا ہے۔
معروف تھنک ٹینک گیٹ وے ہاؤس کی رپورٹ کے مطابق چین نے پچھلے پانچ برسوں کے دوران بھارت کے ٹیکنالوجی سیکٹر میں اپنے لیے انتہائی اہم مقام پیدا کرلیا ہے۔ چین نے بھارتی منڈی انتہائی سستے اسمارٹ فونز سے بھر دی ہے۔ حتی کہ بھارت میں بعض یورپی ملکوں سے درآمد کیے جانے والے اسمارٹ فون بھی چین میں ہی تیار ہوکر آتے ہیں۔ گزشتہ برس بھارت میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والے چار اسمارٹ فونز چین میں ہی تیار شدہ تھے۔ بھارتی محکمہ کامرس کے مطابق 2019 میں بھارت میں 16 بلین ڈالر سے زیادہ کے چینی اسمارٹ فونز فروخت ہوئے۔
2019 میں بھارت میں 16 بلین ڈالر سے زیادہ کے چینی اسمارٹ فونز فروخت ہوئے۔تصویر: picture-alliance/dpa/AA/A. Unal
چینی کمپنیوں نے بھارت کے بہت سارے اسٹارٹ اپس میں کافی سرمایہ کاری کی ہے۔ بروکنگز انڈیا کی رپورٹ کے مطابق چینی کمپنیاں بھارت میں طویل مدتی موجودگی چاہتی ہیں اوربھارتی کمپنیوں میں ان کی سرمایہ کاری نے انہیں مارکیٹ میں مضبوطی سے قدم جمانے میں مدد کی ہے۔ بروکنگز انڈیا کے سابق محقق اننتھ کرشنن کہتے ہیں کہ، "میں نہیں سمجھتا کہ لوگ اس بات کو سمجھ پا رہے ہیں کہ چین پر بھارت کا مکمل انحصار ختم کرنا کتنا مشکل ہے۔"
اسی دوران کاروباری افراد کی تنظیم کنفیڈریشن آف آل انڈیا ٹریڈرز نے چین میں تیار ہونے والی 500 سے زیادہ مصنوعات کی ایک فہرست جاری کی ہے اور لوگوں سے ان کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی ہے۔ ان میں کھلونے، کپڑے، ملبوسات، روزمرہ کے استعمال کی چیزیں، باورچی خانہ میں استعمال کی چیزیں، فرنیچر، ہارڈ ویئر، جوتے، ہینڈ بیگ، سفری اشیاء، الیکٹرانکس، کاسمیٹکس، الیکٹرانکس، گھڑیاں، زیورات، اسٹیشنری،کاغذ، ہیلتھ پروڈکٹس، آٹو موبائل پارٹس وغیرہ شامل ہیں۔
کنفیڈریشن کے جنرل سکریٹری پروین کھنڈیلوال کا کہنا ہے کہ ان چیزوں کی تیاری کے لیے خصوصی ٹکنالوجی کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ چیزیں آسانی سے بھارت میں بھی تیار کی جاسکتی ہیں۔ اس سے چین پر ان اشیاء کے لیے بھارت کا انحصار کم ہوگا۔
بھارت کے 20 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں چین مخالف مظاہرے ہو رہے ہیں۔تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. K. Singh
سرکاری رپورٹوں کے مطابق بھارت میں ٹیلی کام آلات کی مارکیٹ 12000کروڑ روپے کی ہے۔ اس میں چینی کمپنیوں کی حصہ داری 25 فیصد ہے۔ 25000 کروڑ روپے کی ٹیلی ویژن مارکیٹ میں چین کا حصہ تقریباً 45 فیصد، 50 ہزار کروڑ روپے کے ہوم ایپلائنسز مارکیٹ میں چین کی حصہ داری 10-12فیصد،57ارب ڈالرکے آٹو موبائل مارکیٹ میں چینی حصہ داری 26فیصد ہے۔ سولر پاور کا مارکیٹ سائز37916 میگا واٹ کا ہے اس میں چین کی کمپنیوں کا 90 فیصد حصہ ہے۔ 45 کروڑ اسمارٹ فون استعمال کرنے والوں میں 66 فیصد چینی ایپ استعمال کرتے ہیں۔ اسٹیل مارکیٹ 108.5 میٹرک ٹن کی ہے۔ اس میں چین کا شیئر 18-20 فیصد جبکہ 2 بلین ڈالر کے فارما سیکٹر میں چینی کمپنیوں کی حصہ داری 60 فیصد ہے۔
چین کی کمپنیوں کی سستی مصنوعات نے بھارت میں اپنی جڑیں اتنی گہرائی سے پیوست کرلی ہیں کہ انہیں اکھاڑنا بہت مشکل ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کو چینی مصنوعات اور اشیاء کا بائیکاٹ کرنے سے قبل دوسرے سستے متبادل تلاش کرنے ہوں گے۔ پچھلے دنوں بھارت کی برآمدات میں جو بہتری دیکھنے میں آئی وہ بھی کسی حد تک چین کی طرف سے مانگ میں اضافہ کی مرہون منت ہے۔
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ کیوں؟
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ عشروں پرانا ہے۔ یہ تنازعہ تبت کے چین میں شامل کیے جانے سے شروع ہوا تھا۔ اس تنازعے کے اہم نکات پر ایک نظر:
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
طویل تنازعہ
قریب 3500 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد کی حدیں کیا ہونی چاہییں؟ اسی معاملے پر دونوں ہمسایہ ممالک نے سن 1962 میں ایک جنگ بھی لڑی لیکن کوئی تصفیہ پھر بھی نہ ہو سکا۔ ناقابل رسائی علاقے، غیر حتمی سروے اور برطانوی سامراجی دور کے نقشے نے اس تنازعے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ دنیا کی دو بڑی اقتصادی طاقتوں کے درمیان سرحد پر کشیدگی ان کے اپنے اور پوری دنیا کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
تصویر: Getty Images
اکسائی چین
كاراكاش دریا پر سمندر سے 14 ہزار فٹ سے لے کر 22 ہزار فٹ تک کی بلندی پر موجود اکسائی چین کا زیادہ تر حصہ ویران ہے۔ 32 ہزار مربع کلومیٹر میں پھیلا یہ علاقہ پہلے ایک کاروباری راستہ تھا اور اسی وجہ سے اس کی بڑی اہمیت بھی ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ چین نے جموں کشمیر کے اکسائی چین میں اس کے 38 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔
تصویر: Vogel/Bläse
اروناچل پردیش
چین دعویٰ کرتا ہے کہ میکموہن لائن کے ذریعے بھارت نے اروناچل پردیش میں اس کا 90 ہزار مربع کلومیٹر علاقہ دبا لیا ہے جبکہ بھارت اس علاقے کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ ہمالیہ کے علاقے میں اس سرحدی تنازعے کے حل کی خاطر سن 1914 میں برٹش انڈیا اور تبت کے درمیان شملہ میں ایک کانفرنس کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dinodia
کس نے کھینچی یہ لائن
برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ نے وہ میكموہن لائن کھینچی تھی، جس نے برطانوی بھارت اور تبت کے درمیان سرحدی علاقے کو تقسیم کر دیا تھا۔ چین کے نمائندے شملہ کانفرنس میں موجود تھے لیکن انہوں نے اس معاہدے پر دستخط کرنے یا اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تبت چینی انتظامیہ کے تحت ہے، اس لیے تبت کو دوسرے ملک کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
تصویر: Imago
بین الاقوامی سرحد
سن 1947 میں آزادی کے بعد بھارت نے میكموہن لائن کو سرکاری سرحدی لائن کا درجہ دے دیا۔ اگرچہ 1950ء میں تبت پر چینی کنٹرول کے بعد بھارت اور چین کے درمیان یہ لائن ایسی متنازعہ سرحد بن گئی تھی، جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا تھا۔ چین میكموہن لائن کو غیر قانونی، نوآبادیاتی اور روایتی قرار دیتا ہے جبکہ بھارت اسے بین الاقوامی سرحد کی حیثیت دیتا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Sagol
معاہدہ
بھارت کی آزادی کے بعد سن 1954 میں بھارت اور چین کے درمیان تبت کے علاقے میں تجارت اور نقل و حرکت کے لیے ایک معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے بعد بھارت نے سمجھا کہ اب سرحدی تنازعے کی کوئی اہمیت نہیں رہی اور چین نے اس کی تاریخی حیثیت کو قبول کر لیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online
چین کا موقف
چین کا کہنا ہے کہ اس متنازعہ سرحد پر بھارت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا اور بھارت تبت پر چینی حاکمیت کو تسلیم کرے۔ اس کے علاوہ چین کا یہ بھی کہنا ہے کہ میكموہن لائن پر بیجنگ کو آج بھی تحفظات ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Baker
سکم
سن 1962 میں چین اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی۔ مہینہ بھر جاری رہنے والی اس جنگ میں چینی فوج بھارت علاقوں لداخ اور اروناچل پردیش میں بھی گھس گئی تھی۔ تاہم بعد ازاں چینی فوج حقیقی کنٹرول لائن پر واپس لوٹ گئی تھی۔ اسی مقام پر بھوٹان کی سرحد بھی ہے۔ سکم وہ آخری علاقہ ہے، جہاں تک بھارت کو رسائی حاصل ہے۔ سکم کے کچھ علاقوں پر بھوٹان کا بھی دعویٰ ہے اور بھارت اس دعوے کی حمایت بھی کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images
مان سروَور
چین کے خود مختار علاقے تبت میں واقع مان سروَور ہندوؤں کا اہم مذہبی مقام ہے، جس کی یاترا کے لیے ہر سال ہندو وہاں جاتے ہیں۔ بھارت اور چین کے کشیدہ تعلقات کا اثر ہندوؤں کے لیے اس مقدس مقام کی یاترا پر بھی پڑا ہے۔ موجودہ تنازعہ شروع ہونے کے بعد چین نے بھارتی ہندوؤں کو وہاں مشرقی راستے سے ہو کر جانے سے روک دیا تھا۔
تصویر: Dieter Glogowski
مذاکراتی تصفیے کی کوشش
بھارت اور چین کی جانب سے گزشتہ 40 برسوں میں اس تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی بہت کوششیں کی گئیں۔ اگرچہ ان کوششوں سے اب تک کوئی خاص نتائج حاصل نہیں ہو سکے تاہم چین کئی بار کہہ چکا ہے کہ اس نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سرحدی تنازعے بات چیت سے حل کر لیے ہیں اور بھارت کے ساتھ یہ معاملہ بھی نمٹ ہی جائے گا۔ لیکن دوطرفہ مذاکرات کے 19 طویل ادوار کے بعد بھی اس سلسلے میں اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔