1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کے مریخ مشن کی کامیاب روانگی

عاطف بلوچ5 نومبر 2013

بھارت نے پہلی مرتبہ مریخ کے لیے اپنا خلائی مشن آج بروز منگل روانہ کر دیا۔ اس مشن کی کامیابی کی صورت میں بھارت ایشیا کا ایسا پہلا ملک بن سکتا ہے، جس نے سرخ سیارے پر اپنا کوئی مشن بھیجا ہو۔

تصویر: imago/Xinhua

اس سے پہلے خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بھارتی حکام کے حوالے سے بتایا تھا کہ مریخ کے لیے بغیر انسان کے ایک راکٹ جنوب مشرقی ساحلی علاقے میں قائم شری ہری کوٹا نامی خلائی اسٹیشن سے عالمی وقت کے مطابق صبح نو بج کر آٹھ منٹ پر چھوڑا جائے گا۔ اس راکٹ کا وزن 1.35 ٹن بتایا گیا ہے۔ اس مشن پر مجموعی طور پر 73 ملین امریکی ڈالر کی لاگت آئی ہے۔

’کاؤنٹ ڈاؤن طے شدہ پروگرام کے مطابق چل رہا ہے‘تصویر: picture-alliance/AP

بھارتی خلائی تحقیقی ادارے ISRO کے ترجمان دیوی پرشاد کارنیک نے اے ایف پی کو بتایا تھا، ’’کاؤنٹ ڈاؤن طے شدہ پروگرام کے مطابق چل رہا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ موسم معتدل ہے، ’’اگرچہ بادل چھائے ہوئے ہیں تاہم کوئی مشکل نہیں ہے۔‘‘

بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے پندرہ ماہ قبل ایک ایسے وقت پر اس خلائی مشن کا اعلان کیا تھا، جب چین کی طرف سے مریخ کی طرف بھیجا گیا ایک خلائی مشن ناکام ہو گیا تھا۔ تب مریخ مشن کے اعلان پر ایسی قیاس آرئیاں بھی کی گئی تھیں کہ بھارت خطے میں فوجی اور معاشی حوالے سے اپنے آپ کو منوانے کی کوشش میں ہے تاہم ISRO نے ایسے تمام دعووں کو مسترد کر دیا تھا۔

بھارتی خلائی تحقیقی ادارے کے چیئرمین کے۔ رادھا کرشنن نے گزشتہ ہفتے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہر ملک کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں، ’’ہم نے اپنے لیے جو اہداف بنائے ہیں، اس حوالے سے ہمارا مقابلہ خود اپنے آپ سے ہے۔‘‘

سنہری رنگ کی چھوٹی کار یا بڑے ریفریجریٹر کے سائز کی خلائی شٹل امریکی اور روسی خلائی راکٹوں کے مقابلے میں کافی چھوٹے راکٹ کی مدد سے لانچ کی گئی۔ یہ امر اہم ہے کہ ابھی تک مریخ کے لیے روانہ کیے جانے والے نصف مشن ناکام ہو چکے ہیں۔2011ء میں چین اور 2003ء میں جاپان بھی مریخ کے مدار میں اپنا خلائی مشن پہنچانے میں ناکام ہو گئے تھے۔ آج تک صرف امریکا، روس اور یورپی یونین ہی ایسے کامیاب تجربے کر سکے ہیں۔

اس مشن پر مجموعی طور پر 73 ملین امریکی ڈالر کی لاگت آئی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

دوسری طرف بھارت میں کچھ حلقوں کی طرف سے اس خلائی مشن کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں حکومت نہ صرف ملکی عوام کو مؤثر طریقے سے خوارک فراہم کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ جہاں نصف سے زائد آبادی کے پاس ٹائلٹ کی بنیادی سہولت بھی نہیں ہے، وہاں اس طرح کے منصوبوں پر رقوم خرچ نہیں کی جانا چاہییں۔

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں قائم ہاؤسنگ اور لینڈ رائٹس نیٹ ورک سے منسلک شوانی چوہدری نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’حکومت کی اولین ترجیح بنیادی سماجی سہولیات میں بہتری ہونا چاہیے اور پھر ایسے بہت سے مشنز پر کام کیا جا سکتا ہے۔‘‘ تاہم ISRO کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی سے معاشی ترقی میں مدد مل سکے گی کیونکہ اس سے سیٹلائٹس کے ذریعے موسم اور آبی وسائل کی نگرانی کے علاوہ ملک کے دور دراز علاقوں میں کمیونکیشن بھی ممکن ہو سکے گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں