ٹاٹا گروپ کے سابق چیئرمین رتن ٹاٹا کا 86 برس کی عمر میں ممبئی میں انتقال ہوگیا، وہ کچھ عرصے سے علیل تھے۔ ٹاٹا کمپنی کو دنیا کے سب سے بڑے صنعتی گروپ میں سے ایک میں تبدیل کرنے کا سہرا ان کے سر ہے۔
اشتہار
بھارت کی معروف صنعتی کمپنی ٹاٹا گروپ نے ایک بیان میں کہا کہ ملک کے وسیع تر صنعتی گھرانے کے سابق چیئرمین رتن ٹاٹا بدھ کے روز 86 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔
ٹاٹا سنز کے چیئرمین این چندر شیکھرن نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے ایک پوسٹ میں لکھا، "نقصان کے گہرے احساس کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ ہم مسٹر رتن نیول ٹاٹا کو الوداع کہتے ہیں، جو واقعی ایک غیر معمولی رہنما تھے اور جن کی بے پناہ شراکت نے نہ صرف ٹاٹا گروپ کو بلکہ ہماری قوم کے تانے بانے کو بھی تشکیل دیا ہے۔"
اس سے قبل پیر کے روز ٹاٹا گروپ نے سوشل میڈیا پر بتایا تھا کہ وہ ممبئی کے ایک ہسپتال میں اپنی عمر اور غیر متعینہ طبی حالات کی وجہ سے معمول کے طبی معائنے کے لیے داخل کیے گئے ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے رتن ٹاٹا کو ایک بصیرت افروز رہنما اور ایک غیر معمولی انسان قرار دیا۔ ایکس پر اپنی پوسٹ میں انہوں نے لکھا، "انہوں نے بھارت کے سب سے پرانے اور باوقار کاروباری گھرانوں میں سے ایک کو مستحکم قیادت فراہم کی۔ ان کا تعاون بورڈ رومز سے بھی سبقت لے گیا۔"
امریکہ کی کارنیل یونیورسٹی سے آرکیٹیکچر میں گریجویشن کرنے کے بعد، ٹاٹا سن 1962 میں بھارت واپس آئے اور اپنے خاندانی کاروبار میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے پھر ٹاٹا اسٹیل اور موٹرز کے شعبے میں کام کیا۔
ں سے ایک، اور ایک بڑے عالمی ادارے میں وسعت کرنے کے ساتھ ہی اسے متنوع بنانے کا سہرا دیا جاتا ہے۔
انہوں نے سن 2000 میں گروپ نے برطانوی چائے فرم ٹیٹلی کو خریدا۔ سن 2007 میں انہیں کی قیادت میں ایک غیر ملکی فرم کو بھارت کے سب سے بڑے ٹیک اوور کو منظم کیا اور 'اینگلو-ڈچ اسٹیل میکر کورس' کو ٹاٹا نے 13 بلین ڈالر کی لاگت سے خرید کر اپنے گروپ کا حصہ بنا لیا۔
سن 2008 میں ٹاٹا موٹرز نے برطانوی لگژری آٹو برانڈز جیگوار اور لینڈ روور کو فورڈ موٹر کمپنی سے 2.3 بلین امریکی ڈالر میں خریدا۔
انہوں نے سن 2013 میں اسٹینفورڈ گریجویٹ اسکول آف بزنس کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ "یہ ترقی کی جستجو اور زمینی اصولوں کو تبدیل کرنے کی ایک کوشش کی تھی کہ ہم دوسری کمپنیوں کو حاصل کر کے ترقی بھی کر سکتے ہیں، جو پہلے ہم نے کبھی نہیں کیا تھا۔"
اس کار کو عوام کے لیے سستی ذاتی نقل و حمل کا ایک ماڈل کہا جاتا تھا، تاہم، حفاظتی مسائل کی وجہ سے اسے 10 سال بعد بند کر دیا گیا۔
ٹاٹا سنز نے 2023-24 میں 165 بلین ڈالر کی آمدن ریکارڈ کی۔ اس کمپنی کو پہلی بار سن 1868 میں جمشید جی ٹاٹا نے ایک تجارتی فرم کے طور پر قائم کیا تھا۔
اس گروپ میں اب دس شعبوں میں 30 سے زائد کمپنیاں شامل ہیں، جو 100 سے زائد ممالک میں کام کر رہی ہیں۔ گروپ کی ویب سائٹ کے مطابق، یہ کمپنیاں مل کر 10 لاکھ سے زیادہ افراد کو ملازمت فراہم کرتی ہیں۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)
برطانوی کار ساز صنعت بتدریج فروخت ہوتی ہوئی
سن 1958 میں برطانیہ کا نمبر کار صنعت میں دوسرا تھا۔ امریکا کار سازی میں پہلے مقام پر تھا۔ سن 2008 میں برطانیہ کی پوزیشن دوسری سے بارہویں پر آ گئی ہے۔ بے شمار برطانوی کار ساز ادارے فروخت کیے جا چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W.Hong
آسٹن مارٹن: جیمز بانڈ کی گاڑی بھی فروخت ہونے لگی
یہ لگژری اسپورٹس کار سن 1913 سے برطانیہ سمیت دنیا بھر میں پسند کی جاتی تھی۔ سن 1964 کی بانڈ سیریز کی فلم ’گولڈ فنگر‘ میں اس کا پہلی باراستعمال کیا گیا۔ اس فلم میں جیمزبانڈ کا کردار شین کونری نے ادا کیا تھا۔ اس کار کو چھ مختلف بانڈ فلموں میں استعمال کیا جا چکا ہے۔ رواں برس اس کو فروخت کیا جا رہا ہے۔ اماکاناً اس کو 4.3 بلین یورو کے لگ بھگ خریدا جا سکے گا۔
تصویر: Imago/Cinema Publishers Collection
جیگوار: اب بھی سڑکوں پر موجود ہے
مہنگی لگژری کاروں میں شمار کی جانے والی یہ کار جیگوار لینڈ روور کا برانڈ ہے۔ جیگوار لینڈ روور ایک کثیر الملکی کار ساز ادارہ ہے۔ اب اس کی مالک ایک بھارتی کمپنی ٹاٹا موٹرز ہے، جس نے اسے سن 2008 میں خریدا۔ اس کار ساز ادارے کی بنیاد سن 1922 میں رکھی گئی تھی۔ اس ادارے کو برطانوی وزیراعظم کے لیے موٹر کار تیار کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اسے ملکہ برطانیہ کی پسندیدگی کی سند بھی حاصل رہی ہے۔
تصویر: Imago/Sebastian Geisler
ٹرائمف: ایک پسندیدہ اسپورٹس کار
ٹرائمف اسپورٹس کار خاص طور پر امریکی شائقین کے مزاج کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تیار کی گئی تھی۔ یہ کار سن 1968 سے 1976 کے دوران باقاعدگی سے امریکی مارکیٹ کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس دوران تقریباً ایک لاکھ موٹر کاریں برآمد کی گئیں۔ اس کار کے ساتھ اِس کے دلدادہ خاص لگاؤ رکھتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER
رولز رائس: دنیا کی بہترین کار
سن 1987 کے ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق دنیا بھر میں کوکا کولا کے بعد رولز رائس سب سے مقبول برانڈ ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران اس کار ساز ادارے نے ہوائی جہازوں کے انجن بھی بنانے شروع کر دیے۔ عالمی جنگ کے بعد اس ادارے کی مشکلات کے تناظر میں لندن حکومت نے اس قومیا لیا اور پھر سن 1987 میں فروخت کیا تو جرمن ادارے بی ایم ڈبلیو نے خرید لیا۔ رولز رائس کی فینٹم کار کی قیمت چار لاکھ یورو سے شروع ہوتی ہے۔
تصویر: DW
مورس مائنر: ایک انگش کار
مورس مائنر کار کی پروڈکشن سن 1948 میں شروع کی گئی۔ سن 1972 تک یہ کار سولہ لاکھ کی تعداد میں تیار کر کے مارکیٹ میں لائی گئی۔ یہ واحد انگلش کار ہے، جو دس لاکھ سے زائد فروخت ہوئی۔ بعض افراد اس کے ڈیزائن کو خالصتاً انگریز مزاج کے قریب خیال کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER
لوٹس: ایک جاندار حسن کا امتزاج
لوٹس کار ساز ادارہ اسپورٹس کاروں کے مختلف برانڈ تیار کرتا ہے۔ اس کا پروڈکشن ہاؤس دوسری عالمی جنگ میں استعمال ہونے والے ہوائی اڈے پر تعمیر کیا گیا۔ سن 2007 میں چینی کار ساز ادارے گیلی نے لوٹس کار کے اکاون فیصد حصص خرید لیے اور بقیہ کی ملکی ایٹیکا آٹو موٹو کے پاس ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J.-F. Monier
رینج روور: جدید دور کا اہم نام
لینڈ روور کار ساز ادارے کی یہ پروڈکشن عالمی شہرت کی حامل ہے۔ اس کو پہلی مرتبہ سن 1970 میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اس وقت اس کا چوتھا ماڈل مارکیٹ میں ہے۔ اس کے نئے ماڈل کی امریکا میں قیمت تقریباً دو لاکھ ڈالر کے قریب ہے۔ یہ کار خاص طور پر جدید ویل ٹیکنالوجی کا شاہکار ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مورگن: انتظار کریں اور شاہکار آپ کے ہاتھ میں
مورگن موٹر کمپنی کا قیام سن 1910 میں ہوا تھا۔ مورگن پروڈکشن ہاؤس وُرسٹرشائر میں واقع ہے۔ اس کے ملازمین کی تعداد صرف 177 ہے۔ یہ ایک برس میں صرف 1300 گاڑیاں تیار کرتا ہے۔ اس گاڑی کی پروڈکشن انسانی ہاتھ کا شاہکار ہے۔ ایک نئی مورگن کار خریدنے کے لیے کم از کم چھ ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ انتظار کا یہ سلسلہ گزشتہ دس برس سے دیکھا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/HIP/National Motor Museum
لینڈ روور: شاہی خاندان کی سواری
چار پہیوں کو بھی استعمال میں لانے کی صلاحیت رکھنے والی یہ خاص موٹر کار برطانوی ملٹی نیشنل ادارے جیگوار لینڈ روور کی تخلیق ہے۔ اس کار ساز ادارے کی ملکیت سن 2008 سے اب بھارتی کمپنی ٹاٹا موٹرز کے پاس ہے۔ اس برطانوی شاندار گاڑی کو سن 1951 میں بادشاہ جورج نے پسندیدگی کا سرٹیفکیٹ دیا تھا۔
تصویر: Imago/CTK Photo
لنڈن کیب: ایک اور شاندار تسلسل
لندن کیب برطانوی دارالحکومت کے قریب واقع ایک گاؤں ہیکنی میں تیار کی جاتی ہے۔ اس گاؤں نے سن 1621 میں پہلی گھوڑوں سے کھینچی جانے والی ٹیکسی کوچ سروس متعارف کرائی تھی۔ امریکی شہر نیویارک میں ٹیکسی کے لیے ’ہیک‘ کا لفظ بھی اس گاؤں سے مستعار لیا گیا۔ لندن کی ٹیکسی سروس اسی قدیمی ہارس کوچ سروس کا تسلسل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایم جی بی، ایک پسندیدہ اسپورٹس کار
ایم جی بی کار دو دروازوں والی اسپورٹس موٹر کار ہے۔ اس کو سن 1962 میں پہلی مرتبہ تیار کیا گیا۔ اس کار کی پروڈکشن برٹش موٹر کارپوریشن (BMC) نے شروع کی اور یہی کار ساز ادارہ بعد میں برٹش لی لینڈ کہلاتا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Galuschka
مِنی: چھوٹی کار بھی عمدہ ہو سکتی ہے
سن 1999 میں مِنی نام کی کار کو بیسویں صدی کی دوسری بہترین کار قرار دیا گیا تھا۔ اس کو سن 1960 میں متعارف کرایا گیا جب بڑی برطانوی موٹر کاروں کا دور دورہ تھا۔ جرمن کار ساز ادارے بی ایم ڈبلیو نے اس کار ساز ادارے کو سن 1994 میں خریدا اور پھر سن 2000 میں اِس کے بیشتر حصص فروخت کر دیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Warmuth
آسٹن: نظرانداز کی جانے والی اہم کار
اس نام کی موٹر کار سن 1987 تک تیار کی جاتی رہی ہے۔ اس کو بنانے والا ادارہ دیوالیہ ہو گیا تھا۔ اس کا ٹریڈ مارک اب چینی کار ساز کمپنی شنگھائی آٹو موٹو انڈسٹری کارپوریشن (SAIC) کی ملکیت ہے۔ ابھی اس نام کی موٹر کار مارکیٹ میں کم دستیاب ہے۔
تصویر: dapd
بینٹلے: ویلز پر ایک شاہکار
بینٹلے اس وقت دنیا کے سب سے بڑے کار ساز ادارے فولکس ویگن کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ اس کار ساز ادارے کے قیام کو ایک سو برس ہونے والے ہیں۔ اس کے بیشتر پرزے اور اجزا برطانیہ میں تیار ہوتے ہیں جب کہ کچھ فولکس ویگن کی ڈریسڈن میں واقع فیکٹری میں بنتے ہیں۔ یہ انتہائی شاہکار موٹر کار تسلیم کی جاتی ہے اور دنیا کی اشرافیہ اس کو اپنے گیراج میں رکھنا فخر سمجھتی ہے۔