بھارت کے سکریٹری دفاع اجے کمارکے کوروناوائرس کی وبا سے متاثر ہونے کی خبروں نے ملک کے ڈیفنس اسٹیبلشمنٹ میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔
اشتہار
یہ تشویش ناک پیش رفت ایسے وقت ہوئی ہے جب بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازعہ شدت اختیار کرگیا ہے اور دونوں ممالک اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے 6 جون بروز ہفتہ اعلی کمانڈروں کی سطح پر بات چیت کرنے والے ہیں۔
وزارت دفاع کے ترجمان نے گوکہ اس حوالے سے کچھ بھی کہنے سے فی الحال انکار کردیا ہے تاہم یہاں سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈیفنس سکریٹری اجے کمار کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی تصدیق کے بعد وزارت دفاع کے دفتر ساوتھ بلاک میں صدمے کی لہر دوڑ گئی اور بدھ کے روز وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نیز دیگر اعلی فوجی اورسویلین افسران اپنے دفاترنہیں گئے۔
ذرائع کے مطابق ”ساوتھ بلاک کو انفیکشن سے پاک کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات شروع کردیے گئے ہیں اور یہ پتہ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ڈیفنس سکریٹری اس دوران کن کن لوگوں کے رابطے میں آئے تھے۔ پچھلے چند دنوں کے دوران تقریباً 30 افراد ڈیفنس سکریٹری کے رابطے میں آئے تھے ان سب کی فہرست تیار کرلی گئی ہے اور انہیں خود ساختہ قرنطینہ میں چلے جانے کے لیے کہا گیا ہے۔“
ادھر وزیر دفاع کے دفتر نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ راج ناتھ سنگھ بدھ کے روز دفتر نہیں آئے تاہم یہ بھی کہا کہ وہ اپنی سرکاری رہائش گاہ پر ’قرنطینہ میں نہیں ہیں۔“
خیال رہے کہ ڈیفنس سکریٹری وزیر دفاع کی طرف سے منعقدہ تمام میٹنگوں میں بالعموم موجود رہتے ہیں اور اعلی فوجی افسران کے ساتھ بھی ان کا مستقل ملنا جلنا رہتا ہے۔ وزیر دفاع کا دفتر ڈیفنس سکریٹری کے کمرے سے صرف چند قدم کے فاصلے پر ہے اور جس منزل پر ان کا دفتر ہے اسی پر انڈین آرمی اور بھارتی بحریہ کے سربراہوں کے دفاتر بھی ہیں۔ چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت کا دفتر بھی اسی عمارت میں واقع ہے۔
بھارت اور چین کے درمیان جاری سرحدی کشیدگی اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے 6 جون کو دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی مجوزہ میٹنگ کی وجہ سے ان دنوں ساوتھ بلاک میں سرگرمیاں کچھ زیادہ ہی زوروں پر ہیں۔
ایک دن میں 15 ہزارسے زائد نئے کیسز
کورونا وائرس کے عالمی سطح پر پھیلنے کی رفتار سے متعلق پیش گوئی کرنے والے ادارے چین کی لانزہو یونیورسٹی کے محققین کا کہنا ہے کہ بھارت میں جون کے وسط سے ہر دن نئے کیسز کی تعداد 15000 سے زیادہ ہوتی جائے گی۔ ان محققین کا کہنا ہے کہ انہوں نے بھارت میں دو جون کے لیے 9291 نئے کیسز کی پیش گوئی کی تھی جو درست ثابت ہوئی۔ بدھ کے روز سے اگلے چار دنوں تک بالترتیب 9676، 10078، 10936 اور 10936 نئے کیسز کی پیش گوئی کی ہے۔ چینی محققین نے مزید کہا کہ 15جون تک بھارت میں کووڈ انیس کے ہر روز 15000سے زائد نئے کیسز دیکھنے کو ملیں گے۔
بھارت یورپی ملکوں کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا
بھارت کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد کے لحاظ سے سب سے زیادہ متاثرہ تین یوروپی ممالک اٹلی، برطانیہ اور اسپین کو جلد ہی پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔ بھارت میں متاثرین کی تعد اد دو لاکھ 17ہزار سے زیادہ ہوچکی ہے اور مریضوں کے دوگنا ہونے کی رفتارکے لحاظ سے یہ برازیل کے برابر پہنچ گیا ہے۔ تاہم تھوڑی راحت کی بات یہ ہے کہ مریضوں کی ہلاکت کے لحاظ سے امریکا اور روس کو چھوڑ کر باقی ملکوں کے مقابلے میں بھارت کی صورت حال بہتر ہے۔ البتہ بھارت میں ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد پر سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں۔ وزارت صحت کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں کووڈ انیس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد اس وقت چھ ہزار 88 ہے۔
دریں اثنا بھارت میں پچھلے 24 گھنٹے میں کورونا کے نو ہزار 304 نئے کیسز سامنے آئے جو ایک دن میں سب سے زیادہ کیسز کا نیا ریکارڈ ہے۔
کورونا گزشتہ نومبر میں ہی پہنچ گیا تھا
بھارت میں گوکہ سرکاری طور پر کووڈ انیس کا پہلا مصدقہ کیس 30 جنوری کو جنوبی ریاست کیرالا میں سامنے آیا تھا لیکن بھارت میں وبائی امراض کی تحقیق کے ادارے سینٹر فار سیلولر اینڈمالیکیولر بایولوجی نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ کورونا وائرس نومبر 2019 میں ہی چین سے بھارت پہنچ چکا تھا۔ ایم آر سی اے نامی سائنسی تکنیک کی بنیاد پر مبنی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس بھارت میں 26 نومبر اور 25 دسمبر 2019 کے درمیان کسی وقت بھارت پہنچا تھا۔
لاک ڈاؤن کو ممکن بنانے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کی کارروائیاں
کورونا وائرس کی وجہ دنیا بھر کے متعدد ممالک میں لاک ڈاؤن کیا گیا ہے تاکہ اس عالمی وبا کے پھیلاؤ کے عمل میں سستی پیدا کی جا سکے۔ کئی ممالک میں اس لاک ڈاؤن کو یقینی بنانے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کی مدد بھی طلب کرنا پڑی ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
لاہور، پاکستان
لاک ڈاؤن کے باوجود پاکستان کے متعدد شہروں میں لوگوں کو سڑکوں پر دیکھا جا سکتا ہے۔ لاہور میں پولیس اہلکاروں کی کوشش ہے کہ لوگوں کو باہر نہ نکلنے دیا جائے تاہم ان کی یہ کوشش کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔
تصویر: DW/T. Shahzad
موغادیشو، صومالیہ
افریقی ملک صومالیہ میں بھی نئے کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے۔ تاہم دارالحکومت موغادیشو میں لوگ معاملے کی نزاکت کو نہیں سمجھ پا رہے۔ اس لاک ڈاؤن کو مؤثر بنانے کے لیے کئی مقامات پر سکیورٹی اہلکاروں نے شہریوں کو اسلحہ دکھا کر زبردستی گھر روانہ کیا۔
تصویر: Reuters/F. Omar
یروشلم، اسرائیل
اسرائیل میں بھی کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر لاک ڈاؤن کیا جا چکا ہے۔ تاہم اس یہودی ریاست میں سخت گیر نظریات کے حامل یہودی اس حکومتی پابندی کے خلاف ہیں۔ بالخصوص یروشلم میں ایسے لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنے سے روکنے کی خاطر پولیس کو فعال ہونا پڑا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
برائٹن، برطانیہ
برطانیہ بھی کورونا وائرس سے شدید متاثر ہو رہا ہے، یہاں تک کے اس ملک کے وزیر اعظم بورس جانسن بھی اس وبا کا نشانہ بن چکے ہیں۔ برطانیہ میں لاک ڈاؤن کيا گیا ہے لیکن کچھ لوگ اس پابندی پر عمل درآمد کرتے نظر نہیں آ رہے۔ تاہم پولیس کی کوشش ہے کہ بغیر ضرورت باہر نکلنے والے لوگوں کو واپس ان کے گھر روانہ کر دیا جائے۔
تصویر: Reuters/P. Cziborra
گوئٹے مالا شہر، گوئٹے مالا
گوئٹے مالا کے دارالحکومت میں لوگ کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلنے سے نہیں کترا رہے۔ گوئٹے مالا شہر کی پولیس نے متعدد لوگوں کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔
تصویر: Reuters/L. Echeverria
لاس اینجلس، امریکا
امریکا بھی کورونا وائرس کے آگے بے بس نظر آ رہا ہے۔ تاہم لاک ڈاؤن کے باوجود لوگ سڑکوں پر نکلنے سے گریز نہیں کر رہے۔ لاس اینجلس میں پولیس گشت کر رہی ہے اور لوگوں کو گھروں میں رہنے کی تاکید کی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Grillot
چنئی، بھارت
بھارت میں بھی لاک ڈاؤن کیا گیا ہے لیکن کئی دیگر شہروں کی طرح چنئی میں لوگ گھروں سے باہر نکلنے سے باز نہیں آ رہے۔ اس شہر میں پولیس اہلکاروں نے لاک ڈاؤن کی خلاف وزری کرنے والوں پر تشدد بھی کیا۔
تصویر: Reuters/P. Ravikumar
کھٹمنڈو، نیپال
نیپال میں بھی لوگ حکومت کی طرف سے جاری کردہ حفاظتی اقدامات پر عمل کرتے نظر نہیں آ رہے۔ کھٹمنڈو میں پولیس اہلکاروں کی کوشش ہے کہ لوگ نہ تو گھروں سے نکليں اور نہ ہی اجتماعات کی شکل میں اکٹھے ہوں۔
تصویر: Reuters/N. Chitrakar
احمد آباد، بھارت
بھارتی شہر احمد آباد میں لاک ڈاؤن کو مؤثر بنانے کے لیے خصوصی پولیس کے دستے تعینات کر دیے گئے ہیں۔ یہ اہلکار سڑکوں پر گشت کرتے ہیں اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Dave
ماسکو، روس
روسی دارالحکومت ماسکو میں بھی جزوی لاک ڈاؤن کیا جا چکا ہے تاکہ نئے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد مل سکے۔ تاہم اس شہر میں بھی کئی لوگ اس لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے دیکھے گئے ہیں۔ ریڈ اسکوائر پر دو افراد کو پولیس کی پوچھ گچھ کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
بنکاک، تھائی لینڈ
تھائی لینڈ میں بھی لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے، جہاں گھروں سے باہر نکلنے والے افراد کو پولیس کے سامنے بیان دینا پڑتا ہے کہ ایسی کیا وجہ بنی کہ انہیں گھروں سے نکلنا پڑا۔ ضروری کام کے علاوہ بنکاک کی سڑکوں پر نکلنا قانونی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Silva
ریو ڈی جینرو، برازیل
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر برازیل میں بھی پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں لیکن موسم گرما کے آغاز پر مشہور سیاحتی شہر ریو ڈی جینرو کے ساحلوں پر کچھ لوگ دھوپ سینکنے کی خاطر نکلتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو وہاں تعینات پولیس اہلکاروں کے سامنے جواب دینا پڑتا ہے۔
تصویر: Reuters/L. Landau
کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقہ
جنوبی افریقہ میں بھی حکومت نے سختی سے کہا ہے کہ لوگ بلا ضرورت گھروں سے نہ نکلیں۔ اس صورت میں انہیں خصوصی سکیورٹی اہلکاروں کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کیپ ٹاؤن میں پولیس اور فوج دونوں ہی لاک ڈاؤن کو موثر بنانے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Hutchings
ڈھاکا، بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش میں بھی سخت پابندیوں کے باوجود لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ تاہم اگر ان کا ٹکراؤ پوليس سے ہو جائے تو انہیں وہیں سزا دی جاتی ہے۔ تاہم انسانی حقوق کے کارکن اس طرح کی سزاؤں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔