بھارت: گریٹا تھنبرگ کا ٹوئٹ اور بھارتی کارکنوں کی گرفتاریاں
جاوید اختر، نئی دہلی
16 فروری 2021
کسانوں کی تحریک کی حمایت کے حوالے سے تحفظ ماحول کی کارکن گریٹا تھنبرگ کے ٹوئٹ کے سلسلے میں تحفظ ماحول کی ایک کارکن پہلے ہی گرفتار کی جاچکی ہے۔ 'ٹُول کِٹ‘ کیس میں بھارتی پولیس مزید دو کارکنوں کو گرفتار کرنا چاہتی ہے۔
اشتہار
بھارت میں زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک کے حوالے سے سویڈش ایکٹیویسٹ گریٹا تھنبرگ کے ذریعہ ٹوئٹ کیے گئے'ٹول کٹ‘ کے معاملے میں ماحولیات کے لیے سرگرم کارکن اکیس سالہ دیشا روی کی گرفتاری کے بعد پولیس وکیل اور ماحولیات کے لیے سرگرم کارکن نکیتا جیکب اور ان کے ساتھی شانتانو مولوک کو بھی گرفتار کرنا چاہتی ہے۔ دونوں کی گرفتاری کے لیے غیر ضمانتی وارنٹ جاری کردیے گئے۔
دوسری طرف دونوں کارکنوں نے گرفتاری سے بچنے کے لیے ممبئی ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ اس دوران دہلی کے پولیس کمشنر ایس این سریواستوا نے منگل سولہ فروری کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ ”دیشا روی کو گرفتار کیا جاچکا ہے اور دوسروں کے ساتھ بھی قانونی کارروائی کی جائے گی خواہ کسی کی عمر بائیس برس ہو یا پچاس برس۔ قانون سب کے ساتھ یکساں سلوک کرتا ہے۔"
سویڈن سے تعلق رکھنے والی تحفظ ماحول کی کم عمر کارکن گریٹا تھنبرگ نے اس ماہ کے اوائل میں ایک 'ٹول کٹ‘ ٹوئٹ کیا تھا۔ جس میں بھارت میں حکومت کے خلاف کسانوں کے مظاہرے کے حوالے سے مبینہ پروگرام کا لائحہ عمل بتایا گیا تھا۔
یہ ایکٹیویسٹ کون ہیں؟
دہلی پولیس ممبئی سے سرگرم وکیل نکیتا جیکب اور ان کے انجینئرساتھی شانتانو مولوک کو گرفتار کرنا چاہتی ہے۔ یہ دونوں انسانی حقوق کے لیے سرگرم ایک تنظیم سے وابستہ ہیں اور کسانوں کی تحریک کی بھی حمایت کرتے رہے ہیں۔ تاہم پولیس کا دعوی ہے کہ ان دونوں کا تعلق پوئٹک جسٹس فاؤنڈیشن نامی تنظیم سے ہے۔
اشتہار
نکیتا کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ دہلی پولیس کی ایک ٹیم گیارہ فروری کو ممبئی میں ان کی رہائش گاہ پر بھی گئی تھی اور وہاں سے کچھ ذاتی کاغذات اور الیکٹرانک آلات ضبط کرکے لے گئی۔ انہوں نے نکیتا کے خلاف درج ایف آئی آر کی ایک نقل بھی طلب کی ہے کیونکہ ان کا دعوی ہے کہ پولیس نے انہیں اب تک یہ نہیں بتایا کہ ان کے خلاف کیا الزامات ہیں۔
مہاراشٹر کے بیڑ ضلعے کے رہنے والے سانتانو نے عدالت میں پیش کردہ اپنی درخواست میں کہا ہے کہ دہلی پولیس کے عملے نے ضروری ضابطوں پر عمل کیے بغیر ان کے گھر سے بہت سارا سامان ضبط کر لیا اور ان کے والدین پر بھی دباو ڈالا جا رہا ہے۔ شانتانو نے عدالت سے پیشگی ضمانت کی درخواست کی ہے تاکہ وہ دہلی میں عدالت کے سامنے حاضر ہوکر اپنا موقف پیش کرسکیں۔
دو روز قبل ہی پولیس نے دیشا روی نامی اکیس سالہ کارکن کو بنگلورو میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا تھا۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ دیشا نے حکومت مخالف'ٹول کٹ‘ کو ایڈٹ اور تقسیم کیا تھا۔ دہلی پولیس کے ایک اعلی افسر کے مطابق ''اس ٹول کٹ کا اصل مقصد گمراہ کن معلومات پھیلانا اور حکومت کے خلاف لوگوں میں نفرت پیدا کرنا ہے۔"
ہم پر انگلی کيوں اٹھائی؟ مودی حکومت کی طرف سے عالمی شخصیات کی مذمت
بھارتی کسانوں نے متنازعہ زرعی اصلاحات کی مخالفت ميں دو ماہ سے زائد عرصے سے نئی دہلی کے مضافات ميں دھرنا دے رکھا ہے۔ کئی عالمی شخصيات نے کسانوں کے حق ميں بيانات ديے، جنہیں مودی حکومت نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S.Radke
اہم شخصيات کی حمايت اور بھارت کی ناراضگی
سوشل ميڈيا پر مشہور گلوکارہ ريحانہ اور سويڈش ماحولیاتی کارکن گريٹا تھونبرگ سميت کئی اہم عالمی شخصيات نے بھارت ميں سراپا احتجاج کسانوں کی حمايت کی۔ بھارتی حکومت نے اسے اپنے اندرونی معاملات ميں ’دخل اندازی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Ivanov
اصلاحات يا کارپوريشنوں کا مفاد؟
گزشتہ برس ستمبر ميں بھارتی حکومت نے زراعت کے شعبے ميں نئے متنازعیہ قوانین وضع کیے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ اقدامات بڑی بڑی کارپوريشنوں کے مفاد ميں ہيں۔ کسانوں نے دو ماہ سے زائد عرصے قبل دارالحکومت دہلی کے نواح ميں اپنا احتجاج شروع کيا۔ مگر وزيراعظم نريندر مودی ڈٹے ہوئے ہيں کہ اصلاحات کسانوں کے مفاد ميں ہيں اور انہيں واپس نہيں ليا جائے گا۔
تصویر: Manish Swarup/AP Photo/picture alliance
نيا قانون کيوں متنازعہ؟
کسانوں تنظیموں کا موقف ہے کہ نيا قانون اس بات کی گارنٹی نہيں ديتا کہ زرعی پيداوار کسی کم از کم قيمت پر بک سکے گی، جس کے باعث وہ کارپوريشنوں کے چنگل ميں پھنس جائيں گے۔ اپنے مطالبات منوانے کے ليے کسانوں نے کئی ريلياں نکاليں۔ چھبيس جنوری کو بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر ايک ريلی ميں ہنگامہ آرائی کے بعد سے ماحول کشيدہ ہے۔
تصویر: Danish Siddiqui/REUTERS
ريحانہ
باربيڈوس کی معروف پاپ اسٹار ريحانہ نے حال ہی ميں بھارتی کسانوں کی حمايت کا اظہار کيا۔ انہوں نے ٹوئيٹ میں کہا، ’’ہم اس بارے ميں بات کيوں نہيں کر رہے؟‘‘ عالمی سطح پر ان کی اس ٹوئيٹ کو کافی سراہا گيا مگر بھارت ميں کئی نامور ستارے اپنے ملک کے دفاع ميں بول پڑے اور ريحانہ کے خلاف کافی بيان بازی کی۔
تصویر: picture alliance/dpa/A.Cowie
گريٹا تھونبرگ
اٹھارہ سالہ ماحول دوست کارکن گريٹا تھونبرگ نے بھی ايک ٹوئيٹ ميں بھارتی کسانوں اور ان کی تحريک کی حمايت کی، جس پر حکمران بھارتی جنتا پارٹی کافی نالاں دکھائی دے رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Hitij
جسٹن ٹروڈو
کينيڈا کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو نے دسمبر ميں کسانوں کی حمايت ميں بيان ديتے ہوئے دھرنے پر تشويش ظاہر کی۔ اس پر بھارتی وزارت خارجہ نے بيان جاری کيا کہ ٹروڈو کا بيان بھارت کے اندونی معاملات ميں دخل اندازی ہے۔
تصویر: Sean Kilpatrick/The Canadian Press/ZUMAPRESS.com/picture alliance
امانڈا سرنی
انسٹاگرام اسٹار امانڈا سرنی نے اپنے اکاؤنٹ پر تين بھارتی خواتين کی تصوير شيئر کی، جس پر لکھا تھا کہ ’دنيا ديکھ رہی ہے۔ آپ کا يہ مسئلہ سمجھنے کے ليے بھارتی، پنجابی يا جنوبی ايشيائی ہونا ضروری نہيں۔ صرف انسانيت کے ليے فکر ضروری ہے۔ ہميشہ آزادی اظہار رائے، آزادی صحافت، سب کے ليے بنيادی شہری حقوق اور ملازمين کے احترام کا مطالبہ کريں۔‘
تصویر: Scott Roth/Invision/AP/picture alliance
مينا ہيرس
امريکی نائب صدر کملا ہيرس کی بھانجی اور وکيل مينا ہيرس نے بھی ٹوئيٹ کی کہ ’ہم سب کو بھارت ميں انٹرنيٹ کی بندش اور کسانوں کے خلاف نيم فوجی دستوں کے تشدد پر برہم ہونا چاہيے۔‘
تصویر: DNCC/Getty Images
جم کوسٹا
امريکی ڈيموکريٹ سياستدان جم کوسٹا نے بھی بھارت ميں کسانوں کی تحريک کی حمايت کی ہے۔ انہوں نے وہاں جاری حالات و واقعات کو پريشان کن قرار ديا۔ خارجہ امور سے متعلق کميٹی کے رکن کوسٹا نے کہا کہ کسانوں کو پر امن احتجاج کا حق حاصل ہے اور اس کا احترام لازمی ہے۔
تصویر: Michael Brochstein/ZUMA Wire/picture alliance
روپی کور
چوٹی کی نظميں لکھنے والی بلاگر روپی کور نے ريحانہ کی جانب سے اس مسئلے پر روشنی ڈالنے کی تعريف کی اور خود بھی کسانوں کی حمايت ميں بيان ديا کہ بھارت ميں زراعت کا شعبہ مشکلات کا شکار ہے۔ گزشتہ دو برسوں ميں وہاں کئی کسان خود کشياں کر چکے ہيں۔
تصویر: Chris Young/The Canadian Press/AP Images/picture alliance
جان کيوسک
امريکی اداکار اور رضاکار جان کيوسک بھی اس سال جنوری سے بھارتی کسانوں کی تحريک کی حمايت ميں بيان ديتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
11 تصاویر1 | 11
علیحدگی پسند گروپ کے ساتھ تعلق کا الزام
پولیس کا کہنا ہے کہ ان تینوں کے کینیڈا میں واقع پوئٹیک جسٹس فاونڈیشن سے بھی تعلقات ہیں جو مبینہ طور پر بھارت میں سکھ اکثریتی علاقے میں ایک آزاد ریاست کے قیام کے لیے خالصتان تحریک کی حمایت کرتی ہے۔
پولیس کا یہ بھی دعوی ہے کہ ان تینوں کارکنوں نے 26 جنوری کو بھارتی یوم جمہوریہ سے قبل مذکورہ تنظیم کے بانیوں کے ساتھ ایک زوم میٹنگ میں حصہ لیا تھا جس میں کسانوں کی یوم جمہوریہ ٹریکٹر ریلی کے سلسلے میں 'ٹوئٹ کا طوفان برپا کر دینے‘ کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا۔ اس میٹنگ میں ساٹھ ستر لوگوں نے حصہ لیا تھا اور اس کے بعد مذکورہ ٹول کٹ بنائی گئی۔
’بھارت میں جمہوریت کے قتل میں تیزی ‘
دیشا روی کی گرفتاری پر بھارت اور دیگر ملکوں میں سیاست دانوں اور سماجی کارکنوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
سابق مرکزی وزیر جے رام رمیش نے ایک بیان میں کہا ”دیشا روی کی گرفتاری جس انداز میں کی گئی اس سے واضح ہوگیا ہے کہ بھارت میں جمہوریت کے قتل میں تیزی آگئی ہے۔ لیکن بھارت کے جوان اب خاموش نہیں رہیں گے۔"
برطانوی رکن پارلیمان کلاؤڈیا ویب نے بھی ایک ٹوئٹ کر کے کہا ”دو خواتین، اکیس سالہ طالبہ دیشا روی اور مزدوروں کے حقوق کے لیے سرگرم چوبیس سالہ نودیپ کور کو کسانوں کی تحریک کی پرامن حمایت کرنے پر نشانہ بنایا گیا، گرفتار کرلیا گیا اور جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ یہ آمریت کے ذریعہ آواز کو دبانے کی کوشش ہے۔ خاموش نہ رہیں۔"
بھارت: کسانوں کا حکومت مخالف احتجاج جاری
بھارت کے متنازعہ نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج مسلسل جاری ہے۔ کسانوں نے قومی دارالحکومت کی سرحدوں کا تقریباً محاصرہ کر رکھا ہے۔ حکومت اور کسانوں کے درمیان بات چیت کے کئی دور ہو چکے ہیں لیکن تعطل برقرار ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ہار نہیں مانیں گے
قومی دارالحکومت کی سرحدوں پر بیٹھے کسان مظاہرین کا کہنا ہے کہ متنازعہ قوانین واپس لینے تک احتجاج جاری رہے گا اور وہ چھ ماہ کی تیاری کے ساتھ آئے ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
امید باقی ہے
کسانوں کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ حکومت نئے سیاہ قوانین واپس لے گی اور یہ احتجاج حکومت کے لیے آخری موقع ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ہم دہشت گرد نہیں
کسانو ں کی اس غیر معمولی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے طرح طرح کے الزامات بھی لگائے گئے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا میں یہ خبر بھی پھیلائی گئی کہ مظاہرین نے 'خالصتان زندہ باد‘ کے نعرے لگائے ہیں لیکن بعدازاں یہ خبر غلط ثابت ہوئی۔
تصویر: Mohsin Javed
نوجوانوں کی امنگیں
مظاہرے میں بڑی تعداد میں نوجوان بھی موجود ہیں۔ ان میں اعلی تعلیم یافتہ اور مغربی ممالک سے واپس لوٹ کر زراعت کو روزگار کا ذریعہ بنانے والے بھی شامل ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
خواتین بھی شانہ بشانہ
اس مظاہرے میں خواتین بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ان کا جوش و خروش قابل دید ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
زخمی مظاہرین
حکومت نے کسانوں کو دہلی پہنچنے سے روکنے کے لیے تمام حربے اور طریقے آزمائے۔ اس دوران آنسو گیس کے شیل لگنے سے کئی مظاہرین زخمی بھی ہوئے۔
تصویر: Mohsin Javed
مظاہرین کی آمد کا سلسلہ جاری
ملک کے مختلف حصوں سے مرد اور خواتین کسانوں کے قومی دارالحکومت آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ملک بھر کے کسان شامل
مودی حکومت نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ صرف پنجاب کے کسانوں کی تحریک ہے لیکن متعدد ریاستوں کے کسانوں اور مختلف تنظیموں نے اس میں اپنی شمولیت کا ثبوت پیش کیا۔
تصویر: Mohsin Javed
جنگ جاری رہے گی
”ہم اعلان کرتے ہیں کہ یہ ایک جنگ ہے اور یہ جاری رہے گی، جب تک مزدور کسان استحصال کا شکار ہیں۔" بھگت سنگھ
تصویر: Mohsin Javed
کھانے کی تیاری
مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ چھ ماہ تک رکنے کی تیاری کرکے آئے ہیں۔ انہیں کھانے پینے کی کوئی دشواری پیش نہیں آرہی ہے۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے جانے والے کسان رہنمااپنا کھانا بھی ساتھ لے کر گئے تھے اور حکومتی ضیافت کو ٹھکرا دیا۔
تصویر: Mohsin Javed
ذرا تازہ دم ہوجاوں
مظاہرین کی خدمت کرتے کرتے تھک کر ایک کسان تھوڑی دیر کے لیے آرام کرتے ہوئے۔
تصویر: Mohsin Javed
ماں کا آغوش
کسان زمین کو اپنی ماں سمجھتے ہیں اور نیند کے لیے ماں کے آغوش سے بہتر کون سی جگہ ہوسکتی ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
حالات سے باخبر
دھرنا اپنی جگہ، لیکن 'دیش اور دنیا‘ کے حالات سے باخبر رہنا بھی تو ضروری ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
علم کا کوئی بدل نہیں
مظاہروں کے ساتھ ساتھ حصول علم کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ مظاہرین نے 'روڈ لائبریری‘ بھی قائم کررکھی ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ڈاکٹر اور دوائیں بھی دستیاب
مظاہرے میں شامل ہزاروں افراد کے لیے صرف کھانے پینے کا ہی نظم نہیں ہے بلکہ کسانوں نے ان کی صحت کی دیکھ بھال کا پورا انتظام بھی کررکھا ہے۔ درجنوں ڈاکٹر اور طبی عملہ رضاکارانہ طور پر ہمہ وقت خدمت میں مصرو ف ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
سکیورٹی انتظامات
حکومت نے تمام سرحدو ں پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کررکھے ہیں۔ لیکن کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ فی الحال دہلی میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ سڑکوں پر ہی بیٹھے رہیں گے۔
تصویر: Mohsin Javed
کنگنا رناوت پھنس گئیں
بالی ووڈ اداکارہ کنگنا رناوت نے مظاہرین کے خلاف ایک ٹوئٹ کیا جس کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی زبردست نکتہ چینی ہورہی ہے۔ کنگنا نے گو اپنا ٹوئٹ واپس لے لیا ہے لیکن مظاہرین اب بھی ناراض ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
'گودی‘ میڈیا سے ناراضگی
کسان حکومت نواز میڈیا سے سخت ناراض ہیں۔انہوں نے ایسے ٹی وی چینلوں کا بائیکاٹ کررکھا ہے۔ بھارت میں 'گودی میڈیا‘ حکومت نواز میڈیا کو کہتے ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
'سوچھ بھارت‘
وزیر اعظم نریندر مودی کی مہم 'سوچھ بھارت‘ کی عملی تصویر۔ کسان خود ہی صفائی ستھرائی بھی کررہے ہیں۔
ٹیکسٹ: جاوید اختر تصاویر: محسن جاوید