سن اسّی کی دہائی تک بھارت میں گِدھوں کی تعداد آٹھ کروڑ سے زیادہ تھی لیکن اس 'ماحول دوست‘ پرندے کی تعداد اب محض چند ہزار رہ گئی ہے۔ اس کی بعض اقسام ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔
اشتہار
بھارت میں حکومت نے گِدھوں کے تحفظ کے لیے 207 کروڑ روپے کے لاگت سے ایک پانچ سالہ منصوبہ تیار کیا ہے تاکہ مردہ جانوروں کو کھا کر ماحول کو آلودگی سے بچانے والے اس پرندے کو معدوم ہونے سے بچایا جاسکے۔
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) کی ایک رپورٹ کے مطابق مختلف اسباب کی بنا پر بھارت میں گِدھوں کی تعداد میں مسلسل کمی ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ صرف ایک عشرے کے دوران تقریباً دو سے چار کروڑ کے قریب گِدھ مرچکے ہیں اور اب ان کی تعداد صرف چند ہزار رہ گئی ہے جبکہ ان کی تین اقسام کو 'انتہائی کمیاب‘ نسلوں میں شامل کیا گیا ہے۔
ڈائیکلوفیناک سب سے بڑی دشمن
ماہرین کہتے ہیں کہ ڈائیکلوفیناک نامی دوا گِدھوں کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ یہ دوا جانوروں میں درد، سوزش کے علاج اور اسٹرائیڈ کے طورپرانجکشن کے ذریعہ دی جاتی ہے۔ سن 2006 ء میں ایک رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ڈائیکلو فیناک کی وجہ سے بھارت، پاکستان، نیپال اور بنگلہ دیش میں ایک عشرے کے دوران گِدھوں کی تعداد میں پچانوے فیصد سے زیادہ کمی واقع ہوگئی ہے۔ رپورٹ سے یہ بھی پتا چلا کہ جن گِدھوں کی موت ہوئی تھی انہوں نے ان مردہ جانوروں کو کھا کر اپنی بھوک مٹائی تھی۔
ناپید ہوتے جانور: بچنے کی امید کتنی؟
ایک نئی تحقیق کے مطابق بعض ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار جانوروں کے بچنے کی امید پیدا ہوئی ہے۔ اس امید کی وجہ کورونا وائرس لاک ڈاؤن کے دوران جنگلی حیات کو ملنے والا سکون خیال کیا گیا ہے۔
برطانیہ کے ڈورسیٹ ساحلی علاقے میں خاردار سمندری گھوڑے نے کورونا لاک ڈاؤن کے دوران اپنی افزائش کے پرانے علاقوں میں لوٹ کر نسل بڑھانی شروع کر دی ہے۔ ’سی ہارس ٹرسٹ‘ کے بانی نیل گیرک میڈمنٹ کے مطابق جب انسان فطرتی ماحول سے پیچھے ہٹتا ہے تو بے گھر جانوروں کی بقا کو لاحق خطرات کم ہو جاتے ہیں۔
تصویر: Seahorse Foundation
فین سیپی کو شدید خطرات لاحق
اس سمندری سیپی اور اس کے اندر کی حیات کو گزشتہ دسمبر سے ایک ایسے جرثومے کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے اس سیپی کے معدوم ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ بحیرہ روم میں اس سیپی کی تعداد میں حیران کن کمی واقع ہو چکی ہے۔ اس سمندر میں جرثومے سے اسی فیصد سے زائد فین سیپی ضائع ہو گئی ہے۔
تصویر: CC BY-SA 2.0-Arnaud abadie
کولوبُس بندر کم ہوتا ہوا
افریقی ملک کینیا کا کولوبُس بندر اُن پچیس جانوروں میں شمار ہوتا ہے، جن کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اس بندر کو جنگلوں میں آگ لگنے، درختوں کی کٹائی، سیلاب اور زراعت میں کمی کی صورت حال کا سامنا ہے۔ اب اس نسل کے لیے جنگلات کا رقبہ انتہائی کم ہو چکا ہے اور کولوبُس بندر کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔
تصویر: CC BY-NC 4.0-Yvonne A. de Jong Image
افریقہ کا سیاہ گینڈا: بچ جانے کی امید باقی ہے
براعظم افریقہ کے سیاہ گینڈے کی نسل انتہائی سست روی سے بڑھ رہی ہے۔ سن 2012 سے 2018 تک اس کی تعداد 4845 سے بڑھ کر 5630 تک پہنچ گئی ہے۔ یہ شرح افزائش ڈھائی فیصد سالانہ ہے۔ سیاہ گینڈے کو انتہائی ناپید ہونے والے جانوروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس گینڈے کو ابھی بھی غیر قانونی شکار کا سامنا ہے۔
تصویر: Dave Hamman Photography
آسٹریلیائی تازہ پانی کی مچھلی: ماحول کا شکار
آسٹریلیا میں پائی جانے والی تازہ پانی کی مچھلی کو ماحولیاتی تبدیلیوں کا نشانہ بننے والی نسل خیال کیا جاتا ہے۔ اس مچھلی کی ساٹھ فیصد آبادی ماحولیاتی بحران کے نشانے پر ہے جبکہ سینتیس فیصد کے معدوم ہونے کا قوی امکان ہے۔ مچھلی کو آسٹریلیا میں پیدا خشک سالی نے شدید متاثر کیا ہے۔
تصویر: CC BY-NC 4.0-Brett Vercoe
گوام کا پرندہ ریل: بچانے کی کوششیں
بحر الکاہل میں واقع امریکی جزیرے گوام میں لڑائی سے دور رہنے والے پرندے ریل کی نسل کو معدوم ہونے کے بعد پھر سے بحال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس پرندے کو جزیرے کے درختوں پر رہنے والے بھورے سانپ ہڑپ کر گئے تھے۔ اب اس پرندے کو گوام کے ہمسایہ جزیرے کوکوس پر آباد کیا جا رہا ہے۔
تصویر: CC BY-NC-ND 2.0-Josh More
بڑے جسم کا جعلی بچھو
بچھو جیسے زہریلے صحرائی کیڑے کی نسل کے معدوم ہونے کے خطرات موجود ہیں۔ بچھو نسل کا یہ کیڑا افریقہ اور برازیل کے درمیان پانچ ایکڑ کے چھوٹے سے جزیرے ایسنسیئن کا کسی وقت اکلوتا مالک تھا۔ اس کو اب امریکی کاکروچ کی یلغار کا سامنا ہے۔
تصویر: Nicola Weber
یورپی خرگوش بھی ناپید ہوتے ہوئے
براعظم یورپ میں بسنے والے خرگوش کے ناپید ہونے کے خطرے شدید تر ہو گئے ہیں۔ اس نسل کے علاقے اسپین، جنوبی فرانس اور پرتگال ہیں۔ یہ خرگوش جنگلی بلی سیاہ گوش اور عقاب کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ ان خرگوشوں میں خون بہنے کی بیماری پھیلنے سے ان کی ستر فیصد نسل کے ناپید ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
تصویر: Mathias Appel
جانوروں کے ساتھ شجر بھی معدوم ہونے لگے
سفیدے درخت کی 826 میں سے 812 قسمیں آسٹریلیا میں پائی جاتی ہیں۔ ایک عالمی جائزے کے مطابق آسٹریلیا میں پائی جانے والے سفیدے کی پچیس فیصد اقسام کے معدوم ہونے کے سنگین خطرات پیدا ہو چکے ہیں۔ یہ درخت کوالا کی خوراک ہیں اور ان کی کمی سے کوالا کی نسل بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔
تصویر: CC BY-SA 2.0-Thomas Caldwell
ریڑھ کی ہڈی والے جانور: معدوم ہونے کا شکار
ایک صدی قبل آسٹریلوی ٹسمانوی ٹائیگر کے ناپید ہونے کے بعد پانچ سو ریڑھ کی ہڈی والے جانور صفحہٴ ہستی سے مِٹ چکے ہیں۔ ایک ریسرچ کے مطابق اس وقت پانچ سو پندرہ ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کی تعداد ایک ہزار سے کم ہو چکی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیاں اور جانوروں کی تجارت اس عمل کو تیز رکھے ہوئے ہے۔
اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد بھارت، پاکستان اور نیپال نے سن 2006 میں ڈائیکلوفیناک پر پابندی عائد کردی جب کہ بنگلہ دیش نے 2010 ء میں اس دوا پر پابندی لگائی۔
ڈائیکلوفیناک پرپابندی عائد کیے جانے کے پندرہ برس گزر جانے کے بعد گوکہ کے اس کے استعمال میں کمی ضرور آئی ہے لیکن یہ کسی نہ کسی شکل میں اب بھی فروخت ہورہی ہے اور گِدھوں کی موت کا سلسلہ نہیں رک پارہا ہے۔
برڈ کنزرویشن انٹرنیشنل نامی جریدے میں سن 2020 میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بنگلہ دیش اور نیپال میں دوا کی دکانوں سے ڈائیکلوفیناک تقریباً واپس لے لی گئی ہے لیکن بھارت میں دواکی دکانوں میں یہ اب بھی دستیاب ہے۔ بعض دوا ساز کمپنیوں نے اسے دوسرے ناموں سے فروخت کرنا شروع کردیا ہے۔
الوداع اے پیارے پرندوں، الوداع اے مہمانوں
ماحولیاتی اور معاشرتی تبدیلیاں کروڑوں انسانوں کی مہاجرت کا سبب بن رہی ہیں۔ ايسے ميں ماحولیاتی تغیر و قدرتی نظام کی تباہی دور دراز کے علاقوں سے نقل مکانی کر کے پاکستان آنے والے پرندوں کی آمد میں بھی کمی کا سبب بن رہی ہیں۔
تصویر: Bilal Qazi
عقابی اُلو (Eagle Owl)
بھورے رنگ کے اس اُلو کا شمار اپنی طرح کے جانوروں کی چند بڑی اقسام میں ہوتا ہے۔ یہ اُلو یورپ، ایشیا اور شمالی افریقہ میں پایا جاتا ہے اور یہ بڑے جانوروں کا شکار بھی کرتا ہے۔ اس کے پر دو سے تین فٹ لمبے ہوتے ہیں اور اس کی اوسط عمر تقریباﹰ بیس سال ہوتی ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
نیلی دم والا مگس خور (Blue-tailed Bee Eater)
بہت طویل مسافتوں تک نقل مکانی کرنے والے اس پرندے کا تعلق شمال مشرقی ایشیا سے ہے۔ اس کی خوراک عموماﹰ کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں۔ سال کے مختلف موسموں میں مسلسل ہجرت کرتے رہنے کے لیے مشہور یہ پرندہ زیادہ تر جھیلوں کے آس پاس پایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں شہروں کے پھیلاؤ، غیر منظم سیاحت اور انسانوں کے ہاتھوں پرندوں کے مخصوص ماحولیاتی نظاموں کو جو نقصان پہنچا ہے، اس نے اس مگس خور کے طرز زندگی کو بھی متاثر کیا ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
لکیروں والے سر والی مرغابی (Bar-Headed Goose)
یہ دلکش پرندہ گرمیوں میں وسطی ایشیا جبکہ سردیوں میں جنوبی ایشیا کی جانب ہجرت کرتا ہے۔ بہت زیادہ اونچائی پر پرواز کرنے والے پرندوں میں اس کا شمار تیسرے نمبر پر ہوتا ہے۔ یہ اکثر انتیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے ماؤنٹ ایورسٹ اور ہمالیہ کے پہاڑوں کے اوپر فضا میں اڑتا دکھائی دیتا ہے۔ ہجرت کے دوران یہ پرندہ ایک دن میں اوسطاﹰ ایک ہزار میل تک کا سفر طے کرتا ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
سرمئی سر والا واربلر (Grey Hooded Warbler)
اس بہت نازک سے اور انتہائی خوبصورت پرندے کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔ یہ عموماﹰ جنوبی پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ ننھا منا ہونے کے باعث اس پرندے کا وزن انتہائی کم ہوتا ہے۔ اس کا جسم تقریباﹰ دس سینٹی میٹر تک لمبا ہوتا ہے اور یہ خوراک میں مختلف طرح کے کیڑے مکوڑے شوق سے کھاتا ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
ایک منفرد شاہین (Pallas Fish Eagle)
اس شکاری پرندے کا تعلق وسطی اور جنوبی ایشیا سے ہے۔ اس کا شمار ناپید ہو جانے کے خطرے سے دوچار پرندوں میں ہوتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی شدت اور کم ہوتے ہوئے سرسبز علاقوں اور آبی خطوں کے سبب ایسے پرندوں کے ناپید ہو جانے کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ میٹھے پانی کی مچھلی اس شکاری پرندے کی محبوب خوراک ہے اور اس کا وزن تقریباﹰ چھ کلو گرام تک ہوتا ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
نارنجی دھاری والا بُش روبن (Orange Flanked Bush Robin)
بہت حسین رنگوں سے آراستہ یہ ننھا منا سا پرندہ ہجرت کرتا ہوا پورے کے پورے براعظم پار کر جاتا ہے۔ یہ سردیاں ایشیا میں گزارتا ہے اور گرمیوں کی آمد پر یورپ کا رخ کر لیتا ہے۔ ایسے انتہائی کم جسمانی وزن والے کروڑوں پرندے ہر سال ایک محدود عرصے کے لیے پاکستانی جھیلوں اور ڈیموں کے کنارے یا پھر ان گیلے سرسبز خطوں میں قیام کرتے ہیں، جنہیں ماحولیاتی ماہرین ’ویٹ لینڈز‘ یا گیلی زمینوں کا نام دیتے ہیں۔
تصویر: Bilal Qazi
ہیرون (Heron)
لمبی چونچ والا یہ پرندہ تقریباﹰ پوری دنیا میں پایا جاتا ہے، خاص کر آبی علاقوں کے قرب و جوار میں۔ مچھلی اور آبی کیڑے اس کی مرغوب ترین خوراک ہوتے ہیں۔ ایسے پرندے گروہوں کی شکل میں رہتے اور غول بن کر اڑنا پسند کرتے ہیں۔ کسی بھی ہیرون کی اوسط عمر بیس سال کے قریب ہوتی ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
فیزنٹ کی دم والا جاکانا (Pheasant-tailed Jacana)
لمبی ٹانگوں اور چوڑے پنجوں والا، بھورے اور سفید رنگوں والا یہ پرندہ مشرق وسطیٰ اور ایشیا کے گھنے جنگلوں کے درمیان ہجرت کرتا ہے۔ یہ جاکانا کی واحد قسم ہے، جو بہت طویل فاصلے طے کر سکتی ہے۔ نر پرندہ مادہ سے زیادہ لمبے جسم کا حامل ہوتا ہے۔ پرندوں کی بین الاقوامی اور بین البراعظمی ہجرت پر منفی اثرات کی بڑی وجوہات میں زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ، جنگلات کا خاتمہ اور آبی علاقوں کا کم ہوتا جانا شامل ہیں۔
تصویر: Bilal Qazi
بگلا (Stork)
یہ طویل القامت، لمبی ٹانگوں اور لمبی چونچ والا پرندہ عموماﹰ جھیلوں کے کنارے پایا جاتا ہے۔ اس کی یہ قسم زیادہ تر شمالی امریکا اور آسڑیلیا میں دیکھنے میں آتی ہے۔ اس بگلے کی کئی اقسام ایشیا میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اس کی خوراک زیادہ تر مچھلیاں اور چھوٹے حشرات ہوتے ہیں۔
تصویر: Bilal Qazi
سیٹیاں بجاتی بھوری بطخ (Lesser Whistling Duck)
اس خوش آواز پرندے کو انڈین وِسلنگ ڈک بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پرندہ جنوبی ایشیائی خطوں میں پایا جاتا ہے اور اپنے گھونسلے اکثر درختوں پر بناتا ہے۔ اس کی غذا میں زیادہ تر گھاس پھوس اور چھوٹے حشرات شامل ہوتے ہیں۔ یہ پرندہ بیک وقت بارہ انڈے دیتا ہے۔ اس کے چہچہانے کی آواز ایسی ہوتی ہے، جیسے کوئی بڑی سریلی سیٹی بجا ر ہا ہو۔
تصویر: Bilal Qazi
بڑا فلیمنگو (Greater Flamingo)
گلابی رنگ والا لمبے قد کا یہ دلکش پرندہ گریٹر فلیمنگو افریقہ، جنوبی ایشیا اور جنونی یورپ میں پایا جاتا ہے۔ اس کی اوسط عمر تیس سے چالیس سال تک ہوتی ہے۔ اس کی خوراک مچھلی اور دریائی کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں اور اس کا وزن چار سے پانچ کلو گرام تک ہوتا ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
سینڈ پائپر (Sand piper)
بھورے رنگ کے اس پرندے کی دنیا بھر میں کئی قسمیں پائی جاتی ہیں اور یہ پرندہ کرہ ارض کے تقریباﹰ سبھی خطوں میں پایا جاتا ہے۔ اس کی پسندیدہ خوراک مچھلی ہے اور یہ اکثر عمر بھر اپنے ایک ہی ساتھی کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ یہ زمین پر یا کسی بھی کھلی جگہ پر اپنا گھونسلہ بناتا ہے اور بیک وقت تین سے چار تک انڈے دیتا ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
فوٹوگرافر بلال قاضی
گزشتہ آٹھ برسوں سے پاکستان بھر میں پیشہ وارانہ بنیادوں پر جنگلی حیات کی فوٹوگرافی کرنے والے بلال قاضی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں کل تقریباﹰ 780 اقسام کے پرندے پائے جاتے ہیں اور وہ اب تک تین سو سے زائد انواع کے پرندوں کی تصاویر بنا چکے ہیں۔ ان کے بقول موسمیاتی تبدیلیوں اور غیر قانونی شکار کے باعث بھی نقل مکانی کر کے پاکستان آنے والے پرندوں کی تعداد اب پندرہ سے تیس فیصد تک کم ہو چکی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
13 تصاویر1 | 13
نیا منصوبہ
حکومت نے گِدھوں کے تحفظ کے لیے اب ایک پانچ سالہ منصوبہ تیار کیا ہے۔اس کے تحت تمام ریاستوں میں بریڈنگ سینٹرز قائم کیے جائیں گے اور ان کی تعداد کی ملک گیر مانیٹرنگ کی جائے گی۔
حکومت ڈائیکلوفیناک کی فروخت کے سلسلے میں بھی سخت ضابطے مقرر کرنے کا فیصلہ کرنے والی ہے۔ دکاندار اب صرف ڈاکٹروں کے نسخوں پر ہی اس دوا کو فروخت کرسکیں گے اور انہیں ان نسخوں کی نقل بھی اپنے پاس رکھنا ہوگی تاکہ بوقت جانچ اسے پیش کرسکیں۔
Bombay Natural History Society ’بی این ایچ ایس‘ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ویبھو پرکاش کا خیال ہے کہ یہ ایک اچھا منصوبہ ہے اور حکومت نے جو ہدف مقرر کیا ہے اگر وہ اسے پانچ برس میں حاصل کرلیتی ہے توگِدھوں کی حالت آج کے مقابلے پانچ برس بعد کہیں بہتر ہوگی۔ تاہم اس کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
یہ جانور پرندے نہیں ہیں لیکن اُڑتے ہیں
کرہٴ ارض پر ایسے کسی جانور پائے جاتے ہیں، جو پرندے نہیں ہیں لیکن قدرت نے اُنہیں پرواز کی صلاحیت عطا کر رکھی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے پانی اور خشکی کے ایسے چند جانوروں کی تصاویر۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اُڑتی مچھلیاں
عالمی سمندروں میں مچھلیوں کی کئی اقسام پانی کی سطح سے ڈیڑھ میٹر کی بلندی پر تیس سیکنڈ تک فضا میں رہ سکتی ہیں۔ گلابی پروں والی یہ مچھلیاں ستّر کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کے ساتھ سفر کرتے ہوئے چار سو کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کر سکتی ہیں۔
تصویر: gemeinfrei
پرندوں کی طرح مچھلیوں کے بھی جھرمٹ
سمندر میں بہت سی مچھلیاں مستقل یا عارضی طور پر بالکل ویسے ہی ایک جھرمٹ کی صورت میں تیرتی ہیں، جیسے کہ پرندے۔ ایسے میں یہ مچھلیاں ایک دوسرے سے یکساں فاصلہ رکھتے ہوئے ایک ہی جیسی حرکت کرتے ہوئے تیرتی ہیں۔
تصویر: Fotolia
پروں والی ایک اور مچھلی
یہ مچھلیوں کی ایک ایسی قسم ہے، جو خطرے کی صورت میں پانی سے باہر ایک بڑی چھلانگ لگانے کے لیے اپنے سینے کے پٹھوں اور چھوٹے چھوٹے پروں کو استعمال کرتی ہے۔ یہ مچھلی جنوبی امریکا کے دریاؤں اور جھیلوں میں پائی جاتی ہے۔
تصویر: picture alliance / Arco Images
ہشت پا راکٹ
یہ آکٹوپس یا ہشت پا سمندروں میں بہت زیادہ گہرائی میں پایا جاتا ہے، جہاں روشنی بہت ہی کم ہوتی ہے۔ کسی قسم کے خطرے کی صورت میں یہ ایک راکٹ کی صورت میں پانی سے باہر چھلانگ لگا دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایک ’چھوٹے میزائل‘ کی طرح
کسی دشمن کی طرف سے نگل لیے جانے کے خوف سے یہ ہشت پا اپنے پیچھے لگے دو پَر کھول لیتے ہیں اور کسی میزائل کی طرح پانی سے باہر اچھلتے ہیں۔ یہ ہشت پا تقریباً تیس میٹر تک فضا میں رہنے کے بعد نیم دائرے کی صورت میں واپس پانی میں گرتےہیں۔ اس دوران ان کی رفتار گیارہ اعشاریہ دو میٹر فی سیکنڈ تک بھی ریکارڈ کی گئی ہے۔
پرندہ ہے لیکن اُڑتا نہیں
اس طوطے کا وطن نیوزی لینڈ ہے۔ یہ پرندہ زیادہ تر رات کے وقت خوراک ڈھونڈنے کے لیے باہر نکلتا ہے اور زیادہ تر نباتات پر گزارا کرتا ہے۔ یہ طوطوں کی واحد معلوم قسم ہے، جو اُڑ نہیں سکتی۔
تصویر: picture alliance/WILDLIFE
بقا کے خطرے سے دوچار
یہ طوطا اُڑ نہیں سکتا تو کیا ہوا، اسے درختوں پر چڑھنے اور اترنے میں بے انتہا مہارت حاصل ہے اور یہ چلتے اور اچھلتے ہوئے ایک سے دوسرے درخت پر جاتا ہے۔ طوطوں کی یہ قسم بقا کے خطرے سے دوچار ہے۔
تصویر: GFDL & CC ShareAlike 2.0
پوشیدہ پروں والی مخلوق
یہ کون سا جاندار ہے؟ دیکھنے میں یہ ایک بچھو لگ رہا ہے؟ کیا خیال ہے کہ یہ اُڑ بھی سکتا ہو گا؟ یہ پوشیدہ پنکھوں والا سیاہ بھونرے جیسی ہیئت رکھنے والا اصل میں ایک رینگنے والا کیڑا ہے۔
تصویر: imago
کاک ٹیل بیٹل
خطرے کی صورت میں یہ بھونرا اپنی دُم بالکل کسی بچھو کی طرح بلند کر لیتا ہے۔ اس کے جسم کی لمبائی پچیس تا اٹھائیس ملی میٹر ہوتی ہے۔ اس کے پَر اس کے جسم کے پچھلے حصے کے اندر چھُپے ہوتے ہیں، جو بوقتِ ضرورت باہر آ جاتے ہیں اور اُن کی مدد سے یہ اُڑ بھی سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Klett GmbH
چمگادڑ کے بچے
آسٹریلیا میں جنگلی حیات کے تحفظ کے ایک مرکز میں یہ چمگادڑ کے بچے ہیں، جن کی عمریں دو سے لے کر تین ہفتے تک ہیں۔
تصویر: cc-by:Wcawikinfo-sa
شکل کتے سے ملتی جُلتی
چمگادڑ کی شکل کسی کتے سے ملتی جُلتی ہے۔ چمگادڑ رات کے وقت اُڑ کر خوراک تلاش کرتے ہیں اور زیادہ تر پھلوں اور پھولوں پر گزارا کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بے ضرر جانور
اس چمگادڑ کے پروں کی لمبائی 1.7 میٹر اور وزن 1.6 کلوگرام تک ہوتا ہے۔ یہ اس لیے بے ضرر ہوتےہیں کہ یہ گوشت نہیں بلکہ نباتات کھاتے ہیں۔ چمگادڑ سارا دن سر کے بل الٹے لٹک کر سوتے ہیں اور رات کو فعال ہوتے ہیں۔
تصویر: Rainer Dückerhoff
اُڑنے والا سانپ
سانپ عام طور پر پرواز نہیں کرتے لیکن سانپوں کی یہ قسم اُڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خوبصورت ’پرواز‘
یہ سانپ ایک درخت سے ’اُڑ‘ کر دوسرے درخت تک جا رہا ہے۔ اپنے جسم کو خوبصورت دائروں کی شکل میں موڑتے ہوئے یہ سانپ ایک سے دوسرے درخت تک بعض اوقات تیس تیس میٹر لمبی چھلانگ بھی لگاتے ہیں۔