1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: ہر دس میں سے ایک شخص کو کینسر ہونے کا خدشہ

جاوید اختر، نئی دہلی
4 فروری 2020

عالمی ادارہ صحت کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آئندہ برسوں میں بھارت میں ہر دس میں سے ایک شخص کو کینسر کی بیماری ہو سکتی ہے اور ہر پندرہ میں سے ایک کینسر کے مریض کی موت واقع ہو جائے گی۔

Indien Ländliche Gesundheitsdienste in Westbengalen
تصویر: DW/Payel Samanta

ورلڈ کینسر ڈے کے موقع پر جاری ہونے والی اس رپورٹ میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ بھارت میں کینسر کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں گیارہ لاکھ سے زیادہ  نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ اس دوران سات لاکھ  چوراسی  ہزار سے زیادہ لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مردو ں میں کینسر کے پانچ لاکھ ستر ہزار اور خواتین میں پانچ لاکھ ستاسی ہزار نئے کیسز کا پتہ چلا۔

دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) کے سرجیکل اونکولوجی شعبے کے سربراہ ڈاکٹر ایس وی ایس دیو کے مطابق اگلے چند برسوں میں کینسر کے ساٹھ فیصد کیس ایشیائی ملکوں میں ہوں گے، جس میں بھارت سب سے زیادہ متاثر  ہو گا۔ بھارت میں کینسر کے علاج کی نئی تکنیک اور دوائیں آنے کے باوجود کینسر سے بچنے کی شرح اب بھی ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں کم ہے۔ امریکا اور یورپ میں ستر فیصد کینسر متاثرین بچ جاتے ہیں لیکن بھارت میں  چالیس فیصد ہی بچ پاتے ہیں۔

تصویر: Reuters/P. Ravikumar

یوں تو حکومت کینسر کی بیماری پر قابو پانے کے لیے اپنے طور پر متعدد اقدامات کر رہی ہے لیکن اسپیشلائزڈ ڈاکٹروں کی کمی اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ڈاکٹر دیو کا کہنا ہے کہ اس وقت امریکا میں کینسر کے  ایک سو اور انگلینڈ میں چار سو مریضوں کے لیے ایک ڈاکٹر ہے جب کہ بھارت میں سولہ سو مریضوں کے لیے ایک ڈاکٹر ہے۔

انڈین کینسر سوسائٹی کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ سن 1990ء سے 2016ء  کے درمیان بھارت میں کینسر کے مریضوں میں اٹھائیس فیصد جب کہ اس بیماری سے مرنے والوں کی تعداد میں  بیس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اگلے دس برسوں میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو کینسر ہو سکتا ہے۔ اس وقت بھارت میں صرف بڑے شہروں میں ہی کینسر کے ہسپتال ہیں۔ ان میں بیشتر پرائیویٹ ہیں، جہاں علاج کروانا عام لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ کینسر کا علاج کافی مہنگا ہے، اس لیے بھارت میں مڈل کلاس اور غریب مریضوں کے لیے اس کا علاج کرانا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ تقریباً تیس فیصد مریضوں کے پاس ہی میڈیکل انشورنس ہے بقیہ  ستر فیصد مریضوں کو اپنی جیب سے پیسہ خرچ کر کے علاج کروانا پڑتا ہے، جو ان کے بس کی بات نہیں ہے۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں