1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: ہسپتال میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 31، سولہ بچے شامل

جاوید اختر، نئی دہلی
3 اکتوبر 2023

مہاراشٹر کے ایک ہسپتال کے ڈاکٹر نے ان اموات کے لیے دواؤں اور عملے کی کمی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے جب کہ حکومت نے انکوائری کا حکم دیا ہے۔ مزید سات افراد کی اموات کے ساتھ ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 31 ہو گئی ہے۔

   جن 12بچوں کی موت ہوگئی ان میں چھ بچیاں تھیں۔ ان کی عمر ایک سے تین دن کے درمیان تھی
جن 12بچوں کی موت ہوگئی ان میں چھ بچیاں تھیں۔ ان کی عمر ایک سے تین دن کے درمیان تھی تصویر: AFP

یہ سانحہ مغربی ریاست مہاراشٹر کے ناندیڑ ضلعے کے سرکاری ہسپتال ڈاکٹر شنکر راؤ چوہان گورنمنٹ میڈیکل کالج اینڈ ہاسپیٹل میں 30 ستمبر اور یکم اکتوبر کے درمیان پیش آیا۔ ریاست میں بی جے پی اتحاد کی حکومت ہے۔

دریں اثنا مزید سات افراد کی اموات کے ساتھ ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 31 ہوگئی ہے، ان میں 16 نوزائیدہ بچے شامل ہیں۔

ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ 24 گھنٹوں میں جن 12بچوں کی موت ہو گئی ان میں چھ بچیاں تھیں۔ بچوں کی عمر ایک سے تین دن کے درمیان تھی۔ ہلاک ہونے والے 12بالغ افراد مختلف امراض میں مبتلا تھے اور ان میں سے بیشتر سانپ کے ڈسنے کے بعد علاج کے لیے داخل کرائے گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ تقریباً 70-80 کلومیٹر کے دائرے میں یہ واحد ہسپتال ہے، یہی وجہ ہے کہ دوردراز سے بھی مریض یہاں آتے ہیں۔ بعض دن مریضوں کی تعداد کافی بڑھ جاتی ہے جو بجٹ کی وجہ سے ہمارے لیے مسئلہ بن جاتا ہے۔"

انہوں نے مزید بتایا کہ "یہاں ہیفکن نام کا ایک انسٹی ٹیوٹ ہے، ہمیں ان سے دوا خریدنی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ہم نے مقامی طورپر دوا خریدی اور مریضوں کو فراہم کی۔"

ہسپتال انتظامیہ نے تاہم ڈین کے دعووں کی تردید کی ہے۔ ہسپتال کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے، "ضروری دوائیں ہسپتال میں دستیاب ہیں۔ ہسپتال کا 12 کروڑ روپے کا فنڈ ہے۔ رواں مالی سال کے لیے چار کروڑ روپے کی منظوری دی جاچکی ہے۔ دیگر مریضوں کا حسب ضرورت علاج کیا جارہا ہے۔"

بھارت ميں نومولود بچوں کی موت پر سیاست

ریاستی وزیر اعلیٰ ایک ناتھ شنڈے نے ان اموات کو "افسوس ناک" بتاتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کی انکوائری کے لیے ایک تین رکنی کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔

خیال رہے کہ مہاراشٹر کے ہی تھانے میونسپل کارپوریشن کے زیر انتظام چھترپتی شیوا جی مہاراج میموریل ہسپتال میں اگست میں ایک ہی دن میں 18مریضوں کی موت ہو گئی تھی۔ اس وقت بھی اس سانحے کے لیے دواوں اور دیگر سہولیات کی قلت کا الزام لگایا گیا تھا۔

اپوزیشن کا سخت ردعمل

متعدد اپوزیشن رہنماوں بشمول راہول گاندھی اور شرد پوار نے ناندیڑ سانحے پر بی جے پی حکومت پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔

راہول گاندھی نے ان اموات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا،"بی جے پی حکومت اپنی پبلسٹی پر اربوں روپے خرچ کررہی ہے لیکن بچوں کے خاطر دواوں کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ بی جے پی کی نظر میں غریبوں کی زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہے۔"

نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے رہنما شرد پوار نے کہا کہ یہ سانحہ حکومتی نظام کی ناکامی کا ثبوت ہے۔ انہوں نے مستقبل میں مریضوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات پر زور دیا۔انہوں نے تھانے میونسل ہسپتال کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مہاراشٹر حکومت نے اس سے کوئی سبق نہیں لیا، جہاں ایک ہی دن میں 18 لوگوں کی موت ہوگئی تھی۔

بہار میں ایک سو سے زائد بچے ہلاک

کانگریس پارٹی کی جنرل سکریٹری پریانکا گاندھی، جے رام رمیش اور شو سینا کی پریانکا چترویدی نے بھی اس واقعے پر حکومت پر نکتہ چینی کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی سے "اپنی خاموشی توڑ نے" کے لیے کہا۔

معاملہ سوشل میڈیا پر بھی گرم

ناندیڑ واقعے کا معاملہ سوشل میڈیا پربھی چھایا ہوا ہے۔ متعدد صارفین نے لکھا ہے کہ مہاراشٹر کی بی جے پی اتحاد حکومت بھی اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے اسی طرح کسی ڈاکٹر کو قربانی کا بکرا بنادے گی جیسا کہ اترپردیش میں سال 2017 میں یوگی ادیتیہ ناتھ حکومت نے کیا تھا۔

ادیتیہ ناتھ کے آبائی شہر گورکھ پور کے سرکاری ہسپتال میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے 63 بچوں اور 18بالغوں کی موت ہو گئی تھی۔ بی جے پی حکومت نے اس کے لیے ماہر امراض اطفال ڈاکٹر کفیل خان کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے جیل میں ڈال دیا۔ حالانکہ ڈاکٹروں اور سماجی و فلاحی تنظیموں نے ڈاکٹر کفیل کو"مسیحا " قرار دیا تھا۔

ڈاکٹر کفیل کو نو ماہ بعد ضمانت پر رہائی ملی۔ سن 2019 میں عدالت نے انہیں تمام الزامات سے بری کردیا۔

ناندیڑ واقعے پر ٹوئٹ کرتے ہوئے ڈاکٹر کفیل خان نے کہا، "یہ انتہائی دلدوز سانحہ ہے۔ اگر وہ کہہ رہے ہیں کہ دواوں کی قلت کی وجہ سے ایسا ہوا ہے تو یہ حقیقتاً تشویش ناک معاملہ ہے۔"

 

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں