1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت، یومیہ کورونا کیسز ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ گئے

11 اپریل 2021

بھارت میں اتوار کو کورونا کے یومیہ نئے کیسز کی تعداد بڑھ کر  ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ دوسری جانب حکام کا کہنا ہے کہ کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے بھارت دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے ویکیسن کے ٹیکے لگا رہا ہے۔

Indien COVID-19  Graffiti in Mumbai
تصویر: Ashish Vaishnav/SOPA Images/ZUMA Wire/picture alliance

بھارتی وزارت صحت کے مطابق ملک میں 85 دنوں کے اندر دس کروڑ سے زائد ویکیسن کے ٹیکے لگائے جا چکے ہیں۔ امریکا نے اس تعداد میں ویکسین  مہیا کرنے میں 89 دن لگائے جبکہ چین نے 102 روز میں یہ ہدف حاصل کیا۔   

بھارت میں جمعے کو نئے کورونا مریضوں کی تعداد ایک لاکھ پینتالیس ہزار سے زائد ریکارڈ کی گئی تھی۔ تاہم اتوار کو یہ مزید بڑھ کر ڈیرھ لاکھ سے بھی زائد ہو گئی جبکہ مزید 839 اموات ریکارڈ کی گئیں۔

تصویر: Francis Mascarenhas/Reuters

بھارت اس وقت دنیا میں کیسز کے اعتبار سے امریکا اور برازیل کے بعد تیسرے نمبر پر ہے۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ پچھلے ایک ہفتے کے دوران جس رفتار سے انفیکشن پھیلا ہے، بھارت برازیل کو پیچھے چھوڑ کر دوسرے نمبر پر آ جائے گا۔

بھارت میں پچھلے ہفتے کم از کم پانچ ریاستوں سے ویکسین کی قلت اور بدانتظامی کی شکایات سامنے آئیں۔ تاہم حکام نے ان اطلاعات کو بے بنیاد قرار دے کر رد کیا اور کہا کہ ملک میں چار کروڑ ٹیکے اسٹاک میں پڑے ہیں۔

کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد کے مدنظر دارالحکومت دہلی اور ممبئی جیسے بڑے شہروں میں رات کا کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے جبکہ اسکول بند اور ہوٹلوں اور سینما گھروں میں لوگوں کے آنے پر پابندیاں لگائی گئی ہیں۔

تصویر: Francis Mascarenhas/REUTERS

ساتھ ہی حکومت نے چودہ اپریل تک زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ویکیسن کے ٹیکے لگانے کی مہم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بھارت نے پہلے مرحلے میں طبی عملے اور 60 برس سے اوپر کے شہریوں کو ویکسین دی اور اب 45 برس سے اوپر کے شہریوں کو بھی مفت ویکسین دستیاب ہو گی۔

ماہرین کے مطابق کیسز میں زبردست اضافے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ سماجی فاصلے کی ہدایات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ حالیہ ہفتوں میں ملک میں مذہبی و سیاسی اجتماعات میں معمول کا رش دیکھا گیا۔ 

ش ج، ا ا (ڈی پی اے)   

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں