یوم آزادی پر بھارتی پرچم کے بجائے سکھ پرچم لہرانے کی اپیل
صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
11 اگست 2022
بھارتی ریاست پنجاب میں بعض رہنماؤں نے یوم آزادی کے موقع پر بھارت کے قومی پرچم کے بجائے سکھ مذہب کا پرچم لہرانے کی اپیل کی ہے۔ ان کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی کا ’ہر گھر ترنگا‘ کا مطالبہ اکڑ پن یا جارحانہ قوم پرستی ہے۔
اشتہار
بھارتی ریاست پنجاب میں شرومنی اکالی دل (امرتسر) اور دل خالصہ جیسی سیاسی جماعتوں نے حال ہی میں سکھ برادری سے بھارتی قومی پرچم کے بجائے نشان صاحب (سکھوں کے مقدس نشان والا پرچم) لہرانے اور اپنی ایک الگ شناخت ظاہر کرنے پر زور دینے کی اپیل کی۔
پنجاب کے ایک رکن پارلیمان نے بھی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے اس اعلان کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی ہے، جس میں مودی نے اسی ماہ ملکی آزادی کے 75 برس پورے ہونے کے موقع پر ہر شہری کو اپنے مکان پر بھارتی پرچم لہرانے کی اپیل کی تھی۔ اس رکن پارلیمان کا کہنا ہے کہ مودی کی 'ہر گھر ترنگا‘ کی کال جنگ جوئی والی وطن پرستی کی سوچ کی مظہر ہے۔
اشتہار
سکھ رہنماؤں کی اپیل
شرومنی اکالی دل (امرتسر) کے سربراہ سمرن جیت سنگھ مان نے ملک کی مرکزی حکومت کی 'ہر گھر ترنگا‘ نامی مہم کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی۔ ان کا کہنا تھا، ''میں آپ سے چودہ اور پندرہ اگست کے روز اپنے گھروں اور دفاتر پر نشان صاحب لہرانے کی درخواست کرتا ہوں۔ دیپ سدھو، جو ہمارے درمیان نہیں رہے، کا کہنا تھا کہ سکھ ایک آزاد اور دوسروں سے الگ برادری ہے۔‘‘
علیحدگی پسند رہنما سمرن جیت سنگھ مان پارلیمان کے رکن بھی ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر بھارتی افواج کو ’دشمن افواج‘ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا، ’’جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے (ہلاک شدہ خالصتانی رہنما) دشمن کی افواج سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے تھے۔‘‘
واضح رہے کہ بھارتی فوج نے امرتسر میں واقع سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل میں ایک آپریشن بلیو اسٹار کیا تھا، جس میں جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے اپنے درجنوں ساتھیوں کے ساتھ مارے گئے تھے۔
خالصتان کی حامی ایک اور علیحدگی پسند تنظیم ’سکھس فار جسٹس‘ (ایس ایف جے) کے رہنما گرپتون سنگھ پنون نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں پنجاب کے لوگوں سے کہا کہ وہ یوم آزادی کے موقع پر خالصتان کے پرچم لہرائیں اور ’بھارتی قومی پرچم نذر آتش کریں۔‘‘
بھارت میں اس تنظیم پر پابندی عائد ہے اور اس کے بیشتر رہنما اور کارکن برطانیہ اور کینیڈا جیسے ممالک میں مقیم ہیں۔
چند روز قبل پنجاب کی ایک اور جماعت دل خالصہ نے شرومنی اکالی دل کے ساتھ مل کر 14 اگست کو جالندھر سے مارچ کرنے کا اعلان بھی کیا تھا، جو 15 اگست کو پنجاب کے موگا میں ایک عوامی مظاہرے کی شکل میں اجتماع کے ساتھ اختتام پذیر ہو گا۔
ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دل خالصہ کے رہنما ستنام سنگھ پاونٹا صاحب، کنور پال سنگھ اور پرم جیت سنگھ ٹانڈہ اور ایس اے ڈی (امرتسر) کے جنرل سیکرٹری ہرپال سنگھ بلیئر نے بھی نریندر مودی کی 'ہر گھر ترنگا‘ مہم کی سختی سے مخالفت کرنے کی اپیل کی تھی۔
ان رہنماؤں کا کہنا تھا، ''ہم سمجھتے ہیں کہ ہندو قوم پرست جماعت نے بڑی چالاکی سے اس اقدام کے ذریعے اقلیتوں اور ان سے اختلاف رکھنے والے لوگوں پر ایک جھوٹی قوم پرستی مسلط کرنے کے لیے اسے ڈیزائن کیا ہے۔ اپنی مہم کو کامیاب بنانے کے لیے مرکزی حکومت نے ملک بھر میں کروڑوں قومی پرچم تقسیم کرنے کا منصوبہ بھی بنایا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم پنجابی عوام، خاص طور پر سکھوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس کی مخالفت کے لیے انہی دنوں میں اپنے گھروں پر سکھ پرچم لہرائیں، تاکہ وہ اپنی ایک الگ شناخت ظاہر کر سکیں۔ ہمارے کارکن سکھوں میں 'کیسری پرچم‘ چھاپ کر تقسیم کریں گے۔‘‘
دل خالصہ کے لیڈروں نے کہا کہ مودی کی ترنگا مہم در اصل 'جارحانہ قوم پرستی‘ پر مبنی ہے تاکہ اس کی مدد سے وہ لوگوں کے ذہنوں پر قابو پا سکیں۔
کنور پال سنگھ نے کہا، ''ترنگے کی چھتری کے نیچے سکیورٹی فورسز نے گزشتہ 40 برسوں کے دوران پنجاب کے سینکڑوں نوجوانوں کا ماورائے عدالت قتل کیا ہے۔ ایک سچا پنجابی اور سکھ ترنگے کو کیسے سلامی دے سکتا ہے یا اسے لہرا سکتا ہے؟‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''ان لوگوں پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں جو اپنے گھروں کی چھتوں پر نشان صاحب نہیں لہرانا چاہتے۔ مسلمان اپنے مقدس سبز پرچم لہرا سکتے ہیں جب کہ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے کامریڈ اور کسان یونین سبز، سرخ یا سفید پرچم لہرا سکتی ہیں۔‘‘
اتفاق کی بات یہ ہے کہ 26 جنوری کو لال قلعہ پر سکھ پرچم لہرانے والے جگراج سنگھ بھی اس پریس کانفرنس میں موجود تھے۔
بھارتی حکومت نے ملکی آزادی کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر 'آزادی کا امرت مہا اتسو‘ منانے کا اعلان کیا ہے۔ اس مہم کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ اس بار 13 اگست سے 15 اگست کے درمیان ہر گھر پر بھارتی قومی پرچم لہرانے کی ضرورت ہے۔ یہ مہم پورے ملک کے لیے ہے تاہم متنازعہ اور منقسم خطہ کشمیر کے بھارت کے زیر انتظام حصے کی انتظامیہ پر اس کے لیے خاص طور پر زور دیا جاتا رہا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی اور بعض دیگر سیاسی جماعتوں نے ریاست پنجاب میں قومی پرچم کی مخالفت کرنے والوں پر شدید تنقید کی ہے۔
گولڈن ٹیمپل پر حملے کے تیس سال
سکھوں کے لیے ’خالصتان‘ کے نام سے ایک الگ وطن کے قیام کی تحریک کو ٹھیک تیس سال پہلے بھارتی فوج کے آپریشن بلیو سٹار کے ذریعے کچل دیا گیا تھا۔ چھ جون 1984ء کو ہونے والی اس کارروائی میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
تصویر: Getty Images
سکھوں کا مقدس ترین مقام
بھارتی شہر امرتسر میں سکھ مذہب کے پیروکاروں کا مقدس ترین مقام ’گولڈن ٹیمپل‘ واقع ہے۔ چھ جون کو اس عبادت گاہ پر حملے کے تیس برس مکمل ہو گئے۔ چھ جون 1984ء کو بھارتی فوج نے ’آپریشن بلیو سٹار‘ کے دوران اس عبادت گاہ میں گھس کر سینکڑوں افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے کی تیس ویں برسی کے موقع پر بھی گولڈن ٹیمپل میں ایک آزاد وطن کے حق میں نعرے لگائے گئے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تحریک کمزور پڑ چکی ہے۔
تصویر: Narinder Nanu/AFP/Getty Images
تیس سالہ تقریب میں کرپانیں اور تلواریں
چھ جون 2014ء کو گولڈن ٹیمپل میں سکھوں کے دو گروپوں کے درمیان تصادم میں دونوں جانب سے تلواریں اور کرپانیں نکل آئیں اور کچھ لوگ زخمی ہو گئے۔ 1984ء کے فوجی آپریشن کے تیس برس مکمل ہونے پر یادگاری تقریب کے دوران سکھ مذہب کی ایک سیاسی جماعت شرومنی اکالی دل کے حامیوں نے معمولی اختلاف کے بعد آزاد ریاست کے حق میں نعرے لگانے شروع کر دیے، جنہیں بعد ازاں سکیورٹی گارڈز نے گوردوارے سے نکال دیا۔
تصویر: UNI
سکھ نوجوانوں کی بدلتی ترجیحات
گولڈن ٹیمپل پر حملے کی یاد میں تقریبات کا انعقاد ہر سال ہوتا ہے لیکن نوّے کی دہائی میں ’’خالصتان‘‘ کے لیے شروع ہونے والی تحریک اب ماند پڑتی جا رہی ہے۔ ایک آزاد سکھ ریاست کے مخالف سُکھدیو سندھو کہتے ہیں:’’اب پنجاب کے لوگ 1984ء کے حالات سے بہت آگے جا چکے ہیں۔ تب یہ تحریک اس وجہ سے کامیاب ہوئی تھی کہ نوجوان اس میں شامل تھے۔ ان نوجوانوں کی ترجحیات بدل چکی ہیں۔ وہ بندوقوں کی بجائے روزگار چاہتے ہیں۔‘‘
تصویر: N. Nanu/AFP/Getty Images
سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے
80ء کے عشرے میں سکھ علیحدگی پسندوں کی قیادت سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے نے کی، جو چھ جون 1984ء کو بھارتی فوج کے آپریشن کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔ اُس وقت اُن کی عمر صرف سینتیس سال تھی۔
تصویر: picture alliance/AP Images
جب فوجی بوٹوں سمیت اندر گھُس گئے
امرتسر میں چھ جون 1984ء کو کیے جانے والے فوجی آپریشن میں تقریباً 500 افراد مارے گئے تھے۔ یہ آپریشن وہاں موجود سکھ علیحدگی پسندوں کو گولڈن ٹیمپل سے نکالنے کے لیے کیا گیا تھا، جو سکھوں کے لیے ایک علیحدہ وطن خالصتان کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس وقت بھارتی فوجی سکھوں کے اس مقدس ترین مقام میں جوتوں سمیت داخل ہو گئے تھے۔ اس دوران ٹیمپل کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اندرا گاندھی اپنےسکھ محافظ کے انتقام کا نشانہ
گولڈن ٹیمپل میں فوجی آپریشن کے کچھ ہی عرصے بعد اُس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو اُن کے اپنے ہی محافظوں ستونت سنگھ اور بے انت سنگھ نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد پھوٹنے والے فسادات میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف نئی دہلی ہی میں 3000 سے زائد سکھوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ سکھ گروپوں کے مطابق یہ تعداد 4000 سے بھی زیادہ تھی۔ ہزاروں سکھ بے گھر بھی ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/united archives
بھنڈراں والے کی یادیں اب بھی تازہ
یہ تصویر 2009ء کی ہے، جب گولڈن ٹیمپل پر حملے کو پچیس برس مکمل ہوئے تھے۔ سکھ علیحدگی پسند اب بھی ہر سال چھ جون کو گولڈن ٹیمپل پر جمع ہوتے ہیں اور خالصتان تحریک کی قیادت کرنے والے سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے کو یاد کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
سکھ مذہب کے بانی گورو نانک
امرتسر کے مرکزی سکھ میوزیم میں آویزاں اس پینٹنگ میں سکھ مذہب کے بانی گورو نانک تلونڈی (موجودہ پاکستان کے شہر ننکانہ صاحب) میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ گورو نانک کے ایک جانب اُن کے مسلمان ساتھی بھائی مردانہ اور دوسری جانب ہندو ساتھی بھائی بیلا کھڑے ہیں۔
امرتسر میں واقع گولڈن ٹیمپل دنیا بھر کے سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ ہے، جہاں ہر وقت ایک میلہ سا لگا رہتا ہے۔ 2008ء کی اس تصویر میں پاکستان، بھارت اور دنیا بھر سے گئے ہوئے سکھ اپنے پہلے سکھ گورو گورو نانک دیو کی 539 ویں سالگرہ کی تقریبات میں شریک ہیں۔
تصویر: AP
بیرون ملک آباد سکھوں میں تحریک اب بھی زندہ
نیویارک میں سکھ علیحدگی پسندوں کے اجتماع کا ایک منظر۔ سکھوں کی آزادی کی تحریک اور اُن کے لیے ایک الگ وطن ’’خالصتان‘‘ کی حمایت کرنے والے اب بھی موجود ہیں۔ امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر ملکوں میں مقیم تارکین وطن آج بھی خالصتان کے حق میں ہیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بیرون ملک مقیم سکھوں کی تعداد 18 سے 30 ملین کے قریب ہے اور آج بھی پنجاب کے ساتھ ان کے روابط قائم ہیں۔
تصویر: AP
سنگ بنیاد حضرت میاں میر نے رکھا
امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کی بنیاد سکھ رہنما گورو ارجن صاحب کی خصوصی خواہش کے احترام میں لاہور سے خصوصی طور پر جانے والے ایک مسلمان صوفی بزرگ حضرت میاں میر نے سولہویں صدی میں رکھی تھی۔ یہ سنہری عبادت گاہ ایک خوبصورت تالاب میں تعمیر کی گئی ہے، جسے سیاحوں کی بھی ایک بڑی تعداد دیکھنے کے لیے جاتی ہے۔ سکھ اپنی اس عبادت گاہ کو مذہبی رواداری، محبت اور امن کی علامت گردانتے ہیں۔