1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

بھارت: یونیورسٹی میں کشمیر پر پروگرام کی اجازت نہیں

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
30 اکتوبر 2021

"کشمیر کی صنفی مزاحمت اور تازہ چیلنجز" کے حوالے سے ایک پروگرام کئی روز پہلے سی طے تھا۔ تاہم وائس چانسلر نے اس ویبینار کے موضوع کو، "انتہائی قابل اعتراض اور اشتعال انگیز" قرار دیتے ہوئے اسے منسوخ کروا دیا۔

Indien | Angriff auf eine Schule in Srinagar
تصویر: Dar Yasin/AP Photo/picture alliance

بھارتی دارالحکومت دہلی کی معروف 'جواہر لعل یونیورسٹی' (جے این یو) کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس نے کشمیر کی صورت حال سے متعلق ایک بہت ہی قابل اعتراض موضوع پر ہونے والے آن لائن سیمینار کو منسوخ کر دیا ہے اور اس معاملے کی مزید تفتیش کے احکامات دیے گئے ہیں۔

اس آن لائن سیمینار یا پھر ویبینار کا موضوع "2019 کے بعد کے کشمیر میں صنفی مزاحمت اور تازہ چیلنجز" تھا۔ اس میں دفعہ 370 کے بعد کی صورت حال کے بارے میں بات ہونا تھی۔ تاہم دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی سخت گیر طلبہ کی تنظیم اور اس سے وابستہ بعض اساتذہ نے اس کی مخالفت کی جس کی وجہ سے اس کی اجازت نہیں دی گئی۔

جے این یو کا کیا کہنا ہے؟

اس ویبینار کا اہتمام یونیورسٹی کے شعبے 'سینٹر فار وومن اسٹڈیز' نے کیا تھا، جس سے کولاراڈو یونیورسی کی پرفیسر اطہر ضیاء خطاب کرنے والی تھیں۔ اطہر ضیا شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ کئی کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں جنہوں نے کشمیر کی صورت حال پر بھی ایک کتاب لکھی ہے۔ اسی حوالے سے انہیں وبیینار میں خاص طور پر مدعو کیا گيا تھا۔

 جواہر لعل یونیورسٹی کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس ویبینار کے حوالے سے، "نوٹس بورڈ پر لکھا گيا تھا کہ یہ بات چیت کشمیر کے جس حصے پر بھارت قابض ہے، اس میں صنفی مزاحمت کے کلچر پر توجہ مرکوز کی جائے گي۔" اور یہی بھارت کے قبضے والے بات قابل اعتراض تھی جس کا سخت نوٹس لیا گيا۔  

یونیورسٹی کے وائس چانسلر ایم جگدیش کمار کا کہنا تھا، "یہ ایک انتہائی قابل اعتراض اور اشتعال انگیز موضوع ہے، جو ہمارے ملک کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ جے این یو اس قسم کے قابل اعتراض ویبینارز کا پلیٹ فارم نہیں ہو سکتا۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ جیسے ہی اس کا علم ہوا فوری طور پر کارروائی کی گئی اور، "اسے منسوخ کرنے کا حکم دیا گيا۔ ویبینار کا اہتمام کرنے والے فیکلٹی ممبران نے اس طرح کے پروگرام کی منصوبہ بندی کرنے سے پہلے انتظامیہ سے اجازت نہیں لی تھی۔ اس معاملے کی انکوائری کی جا رہی ہے۔"

تصویر: Danish Ismail/REUTERS

سخت گیر ہندو تنظیم آر ایس ایس سے وابستہ طلبہ کی تنظیم اکھل بھارتیہ ودھارتی پریشد کا کہنا ہے کہ  جو افراد اس ویبینار کا اہتمام کر رہے تھے ان کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ تنظیم کے مطابق بعض طلبہ اور اساتذہ کی جانب سے، " یہ کشمیر سے متعلق غلط بیانیہ پیش کرنے کی ایک سازش تھی، جو بھارتی آئین کی سالمیت اور خود مختاری کو مجروح کرتا ہے۔"

سینٹر فار وومن اسٹڈیز نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں صرف اتنا لکھا کہ اطہر ضیا جس ویبینار سے خطاب کرنے والی تھیں اسے منسوخ کر دیا گيا ہے اور اس بارے میں مزید معلومات جلد ہی مہیا کی جائے گی۔

پروفیسر اطہر ضیا امریکا کی کولاراڈو یونیورسٹی میں پولیٹیکل ماہر بشریات کی پروفیسر ہیں اور شاعری کے ساتھ معروف مصنفہ بھی ہیں۔ کشمیر سے متعلق ان کی کتاب، "ریزسٹنگ ڈس اپیئرنس، ملٹری اکوپیشن اینڈ وومنس ایکٹیوزم ان کشمیر" حال ہی میں آئی ہے اور اس ویبینار میں اسی حوالے سے بات ہونا تھی۔

اس میں اس بات پر بحث بھی ہونا تھی کہ سن 2019 میں جب سے بھارت نے کشمیر کو خصوصی اختیارات دینے والی دفعہ  370کا خاتمہ کیا ہے اس کے بعد خواتین  عموماً کس طرح متاثر ہو رہی ہیں۔

بھارت کی موجودہ سخت گیر ہندو قوم پرست حکومت نے کشمیر کا ریاستی درجہ ختم کر کے اسے مرکز میں ضم کر دیا اور اس کے تمام اختیارات نئی دہلی کے پاس ہیں۔ کشمیر کے بیشتر رہنما اور کارکنان جیلوں میں قید ہیں جبکہ خطے میں ہر جانب فوج کا پہرہ ہے۔ حکومت کا دعوی ہے کہ اس طرح  بھارت کے خلاف کشمیریوں کی مزاحمت کو کچلا جا سکتا ہے۔

    لیکن ماہرین کے مطابق ان اقدام سے بھارت اور کشمیریوں کے درمیان خلیج بڑھی گئی ہے اور اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ چند روز قبل ہی جب پاکستانی ٹیم نے بھارت کو ٹی 20 میچ میں شکست دی تو پورا کشمیر بھارت کی اس شکست کا جشن منانے امنڈ پڑا تھا۔  بھارتی حکومت نے اس کے بدلے میں بہت سے کشمیری طلبہ پر بغاوت کا کیس درج کیا ہے۔

اقبال کی وادی لولاب، کشمیر کی کُل روداد

04:17

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں