بھارت 2030 ء تک گاڑیوں کو الیکٹرک کارز بنانے کا خواہش مند
9 مارچ 2018
بھارت میں لوگوں کو سفری سہولیات فراہم کرنے والی کمپنی ’اولا‘ نے گزشتہ برس 8 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری سے بجلی سے چلنے والی گاڑیاں متعارف کرانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ نو ماہ بعد یہ پروگرام کامیاب ہوتا نظر نہیں آرہا۔
اشتہار
اس کمپنی کے ڈرائیور گاڑیوں کو چارج کرنے کے لیے لمبی قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں۔ انہیں چلانا عام گاڑیوں کی نسبت مہنگا بھی ہے۔ اسی لیے اب یہ ڈرائیور چاہتے ہیں کہ انہیں پٹرول سے چلنے والی گاڑیاں چلانے کی اجازت دی جائے۔ بھارت کے مغربی شہر ناگپور میں روئٹرز نے اس کمپنی میں الیکٹرک گاڑیاں چلانے والے بیس ڈرائیوروں سے انٹرویو کیا۔ ان میں سے لگ بھگ درجن ڈرائیوروں کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی الیکٹرک ٹیکسیوں کو کمپنی کو واپس دے دیا ہے اور اب وہ ڈیزل کی گاڑیاں چلا رہے ہیں یا چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اولا کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ ناگپور میں اپنی 200 الیکٹرک گاڑیوں کے لیے پچاس مقامات پر چارجنگ یونٹس بنائیں گے لیکن اب تک وہ لگ بھگ 22 چارجنگ یونٹس لگانے میں ہی کامیاب ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بھارت میں کاروبار شروع کرنا اور اسے چلانا اتنا آسان نہیں ہے اسی وجہ سے اولا کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ گزشتہ برس چارجنگ یونٹس پر ڈرائیوروں کی لمبی قطاروں نے سٹرکوں پر ٹریفک بڑھا دی تھی جس کے باعث اولا کو ایک چارجنگ یونٹ بند کرنا پڑا تھا۔ اولا کو درپیش مشکلات کے پیش نظر یہ مشکل لگتا ہے کہ بھارتی حکومت کا 2030 تک تمام گاڑیوں کو بجلی سے چلانے والا منصوبہ پایہء تکمیل تک پہنچے گا۔
بین الاقوامی کار ساز اداروں نے کئی مرتبہ خبرادر کیا ہے کہ بھارت ابھی اس قابل نہیں ہے کہ وہاں تمام گاڑیاں بجلی سے چلنے والی ہوں۔ ان کی رائے میں اس جنوبی ایشیائی ملک کو ایک مفصل پالیسی مرتب کرنا ہوگی اور کار ساز اداروں کو الیکٹرک گاڑیاں بنانے کی طرف مائل کرنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔
بھارت کو گاڑیوں کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی مارکیٹ قرار دیا ہے لیکن یہاں سالانہ فروخت ہونے والی 3 ملین گاڑیوں میں صرف0.1 فیصد الیکٹرک کارز تھیں۔ ان کی مانگ میں کمی کی وجہ ان کا بہت مہنگا ہونا اور چارجنگ یونٹس کے انفراسٹرکچر کا کم ہونا ہے۔
'ماہندرا اینڈ ماہندرا‘ بھارت کا واحد کارساز ادارہ ہے جو الیکٹرک گاڑیاں بنا رہا ہے لیکن اس کی کم ترین قیمت والی گاڑی بھی ساڑھے سات لاکھ بھارتی روپوں سے زیادہ ہے۔ اس سال فروری میں بھارت کے آٹو شو میں الیکٹرک گاڑیوں کو کافی توجہ ملی تھی لیکن ان میں سے زیادہ تر بین الاقوامی منڈی کے لیے تھیں۔ ہونڈا، ٹویوٹا اور رینالٹ جیسے بڑے کار ساز ادارےبھارت میں الیکٹرک گاڑیوں میں سرمایہ کاری کرنے کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ بھارت میں ٹویوٹا کے مینجنگ ڈائریکٹر آکیٹو ٹاچھیبانا کا کہنا ہے،’’ یہاں سرمایہ کاری کرنے میں بہت زیادہ رسک ہے۔‘‘
جرمنی کی بہترین کاریں، کتنی ہی یادیں جن سے جڑی ہیں
یہ گاڑیاں دیکھ کر کاروں سے محبت کرنے والے کسی بھی شخص کی آنکھیں بھیگ سکتی ہیں۔ فالکس ویگن سے بی ایم ڈبلیو اور اوپل سے مرسیڈیز بینز تک، جرمن کار ساز اداروں نے کئی شان دار ماڈلز تیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kneffel
ٹریبنٹ 601 (1964)
ٹریبنٹ سابقہ مشرقی جرمنی کے لوگوں کے لیے ویسی ہی تھی جیسی مغربی جرمنی میں فالکس ویگن بیٹل تھی، یعنی عام افراد میں مقبول۔ اسے تیار کرنا سستا تھا، کیوں کہ اس کی بیرونی باڈی پلاسٹک سے بنائی جاتی ہے۔ جب دیوارِ برلن گرائی گئی اور مشرقی جرمن سے تعلق رکھنے والے افراد نے دیگر علاقوں کا رخ کیا، تو یہ گاڑی بھی ہر جگہ دکھائی دینے لگی۔ اب بھی 33 ہزار ٹریبنٹ گاڑیاں جرمن سڑکوں پر دکھائی دیتی ہیں۔
تصویر: Imago/Sven Simon
فالکس ویگن بیٹل (1938)
فالکس ویگن کا یہ سب سے بااعتبار ماڈل کہلاتا ہے۔ مجموعی طور پر اس کار کے 21 ملین یونٹس تیار کیے گئے۔ اسے دنیا کی سب سے مشہور گاڑی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، جو سن 1938 سے 2003 تک تیار کی جاتی رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
فالکس ویگن ٹی ون (1950)
فالکس ویگن کی یہ کیمپر گاڑی جرمنی میں ’بُلی‘ کے نام سے بھی مشہور ہے اور اسے ہپی تحریک میں بہت شہرت حاصل ہوئی۔ فالکس ویگن ابتدا میں اس گاڑی سے خوش نہیں تھی، مگر اس کی فروخت پر کوئی فرق نہ پڑا۔ اب تک فالکس ویگن کی 10 ملین بسیں فروخت ہو چکی ہیں، جن میں سے ایک اٹھارہ لاکھ ٹی ون ماڈل کی گاڑیاں ہیں۔
تصویر: DW/M. Reitz
میسرشمِٹ کیبن اسکوٹر (1953)
تین پہیوں والی یہ ایروڈائنامکس گاڑی میسر شمِٹ نامی ہوائی جہاز بنانے والا ہی تیار کر سکتا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اس ادارے کی پیداوار رک گئی تھی، مگر پھر کمپنی نے انجینیئر فرِٹس فینڈ کے ساتھ مل کر فلِٹسر کار متعارف کروائی۔ یہ پارٹنر شپ طویل المدتی نہیں تھی۔ میسرشِمٹ اس کے بعد دوبارہ جہاز سازی میں مصروف ہو گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Galuschka
مرسیڈیز تین سو ایس ایل (1954)
یہ کار ’گُل وِنگ‘ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے، وجہ ہے اس کے پروں کی طرح کھلتے دروازے۔ اس ریسنگ گاڑی کی وجہ سے مرسیڈیز ایک مرتبہ پھر حیرت انگیز طور پر موٹر اسپورٹس کھیل میں واپس آئی۔ اس گاڑی نے ریسنگ کے متعدد اہم مقابلے جیتے اور پھر سڑکوں پر دکھائی دینے لگی۔
تصویر: Daimler AG
بی ایم ڈبلیو اِسیٹا (1955)
یہ گاڑی تیز رفتار تو نہیں تھی، مگر سن 1955 سے 1962 تک بی ایم ڈبلیو نے اس سے مالیاتی استحکام حاصل کیا۔ یہ موٹر سائیکل کے انجن والی گاڑی کم قیمت اور کارگر تھی۔ اسے ببل کار کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ کسی فریج کی طرح سامنے سے کھلتی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kneffel
گوگوموبائل (1955)
یہ چھوٹی گاڑی بھی گاڑیوں کو پسند کرنے والوں میں مقبول ہے۔ کمپنی کے مالک کے پوتے ’ہانس گلاز‘ کی عرفیت ’گوگو‘ کو اس گاڑی سے جوڑا گیا۔ دیگر چھوٹی گاڑیوں کے مقابلے میں گوگو میں چار افراد سوار ہو سکتے تھے۔ صرف ایک اعشاریہ چھ میٹر کی جگہ کی وجہ سے گو کہ ان افراد کو ذرا سکڑ کر بیٹھنا پڑتا تھا۔ اس گاڑی کو چلانے کے لیے صرف موٹرسائیکل چلانے کا لائسنس درکار ہوتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
پورشے نائن ون ون (1963)
پورشے کی نائن ون ون گاڑی کار سازی کی تاریخ کی سب سے زیادہ لمبے عرصے سے بنائی جانے والی گاڑی ہے۔ اس کے پیچھے قریب نصف صدی کی تاریخ ہے۔ یہ پورشے گاڑیوں کا ایک ٹریڈ مارک بن چکی ہے۔ گاڑی کی بناوٹ ایسی ہے کہ پورشے نائن ون ون فوراﹰ پہچانی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance//HIP
مرسیڈیز بینز 600 (1964)
اس گاڑی میں ٹیلی فون، ایرکنڈیشنر، فریزر ڈبہ اور دیگر لگژری سہولیات، ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اسے سب سے لگژری گاڑی بناتے تھے۔ بہت سی مشہور شخصیات نے یہ گاڑی استعمال کی، جس میں پوپ سے جان لینن تک شامل تھے۔ جرمن حکومت کے لیے یہ کچھ مہنگی تھی، اس لیے وہ اہم مواقع پر اسے کرائے پر لیتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
9 تصاویر1 | 9
تجزیہ کاروں کی رائے میں الیکٹرک گاڑیوں کے ایک چارجنگ یونٹ لگانے کے لیے 500 سے 25000 ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہوتی ہے اور زمین کی قیمت الگ ہوتی ہے۔ کار ساز اداروں کا کہنا ہے کہ حکومت کو کم از کم زمین فراہم کرنی چاہیے اور اسٹیشن بھی بنانا چاہیے۔ مستقبل میں نجی سرمایہ کار ان چارجنگ اسٹیشنز میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔