بھارت: 21 سالہ طالبہ ملکی تاریخ کی کم عمر ترین میئر بن گئیں
جاوید اختر، نئی دہلی
29 دسمبر 2020
اکیس سالہ آریہ راجندرن بھارتی تاریخ میں اب تک کی سب سے کم عمر میئر بن گئی ہیں۔ تاہم سب سے کم عمر کے میئر ہونے کا عالمی ریکارڈ مائیکل سیسنز کے نام ہے، جو اٹھارہ برس کی عمر میں ہلز ڈیل کے میئر منتخب ہوئے تھے۔
تصویر: Facebook/Communist Party of India (Marxist)
اشتہار
آریہ راجندرن نے بھارت کے جنوبی ریاست کیرالا کے دارالحکومت تھرواننت پورم کے نئے میئر کا عہدہ پیر کے روز سنبھالا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بھارت میں اب تک کی سب سے کم عمر میئر کا اعزاز حاصل کر لیا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ انہوں نے گزشتہ دنوں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ ووٹ ڈالا تھا۔
آریہ راجندرن کے میئر کے عہدے پر فائز ہونے کو بھارت اور بالخصوص کیرالا میں نئی نسل اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے ایک مثبت اور خوش آئند عمل قرار دیا جا رہا ہے۔ متعدد اہم سیاسی رہنماؤں نے بھی اس پیش رفت کا خیرمقدم کیا ہے۔
تعلیم یافتہ خواتین کی سیاست میں دلچسپی
کیرالا کے صحافی اور ملیالی روزنامے 'مادھیمم‘ کے دہلی بیورو چیف حسن البنا نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''ریاست میں خواتین سیاسی طور پر کافی بیدار ہیں، وہ سیاستی امور اور انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ پہلے جہاں بلدیاتی انتخابات کے دوران خواتین کی محفوظ سیٹوں کے لیے امیدوار ملنا مشکل ہوتا تھا، وہیں اب الیکشن میں عام زمرے کی سیٹوں پر بھی خواتین کی بڑی تعداد امیدوار کے طور پر موجود نظر آتی ہے۔‘‘
حسن البنا نے بتایا کہ اعلی تعلیم یافتہ خواتین کی سیاست سے دلچسپی کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملاپورم ضلعے میں ایک ایسی خاتون امیدوار کامیاب ہوئی ہیں، جنہوں نے بھارت کے معروف انجینئرنگ کالج انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، کالی کٹ سے الیکٹرانکس انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔
بھارتی سیاست میں خواتین کا کردار
03:36
This browser does not support the video element.
صحافی حسن البنا کہتے ہیں کہ کیرالا میں تمام فرقوں، جس میں مسلمان بھی شامل ہیں، کی لڑکیاں بڑی تعداد میں اعلی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ اس وقت اسکولوں اور کالجوں میں 75 تا 80 فیصد لڑکیاں نظر آتی ہیں۔ بھارت کی مختلف سینٹرل یونیورسٹیوں میں بھی ان کی بڑی تعداد ہے۔"
حسن البنا اس حوالے سے مزید کہتے ہیں، ''کیرالا میں لڑکیوں کی شادی اور تعلیم کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بعض اوقات اگر ڈگری کورس میں تعلیم کے دوران بھی کسی لڑکی کی شادی ہو جاتی ہے تو وہ اپنی تعلیم جاری رکھتی ہے۔ زیادہ تر سسرال والے نہ صرف اس کو سپورٹ کرتے ہیں بلکہ اعلی تعلیم حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔"
بھارت بھر کی نسبت کیرالا میں شرح خواندگی بھی سب سے زیادہ ہے۔ بھارت میں اوسط شرح خواندگی تقریبا 74 فیصد ہے جبکہ اس کے مقابلے میں کیرالا میں یہ تقریباً94 فیصد بنتی ہے۔ خواتین کی شرح خواندگی تقریباً 92 فیصد ہے۔
آریہ سیکنڈ ایئر کی طالبہ ہیں
آریہ راجندرن اس وقت تھرواننت پورم کے آل سینٹس کالج میں بی ایس سی میتھ میٹکس کے دوسرے سال کی طالبہ ہیں۔ وہ بائیں بازو کی جماعت مارکسی کمیونسٹ پارٹی (سی پی آئی ایم) کے امیدوار کے طور پر کامیاب ہوئی ہیں۔ انہوں نے نہ صرف اپنے قریبی کانگریسی امیدوار کو شکست دی بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اپنا میئر بنانے کے خواب کو بھی چکنا چور کر دیا۔
خواتین جو دنیا میں تاریخ رقم کر گئیں
عالمی یوم خواتین پر آپ کو ان دس خواتین کے بارے میں بتاتے ہیں، جنہوں نے بے خوف و خطر اور بلند حوصلے کی بدولت تاریخ میں اپنا نام رقم کیا۔
تصویر: Imago
دنیا کی پہلی فرعون خاتون:
ہیتھ شیپسوٹ (Hatshepsut) اپنے خاوند کی موت کے بعد تاریخ میں بنے والی پہلی فرعونہ تھی۔ وہ نہ صرف کامیاب ترین حاکموں میں سے تھیں بلکہ قدیم مصر کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک حکومت کرنے والی خواتین میں سے بھی ایک تھیں۔ دو دہائیوں پر مشتمل ان کا دور حکومت نہایت پُر امن تھا جس میں تجارت کو فروغ حاصل ہوا۔ اس کے باوجود ان کے بعد آنے والے جانشینوں نے ان کا نام تاریخ سے مٹانے کی بھرپور کوششیں کی۔
تصویر: Postdlf
مقدس شہید:
سن 1425 میں انگلینڈ اور فرانس کے درمیان سو سالہ جنگ جاری تھی، جب ایک کسان کی 13 سالہ بیٹی جون پر کشف ہوا کہ وہ فرانس کی حفاطت کرتے ہوئے فرانسیسی تخت کو چارلس ہفتم کے لیے تسخیر کرے۔ 1430 میں اپنی کوششوں کے دوران ان کو گرفتار کر لیا گیا اور سزا کے طور پر زندہ جلا دیا گیا۔
تصویر: Fotolia/Georgios Kollidas
مضبوط ارادہ کمانڈر:
کیتھرین دوئم نے بغاوت کے دوران اپنے خاوند اور زار روس کے قتل کے بعد خود کو بطور نیا زار روس پیش کیا۔ انہوں نے اپنی خود اعتمادی کی بدولت روس کی عظیم الشان سلطنت پر اپنا اثر قائم کیا اور اپنی کامیاب مہمات میں پولینڈ اور کریمیا کا علاقہ تسخیر کیا۔ وہ روس میں سب سے طویل عرصہ حکومت کرنے والی پہلی خاتون ہیں۔ اسی مناسبت سے انہیں’ کیتھرین دی گریڈ‘ کہا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/akg-images/Nemeth
دور اندیش ملکہ:
ملک اس وقت شدید انتشار کا شکار تھا جب ایلزبتھ اول نے تخت برطانیہ سنبھالا۔ انہوں نے اپنے دور میں نہ صرف کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مسالک کے درمیان جاری جنگ میں مصالحتی کردار ادا کیا بلکہ برطانیہ کو ایسے سنہری دور سے روشناس کروایا جہاں ادب اور ثقافت پھلے پھولے۔ ان کے دور میں اسپین کے عظیم بحری بیڑے کو بھی شکست فاش ہوئی۔
تصویر: public domain
حقوق خواتین کی سرگرم کارکن:
سن 1903سے برطانیہ میں خواتین کو ووٹ کا حق دلانے کے لیے جتنی بھی تحریکیں چلائی گئی، ان کی بانی ایمیلین پنکہرسٹ رہیں۔ انہیں ایک سے زائد بار جیل بھی کاٹنی پڑی لیکن ان کی انتھک تحریکوں کی بدولت 30 برس سے زائد عمر کی خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق مل گیا۔
تصویر: picture alliance/akg-images
انقلابی:
روزا لیگزمبرگ اس زمانے میں جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک موومنٹ کی صدر تھیں جس زمانے میں کسی خاتون کا کسی طاقتور عہدے پر تعین ہونا ممکن نہیں تھا۔ وہ جرمنی کی کمیونسٹ پارٹی اور سپارٹکس لیگ کی بانی بھی تھیں جس نے پہلی عالمی جنگ کے خلاف آواز بلند کی۔ انہیں 1919 میں جرمن آفسروں نے قتل کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
تابکاری کی تحقیق دان:
تابکاری پر کی جانے والی پہلی تحقیق پر میری کیوری کو نوبل انعام دیا گیا۔ وہ یہ انعام حاصل کرنے والی تاریخ کی پہلی خاتون ہیں۔ ان کو دوسرا نوبل انعام، ریڈیم اور پلونیم کی دریافت پر دیا گیا۔ اس کے علاوہ وہ پیرس یونیورسٹی میں مقرر ہونے والی پہلی خاتون پروفیسر بھی ہیں۔
تصویر: picture alliance/Everett Collection
ہولوکاسٹ کی آموزگار:
آنے فرانک نے سن 1942 سے سن 1944 تک کے عرصے میں اپنی ڈائری میں جو تحریریں درج کی، وہ ہولوکاسٹ کے وقت پیش آنے والے واقعات کے بارے میں نہایت اہم سند خیال کی جاتی ہے۔ 1945ء میں انہیں Auschwitz بھیج دیا گیا، جہاں ان کی موت واقع ہوئی۔
تصویر: Internationales Auschwitz Komitee
پہلی افریقی امریکی نوبل انعام یافتہ:
کینیا کی ونگاری ماتھائی1970ء میں ماحولیات اور حقوق خواتین کے لیے کام کرنا شروع کیا تھا۔ وہ گرین بیلٹ موومنٹ کی بانی بھی تھیں، جس میں بھوک اور پانی کی کمی کے علاوہ خشک سالی اور جنگلات کی کٹائی کے خلاف آواز بلند کی گئی۔ انہیں ان مسائل پر آواز اٹھانے پر سن 2004 میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
لڑکیوں کے حقوق کے لیے لڑنے والی کم عمر ترین کارکن:
ملالہ یوسف زئی صرف گیارہ برس کی تھی جب انہوں نے طالبان کی دہشت گرد حکمرانی کے خلاف بی بی سی پر رپورٹنگ کی۔ جب ان کے اسکول کو بندش کا سامنا کرنا پڑا تو اس کے خلاف انہوں نے اپنی آواز بلند کی جس کی پاداش میں ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ انہوں نے اپنی ایک خود نوشت بھی تحریر کی ہے۔
تصویر: Getty Images
10 تصاویر1 | 10
بی جے پی اس جنوبی ریاست میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی اگلے برس تھرواننت پورم کا دورہ کرنے والے ہیں۔ بی جے پی کی خواہش تھی کہ اس موقع پر ان کی پارٹی کا میئر ملک کے وزیر اعظم کا استقبال کرے لیکن اب اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکے گی۔
الیکٹریشین والد اور انشورنس ایجنٹ والدہ کی بیٹی آریہ راجندرن کو بچپن سے ہی سیاست سے دلچپسی رہی ہے۔ وہ سی پی آئی ایم کے بچوں اور طلبہ تنظیم سے وابستہ رہی ہیں۔ آریہ راجندرن کہتی ہیں، ''اب مجھے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے اور تعلیم جاری رکھنے میں تھوڑی دشواری تو ضرور ہو گی لیکن میں اپنی تعلیم جاری رکھوں گی۔ میں پبلک ایڈمنسٹریشن میں اعلی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہوں۔"
تھرواننت پورم بھارت کے سابق وفاقی وزیر اور کانگریس کے سینئر رکن پارلیمان ششی تھرور کا حلقہ انتخاب ہے۔ ایک میئر کی حیثیت سے آریہ راجندرن اپنی ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں، ”ہمارا شہر بہت خوبصورت ہے۔ اس کی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے بہتر ویسٹ مینجمنٹ میری پہلی ترجیح ہوگی۔ لوگوں کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کچرا سڑکوں کے کناروں پر نہ پھینکیں۔"
مبارک باد کا سلسلہ
آریہ راجندرن کے میئر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد متعدد سیاسی اور سماجی رہنماوں کے علاوہ فلمی ستاروں نے بھی انہیں مبارک باد دی ہے۔ ششی تھرور نے مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ ان کی یہ کامیابی بہت ہی خاص ہے۔ فلم اداکار کمل ہاسن نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا، ''کامریڈ آریہ راجندرن کو مبارک باد، جنہوں نے انتہائی کم عمر میں تھرواننت پورم کے میئر کا عہدہ سنبھالا۔ تامل ناڈو میں بھی 'ماں کی قوت‘ تبدیلی کے لیے تیار ہو رہی ہے۔" کمل ہاسن کا تعلق تامل ناڈو سے ہے۔ وہ ان دنوں سیاست میں کافی سرگرم ہو گئے ہیں۔
جے پور کی خواتین قاضی
02:47
This browser does not support the video element.
بی جے پی کی غلط بیانی
سب سے کم عمر میئر کا عالمی ریکارڈ امریکا کے مائیکل سیسنز کے نام ہیں، جو 2005ء میں 18برس کی عمر میں ہلز ڈیل کے میئر منتخب ہوئے تھے۔ بھارت میں اس سے قبل کیرالا کی سبیتھا بیگم نے 23 برس کی عمر میں کولم میونسپل کارپوریشن کے میئر کا عہدہ سنبھالا تھا۔ تامل ناڈو کی ریکھا پریہ درشنی 24 برس کی عمر میں سالیم کی میئر منتخب ہوئی تھیں جبکہ بی جے پی کے رہنما اور مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلی دیویندر فڑنویس 27 برس کی عمر میں ناگپور کے میئر بنائے گئے تھے۔
حکمراں بی جے پی نے آریہ راجندرن کے سب سے کم عمر میں میئر بننے کے ریکارڈ کو غلط ثابت کرنے کے لیے دعوی کیا کہ اس کی پارٹی کی سمن کولی 2009ء میں 21 برس کی عمر میں راجستھان کے بھرت پور کی میئر بن چکی ہیں۔
مبینہ طور پر بی جے پی کے آئی ٹی سیل نے ویکی پیڈیا میں بھی اس کا اندراج کر دیا۔ تاہم جب لوگوں کو یہ پتہ چلا کہ 2009ء میں تو بھرت پور میونسپل کارپوریشن کا وجود ہی نہیں تھا اور اس کا قیام 2014ء میں عمل میں آیا تھا تو بی جے پی آئی ٹی سیل نے بڑی خاموشی کے ساتھ اپنے دعوے کو حذف کر دیا۔
سائنس کی دنیا میں خواتین کی خدمات
بہت سی خواتین نوجوان سائنسدانوں کی نت نئی ایجادات کے لیے وجہ تحریک ثابت ہوئیں۔ ماضی میں جنسی تعصب پر مبنی معاشرتی اقدار کے باوجود بہت سی خواتین قابل ذکر ایجادات کا سہرا اپنے سر باندھنے میں کامیاب ہوئیں۔
ایڈا لوَلیس سن اٹھارہ سو پچاس میں پیدا ہوئیں۔ وہ مشہور شاعر لارڈ بائرن کی بیٹی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ علوم ریاضی میں ملکہ رکھنے والی اس برطانوی خاتون نے سن اٹھارہ سو کے وسط میں پہلے کمپیوٹر پروگرام کے لیے ہدایات تحریر کیں۔ وہ ایسی پہلی شخصیت تھیں، جنہیں اس زمانے میں جب کمپیوٹر ایجاد بھی نہیں ہوا تھا، یہ احساس تھا کہ کمپیوٹر محض حساب کتاب تک محدود نہیں رہے گا۔
تصویر: public domain
دو شعبوں کی ماہر
میری کیوری پہلی ایسی خاتون تھیں، جنہوں نے نوبل انعام حاصل کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے ایسی پہلی شخصیت ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا، جنہوں نے دو مختلف شعبوں میں یہ معتبر انعام اپنے نام کیا۔ سن 1867 میں وارسا میں پیدا ہونے والی اس خاتون سائنسدان کو سن 1903 میں فزکس کا نوبل انعام دیا گیا جبکہ سن 1911 میں کیمسٹری کا۔ انہیں تابکاری کے شعبے میں تحقیق کا بانی قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/United Archiv
ڈی این اے کے دہری لچھے دار ساخت کا نظریہ
روزالِنڈ فرینکلِن کو اپنی ریسرچ پر نوبل انعام نہ ملا تاہم ناقدین کے مطابق وہ اس انعام کی مستحق تھیں۔ برطانوی بائیو فزیسٹ فرینکلن ماہر حیاتی طبیعات اور ایکس رے کرسٹل نگاری کی ماہر تھیں۔ ان کے عملی کام کے باعث جیمز واٹسن اور فرانسس کریک نے ڈی این اے کے دہری لچھے دار ساخت کا نظریہ پیش کیا۔ ان دونوں کو اس کام پر نوبل انعام بھی دیا گیا تاہم تب تک فرینکلِن بچہ دانی کے کینسر کے باعث انتقال کر چکی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/HIP
انسولین پر تحقیق کی بانی
برطانوی کیمیا دان ڈوروتھی ہوجکن کو پروٹین کی کرسٹل گرافی کا طریقہ تخیلق کرنے پر سن 1964 میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ انہوں نے روزا لینڈ فرینکلِن کے ساتھ مل کر بھی کام کیا۔ نوبل انعام جیتنے کے پانچ برس بعد ہوجکن ایسی شخصیت بن گئیں، جنہوں نے پہلی مرتبہ انسولین کی ساخت کا معمہ حل کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Leemage
جزء آخر پر تحقیق
آسٹریلین امریکن ماہر حیاتیات الزبتھ بلیک برن کو جزء آخر (Telomeres ) پر تحقیق کرنے پر سن 2009 میں نوبل انعام کا حق دار قرار دیا گیا۔ کروموسومز کے آخری حصے پر موجود حفاظتی شیلڈ Telomeres کو اردو میں تکراری یا اجزائے آخر کہا جاتا ہے۔ بلیک برن نے اپنی ٹیم کے ہمراہ ان اجزائے آخر کا خامرہ (انزائم) دریافت کیا تھا۔ اس تحقیق سے خلیات کو تقسیم کرنے میں مدد ملی اور یہ کیسنر کی ریسرچ میں بھی اہم ثابت ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S.Merrell
بِن مانس کی زندگی پر تحقیق
برطانوی ماہر حیوانات رئیسہ جین گڈوِل کو چِمپانزیز پر ہونے والی تحقیق کا ماہر قرار دیا جاتا ہے۔ اس خاتون ماہر نے بِن مانسوں کے خاندان اور سماجی زندگی پر کئی عشروں تک ریسرچ کی۔ تنزانیہ کے گومبے اسٹریم نیشنل پارک میں انہوں نے ان جانوروں کی زندگی کے بارے میں کئی اہم معلومات کو نوٹ کیا اور کئی جانوروں کے نام بھی رکھے۔
تصویر: picture alliance/Photoshot
عصبی ریشوں پر تحقیق
اطالوی ماہر عصبیات ریٹا لیوی مونٹالسینی سن 1909 میں پیدا ہوئیں۔ اٹلی میں مسولینی کی طرف سے یہودیوں کے تعلیمی شعبے پر کام کرنے پر پابندی کی وجہ سے ریٹا نے اپنے گھر میں ہی ایک لیبارٹری بنا لی اور مرغی کے ایمبریوز میں عصبی ریشوں پر تحقیق جاری رکھی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد انہوں نے عصبی نشوونما کی حرکیات کو دریافت کیا۔ اسی باعث سن 1986 میں انہیں نوبل انعام سے نوازا گیا۔
تصویر: picture-alliance/maxppp/Leemage
سگنلز کی آواز میں منتقلی
شمالی آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والی جوسلین بیل برن بُل نے خلا سے آنے والے ایسے سگنلز دریافت کیے، جن میں ایک باقاعدہ شرح سے کمی بیشی واقع ہوتی ہے۔ ریڈیو ٹیلی اسکوپ سے دریافت کیے جانے والے ان سگنلز کو ’’لٹل گرین مین‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ کسی خلائی مخلوق کا پیغام نہیں بلکہ تیزی سے گھومتے ایک نیوٹرون اسٹار سے خارج ہونے والے سگنلز ہیں۔ انہیں سن 1974 میں نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔