بھارت:91 ڈیموں میں 77 فیصد پانی کم، تیرہ صوبوں میں خشک سالی
20 اپریل 2016 بھارت میں ان دنوں پانی کی زبردست قلت ہے۔ جس کی وجہ سے بیشتر علاقے خشک سالی کا شکار ہیں۔ سپریم کورٹ میں اس معاملے پر مفاد عامہ کے تحت دائر ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران مودی حکومت نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ملک کی پچیس فیصد آبادی خشک سالی سے دوچار ہے۔ یعنی بھارت کی تینتیس کروڑ آبادی کو پینے کے پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ حکومت نے عدالت کو مزید بتایا کہ بھارت کے 675 میں سے 256 اضلاع خشک سالی سے متاثر ہیں۔ دوسری طرف آبی وسائل کی وزارت کا کہنا ہے کہ ملک کے 91 اہم ڈیموں میں اس وقت ستتر فیصد تک پانی کم ہوگیا ہے۔
دہلی حکومت نے پانی کی قلت کو دور کرنے کے لئے مغربی ملکوں سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں جرمنی کے ساتھ ایک معاہدہ پر دستخط کئے ہیں۔ بھارت کی آبی وسائل کی وزارت اور جرمنی کے ادارے جرمن انٹرنیشنل کوآپریشن(GIZ) کے درمیان یہ معاہدہ دریائے گنگا کو صاف کرنے کے سلسلے میں ہوا ہے تاکہ پانی کے بہاو کو بحال کیا جاسکے۔
خیال رہے کہ بھارت میں دریائے گنگا کو نہ صرف مذہبی درجہ حاصل ہے بلکہ وہ اسے ’ماں‘ قرار دیتے ہیں بلکہ اسے ملک کی شہ رگ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن گنگا کا شمار آج دنیا کے آلودہ ترین دریاؤں میں ہوتا ہے۔ ان گنت صنعتی کارخانوں کے فضلات نے اسے اتنا آلودہ کر دیا ہے کہ ماہرین کے مطابق گنگا کا پانی پینا تو دور اب نہانے اور زرعی استعمال کے لائق بھی نہیں رہا۔
مودی حکومت نے اسے صاف کرنے کے لئے ’نمامی گنگے‘ کے نام سے تیس ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے ایک بڑا پروگرام شروع کیا ہے اور اس کے لئے ایک علیحدہ وزارت بھی قائم کر دی گئی ہے۔ حکومت 2020ء تک اس کی صفائی کا سلسلہ مکمل کرنا چاہتی ہے۔
بھارت میں جرمن سفیر ڈاکٹر مارٹن نے(Ney) نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی گنگا کی ثقافتی اور مذہبی اہمیت سے واقف ہے اور اس کی عظمت رفتہ کو اسی طرح بحال کرے گا جس طرح اس نے جرمنی میں دریائے رائن کو دوبارہ اصل حالت پر لانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ جرمن سفیر کا مزید کہنا تھا کہ جرمنی تمام تکنیکی تعاون فراہم کرے گا۔ یہ پروجیکٹ 2016ء سے 2018ء تک تین سال کے لئے ہوگا اور جرمنی اس مد میں 22.5 کروڑ روپے کی مدد دے گا۔
آبی وسائل کی وزارت کے سیکریٹری ششی شیکھر کا کہنا تھا کہ بھارت جرمنی سے صرف ٹیکنالوجی نہیں حاصل کر رہا ہے بلکہ وہ اس کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، جو کہیں زیادہ اہم ہے۔
دریں اثنا خشک سالی سے سب سے زیادہ متاثرہ مغربی ریاست مہاراشٹر کے بیڈ ضلع میں ایک بارہ سالہ بچی ڈی ہائیڈریشن کی وجہ سے اس وقت چل بسی جب وہ اپنے گھر سے قریب واقع ایک واٹر پمپ سے پانی لانے گئی تھی۔ یوگیتا اشوک ڈیسائی نامی پانچویں درجہ کی یہ طالبہ واٹر پمپ سے چار مرتبہ پانی اپنے گھر پہنچا چکی تھی لیکن پانچویں مرتبہ پانی لے جاتے وقت بے ہوش ہوکر گر پڑی اور چل بسی۔ بیڈ کے سبلکھیڈ گاوں میں جس وقت یہ حادثہ پیش آیا، اس وقت درجہ حرارت44 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔
اس دوران اپوزیشن جماعتوں نے خشک سالی سے نمٹنے کے لائحہ عمل پر غور کرنے کے لئے وزیر اعظم مودی سے کل جماعتی میٹنگ طلب کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک کے تیرہ صوبے خشک سالی سے متاثر ہیں اور ایسی صورت حال گزشتہ پچیس برسوں میں کبھی نہیں پیدا ہوئی تھی اور آئندہ جون میں مون سون کی آمد سے پہلے حالات میں بہتری کی کوئی امید نہیں نظر آرہی ہے۔