1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھوٹان پر چین مہربان، بھارت ناخوش

17 اکتوبر 2018

بھوٹان کے ساتھ چینی سرحدی تنازعے کے دوران بھارت اس چھوٹی سے ریاست کے دفاع کے لیے میدان میں اتر آیا تھا۔ دونوں ممالک کی افواج بہّتر دنوں تک ایک دوسرے کے مدمقابل رہی تھیں۔

Tanzbars und Handys: Bhutan im Wandel der Zeit
تصویر: Reuters/C. McNaughton

ڈوکلام کے سرحدی تنازعے کے بعد اب چینی حکومت نے ہمالیہ کے دامن میں واقع چھوٹی سی ریاست بھوٹان پر مہربان ہونا شروع کر دیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ چین اور بھوٹان کے درمیان سفارتی روابط بھی موجود نہیں ہیں۔ اس وقت بھوٹانی دارالحکومت تھِمپُو میں چینی کھلونوں اور سامان کی بہتات دکھائی دیتی ہے۔

چین اور بھوٹان کے درمیان سرحدی تنازعہ نیا نہیں ہے۔ سن 1951 میں چین نے تبت کو اپنے ریاستی علاقے میں شامل کر لیا تھا۔ بھوٹان کے ساتھ چینی تعلقات مسلسل نازک حالت میں رہے ہیں۔ دوسری جانب تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت کی دلچسپی اس میں ہے کہ ان دونوں کے تعلقات میں بہتری اور گرمجوشی کا فقدان رہے۔

حالیہ مہینوں کے دوران بھوٹان میں چین کی کئی مصنوعات دستیاب ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ ان میں کھلونے، مشینری، سیمنٹ اور الیکٹرانکس کا سامان شامل ہیں۔ اس طرح بھوٹان کے لیے چین تیسرا بڑا ملک بن گیا ہے، جہاں کی مختلف مصنوعات اس کی داخلی منڈیوں میں دستیاب ہیں۔

بھارتی وزیراعظم بھوٹانی اسمبلی سے تقریر کرتے ہوئےتصویر: Getty Images

بھوٹان کی آبادی آٹھ لاکھ ہے اور وہاں شرح بیروزگاری دس فیصد سے زائد ہے۔ اسی باعث نوجوان بھوٹانی نسل میں روزگار کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے بے چینی پائی جاتی ہے۔ بھوٹانی عوام کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارتی قرضے اور امداد بہت اچھی ہیں لیکن ملازمت اور نوکریاں کہاں دستیاب ہو رہی ہیں؟

اکیس سالہ بھوٹانی طالبہ ویملا پردھان نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر بھوٹان اور بھارت کے درمیان گرمجوش تعلقات ہیں، تو پھر بھارت کو اس پر ناراض نہیں ہونا چاہیے کہ بھوٹان کسی اور ملک سے بھی تعلقات بنانا چاہتا ہے۔ پردھان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عام تاثر ہے کہ بھوٹان میں ہر امر کی منظوری کے لیے بھارتی اجازت درکار ہوتی ہے۔

کینیڈا کی برٹش کولمبیا یونیورسٹی سے منسلک تاریخ دان ٹسیرینگ شاکیا کا کہنا ہے کہ اس وقت بھوٹان کے عوام میں یہ کیفیت پائی جاتی ہے کہ وہ بھارت پر انحصار کی حکومتی پالیسی میں تبدیلی چاہتے ہیں اور اُن کی خواہش ہے کہ تعلقات کو وسیع تر کرنا ملکی مفاد میں ہے۔ شاکیا کے مطابق جغرافیائی صورت حال ایسی ہے کہ بھوٹان کسی بھی صورت میں بھارت کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں