1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخایشیا

بھوک کا تاریخی اور سماجی پس منظر

26 اکتوبر 2022

انسانی تہذیب میں بھوک کا اہم کردار رہا ہے۔ غذا جمع کرنے اور شکار کے زمانے میں بھوک کو دُور کرنے کے لیے انسان نے جڑی بوٹیوں اور پھلوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں۔

بنگال اور بہار میں سخت قحط پڑے کیونکہ کمپنی نے کسانوں سے زبردستی لگان وصول کیاتصویر: Public Domain/Wellcome Library, London

جب ایک جگہ غذا کے ذرائع ختم ہو جاتے تھے تو انسان دوسرے علاقے کو دریافت کرتا تھا، جہاں اسے غذا مل سکے لیکن آخر میں اس نے ایک جگہ آباد ہو کر زراعت کو اختیار کیا تاکہ اپنی غذا کے بارے میں اس کو اطمینان رہے۔ اسی کے نتیجے میں اس نے زراعت اور کاشت کاری کے نئے طریقے اختیار کیے تاکہ پیداوار میں اضافہ ہو اور زائد پیداوار کو محفوظ کر کے کسی بھی بحران کا مقابلہ کر سکے۔

 جب کبھی قبائل یا قوموں میں باہمی جنگیں ہوتی تھیں تو سب سے پہلے مخالف کے کھیتوں کو جلایا اور برباد کیا جاتا تھا تاکہ وہ بھوک سے مجبور ہو کر اتحاد کر لیں۔ جب بھی قلعوں کا محاصرہ کیا جاتا تھا تو سب سے بڑا حربہ یہ تھا کہ ان کے کھانے پینے کی اشیاء کو روک دیا جائے، جس کی وجہ سے محصور لوگ مجبور ہو کر ہتھیار ڈال دیتے تھے۔ بھوک کے آگے بہادری، شجاعت اور اسلحہ بھی بے کار ہو جاتا تھا۔

دنیا بھر میں قحط اور خشک سالی جب بھی آتی تھی تو لوگ بھوک کا شکار ہو کر ہزاروں کی تعداد  میں مر جاتے تھے لیکن چونکہ ابتدائی زمانے میں باہمی رابطے کم تھے، اس لیے نہ تو دوسرے علاقوں سے ان کو مدد پہنچائی جا سکتی تھی اور نہ ہی دوسروں کو قحط کے بارے میں کچھ علم ہوتا تھا اور عام طور سے لوگ قحط کے اثرات سے ناواقف رہتے تھے۔

 یہ موجودہ زمانے میں، جب 1899ء میں اخبارات میں پہلی مرتبہ قحط زدہ لوگوں کی تصاویر شائع کی گئیں تو انہیں دیکھ کر دوسری اقوام کو یہ اندازہ ہوا کہ بھوک انسان کو کیسے تبدیل کر دیتی ہے۔ یہ تصویریں بے انتہا درد ناک تھیں۔ انسانی ڈھانچے، دھنسی ہوئی آنکھیں بے بسی کا منظر پیش کرتی تھیں۔

برطانیہ کے سامراجی دور میں ہندوستان اور آئرلینڈ اس کی کالونیاں تھیں، جہاں قحط اور بھوک کا سلسلہ تھاتصویر: Public Domain

اس لیے جدید دنیا کی اقوام کو اس بات کا احساس ہوا کہ بھوک کو دُور کرنے کے ذرائع کو تلاش کیا جائے تاکہ انسان اس المیے سے محفوظ رہ سکے۔ اسی کے ساتھ انسانی تاریخ میں بھوک کو بطور سیاسی حربے کے استعمال کرنا شروع کیا گیا۔ ہندوستان میں یہ دستور تھا کہ جب فوج کو تنخواہ نہیں ملتی تھی تو وہ اپنے کمانڈر کے خیمے یا گھر کا محاصرہ کر کے کھانے پینے کی اشیاء کو وہاں نہیں جانے دیتے تھے لیکن وہ خود بھی کچھ کھاتے پیتے نہیں تھے یہاں تک کہ ان کے مطالبات مان لیے جائیں۔ اس طریقے کو 'گھیراؤ کرنا‘ کہا جاتا تھا۔

 اس کے بعد بھوک کو سیاسی لیڈروں، بیروزگار لوگوں اور غربت سے مارے افراد نے بطور احتجاج استعمال کرنا شروع کیا۔ جب انگلستان کے فوجی جنوبی امریکہ میں Boer جنگ کے بعد واپس آئے تو یہ بیروزگار ہو چکے تھے اور ان کے کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ لہٰذا ان فوجیوں نے حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا اور یہ مطالبہ کیا کہ ان کی مالی مدد کی جائے تاکہ وہ بھوک سے نجات پا سکیں۔ اس کے بعد سے برطانیہ میں بھوک کے خلاف لوگوں کے مظاہرے شروع ہو گئے۔ برمنگھم، لیور پول اور مانچسٹر سے بیروزگار لوگوں کے قافلے مظاہرہ کرتے ہوئے لندن تک آئے لیکن اکثر حکومت نے ان کے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا۔

بھوک کا ایک اور سیاسی استعمال عوامی لیڈروں نے کرنا شروع کیا۔ اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے ان لوگوں نے بھوک ہڑتال کو اختیار کر کے حکومت پر دباؤ ڈالنا شروع کیا۔ ہندوستان میں خاص طور سے گاندھی جی نے کئی بار مرن برت رکھ کر اپنے مطالبات منظور کرائے۔ اب بھوک ہڑتالی کے حربے کو طالب علم، مزدور اور سیاسی رہنما استعمال کرتے ہیں۔ حکومت بھی ان کے دباؤ میں آکر یا تو ان کے مطالبات کو تسلیم کر لیتی ہے یا انہیں مجبوراً کچھ کھلا کر ان کی جان بچا لیتے ہیں کیونکہ ان کے مرنے کی صورت میں ہنگامے کا خطرہ ہوتا ہے۔

 مسلسل قحطوں کی وجہ سے بنگال، جو ہندوستان کا سب سے زیادہ زرخیز صوبہ تھا، وہ بنجر ہو کر رہ گیا اور بنگال کو بھوکا بنگال کہا جانے لگاتصویر: Public Domain

برطانیہ کے سامراجی دور میں ہندوستان اور آئرلینڈ اس کی کالونیاں تھیں، جہاں قحط اور بھوک کا سلسلہ تھا لیکن اس نے اپنے تمام ذرائع کے باوجود ان پر قابو نہیں پایا۔ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار میں آنے کے بعد 1770ء کی دہائی میں بنگال اور بہار میں سخت قحط پڑے کیونکہ کمپنی نے کسانوں سے زبردستی لگان وصول کیا جبکہ مغل دور حکومت میں قحط اور خشک سالی کے دوران لگان معاف کر دیا جاتا تھا اور حکومت لنگر قائم کر کے بھوکوں کو کھانا فراہم کرتی تھی۔

 مسلسل قحطوں کی وجہ سے بنگال، جو ہندوستان کا سب سے زیادہ زرخیز صوبہ تھا، وہ بنجر ہو کر رہ گیا اور بنگال کو بھوکا بنگال کہا جانے لگا لیکن سب سے بڑا المیہ 1943ء کے قحط کے دوران ہوا۔ اس وقت دوسری عالمی جنگ جاری تھی۔ بنگال کے چاولوں کو فوجی محاذوں پر پہنچا دیا گیا اور جب قحط پڑا تو چرچل نے سخت مخالفت کی کہ بنگالیوں کی کوئی مدد نہ کی جائے۔ اس قحط میں تقریباً 60 لاکھ لوگ بھوک سے مارے گئے۔ ان کی لاشیں سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر پڑی رہیں۔ ہندوستانی اور برطانیہ کی حکومتوں نے قحط کی خبروں کو خفیہ رکھا۔

اسی سرد مہری کا مظاہرہ برطانیہ نے آئرلینڈ کے ساتھ کیا۔ آئرلینڈ کی زمینوں پر برطانوی فیوڈل لارڈز کا قبضہ تھا جبکہ آئرش لوگ بطور کاشت کار ان زمینوں پر کام کرتے تھے۔ امریکہ سے آلوؤں کے آنے کے بعد یہ ان کی غذا ہو گئی تھی لیکن جب 1844-5ء میں آلوؤں کی کاشت خراب ہوئی تو آئرلینڈ کے لوگوں کے لیے کھانے کو کچھ نہ تھا۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ بھوک سے مرے اور ہزاروں لوگوں نے ہجرت کر کے امریکہ میں پناہ لی۔ برطانوی حکومت نے ان کی مدد کے لیے کچھ نہیں کیا۔

اس کے برعکس قحط کے بارے میں دو نظریات کو مقبول بنایا گیا ایک تو یہ خدا کی جانب سے عذاب ہے لہٰذا اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ دوسرا نظریہ یہ تھا کہ آزاد منڈی کے اصول پر اس کا حل نکالا جائے اور قحط کے اصل ذمہ دار قحط زدہ لوگ خود ہیں۔ اب امرتیاسین کی تحقیق کے مطابق قحط کی اصل وجہ انتظامیہ کی خرابی ہے۔ قحط قدرت کی طرف سے نہیں آتا بلکہ اسے لانے والے لوگ ہی ہوتے ہیں اور انتظامیہ کو درست کر دیا جائے تو قحط کے خطرات ٹل سکتے ہیں۔

1930ء کی دہائی میں جب برطانیہ میں نچلے طبقوں میں غربت اور بھوک پھیلی تو اس پر توجہ دی گئی کہ انسانی صحت کے لیے غذا کیسی ہونی چاہیے اور یہ صحت مند غذا کس طرح لوگوں تک پہنچے؟ ریسرچ سے یہ بھی واضح ہوا کہ اگر غذا صحت مند نہیں ہو گی تو اس کا اثر انسان کی ذہنی صلاحیتوں پر ہو گا اور وہ اس قابل نہیں ہو گا کہ اپنے کام کو بہتر طریقے سے سر انجام دے سکے۔

پہلی اور دوسری جنگوں کے بعد دنیا پر، جو چیز واضح ہوئی، وہ یہ تھی کہ ترقی یافتہ قوموں میں اسلحہ سازی پر، جس قدر رقم خرچ کی گئی، اتنی رقم بھوک اور غربت کے لیے نہیں رکھی گئی، جس کی وجہ سے جنگوں نے تباہی اور  بربادی بھی کی اور بھوک کی شدت کو آگے بڑھایا۔ اس کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیاء کے لئے راشن مقرر کیا گیا لیکن قوموں نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا اور آج بھی امیر اور غریب دونوں ملکوں میں غذائی سہولتوں سے زیادہ اسلحہ پر خرچ کیا جاتا ہے۔

یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے غذا کی دستیابی ممکن ہو گی اور کیا بھوک کا خاتمہ ہو سکے گا؟  ہمارے سامنے چین کی مثال موجود ہے، جس نے اپنے لوگوں کو غربت سے نکال کر انہیں ایک توانا اور خوشگوار زندگی دی۔ جن ملکوں میں غریب اور بھوک موجود ہے وہاں امیر اور غریب کا فرق بھی ہے جبکہ فاقہ زدہ لوگ اپنے وقار اور عزت سے محروم احساس کمتری کا شکار ہیں۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو  کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں