1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

بھٹوں پر کام کرنے والے مزدورں کی بےبسی

6 ستمبر 2022

صوبہ پنجاب کے چھوٹے سے گاؤں عاقل پور میں اینٹیں بنانے والے متعدد بھٹے اب لاوارث پڑے ہیں۔ کئی ہفتوں کی طوفانی بارشوں نے نہ صرف ان بھٹوں میں جلنے والی آگ بجھا کر رکھ دی ہے بلکہ مزدوروں کی آمدن کے دیے بھی گُل ہو چکے ہیں۔

Pakistan | Überschwemmungen - Zerstörte Ziegelfabrik in Aqilpur
تصویر: Arif Ali/AFP

ایک ہفتہ گرز جانے کے بعد عاقل پور اور اس کے گرد ونواح کے کھیتوں کو اپنی لپیٹ میں لینے والا سیلاب اب کم ہو گیا ہے لیکن بھٹے ابھی تک پانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ بھٹوں پر زیادہ تر مزدور یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں اور سیلاب کے آتے ہی وہ اپنے خاندانوں سمیت اونچے اور خشک مقامات کی طرف منتقل ہو گئے تھے۔

ایسے ہی بے روز گار ہو جانے والے محمد ایوب کا کہنا ہے، ''میں روزانہ یہاں اپنی سائیکل پر آتا ہوں اور ایک بھٹے سے دوسرے بھٹے پر کام کی تلاش میں جاتا ہوں لیکن کہیں کوئی کام نہیں ہے۔‘‘

اب گاؤں سے گزرنے والی ایک سڑک بے گھر اور بے روزگار ہو جانے والے ایسے بھٹہ مزدوروں کا 'مرکز‘ بن چکی ہے۔ چالیس سالہ محمد ایوب کے کندھوں پر بیمار والدہ اور ایک آٹھ سالہ بیٹی کی بھی ذمے داریاں ہیں لیکن بھٹوں پر کام شاید آئندہ بھی کئی ہفتوں تک شروع نہیں ہو سکے گا۔

یک سڑک بے گھر اور بے روزگار ہو جانے والے ایسے بھٹہ مزدوروں کا 'مرکز‘ بن چکی ہےتصویر: Arif Ali/AFP

سیلاب سے پہلے ہونے والی طوفانی بارشوں میں، جب ایوب کا گھر تباہ ہو گیا تھا تو اس نے اپنی والدہ اور بیٹی کو قریب ہی ایک دوسرے گاؤں میں رشتہ داروں کے گھر بھیج دیا تھا۔ لیکن پھر جب سیلاب آیا تو رشتہ داروں کو بھی ایک اونچی جگہ پر بنائے گئے ایک کیمپ میں پناہ لینا پڑی۔

'ہم 50 سال پیچھے چلے گئے‘، سیلاب اور سندھ کے کسان

بڑے پیمانے پر عمارتوں کی تباہی

پاکستان میں آنے والے بدترین سیلاب نے تقریباً 20 لاکھ گھروں یا کاروباری مراکز کو تباہ یا بری طرح نقصان پہنچایا ہے اور تعمیر نو کے عمل کو شروع کرنے کے لیے عاقل پور جیسے بھٹوں کو دوبارہ چلانا پڑے گا۔ پاکستان کے بیشتر حصوں میں اینٹیں بنانے والے ہزاروں چھوٹے کارخانے اور بھٹے بکھرے پڑے ہیں، جو 220 ملین نفوس پر مشتمل اس ملک کو تعمیراتی سامان فراہم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔

مسئلہ یہ بھی ہے کہ نہ صرف اینٹوں کے لیے درکار مٹی بلکہ پہلے سے بنائی گئی اینٹیں بھی پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں اور نقل و حمل کے راستے بھی محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔

محمد ایوب بارہ گھنٹے روزانہ کام کرتا تھاتصویر: Arif Ali/AFP

محمد ایوب بارہ گھنٹے روزانہ کام کرتا تھا اور پھر اسے 600 روپے ملتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں، ''ایک مزدور ان حالات میں کہاں جائے؟ جہاں بھی جاتے ہیں خالی ہاتھ واپس لوٹ آتے ہیں۔‘‘

لاکھوں سیلاب زدہ، حاملہ پاکستانی خواتین کو طبی مدد کی ضرورت

یومیہ اجرت والے پاکستانی معاشرے کے غریب ترین طبقات میں سے ایک ہیں اور دیہی علاقوں میں ان کا استحصال مزید بڑھ جاتا ہے۔ خاص طور پر بھٹے چائلڈ لیبر کے حوالے سے بھی بدنام ہیں، جو پاکستانی قانون کے تحت غیر قانونی ہے۔

عاقل پور کے بھٹہ مزدوروں نے مالکاں سے بھٹیاں جلانے کی درخواست کی ہے تاکہ وہ دوبارہ کام شروع کر سکیں لیکن ایوب کا خیال ہے کہ فی الحال ایسا ناممکن ہے، ''یہاں جمع ہونے والا پانی کم از کم بھی تین ماہ تک خشک نہیں ہونے والا۔‘‘

ایوب کے مطابق پانی خشک ہونے کے بعد بھی بھٹوں کی مرمت پر کم از کم دو سے ڈھائی ماہ لگ سکتے ہیں۔

ا ا / ا ب ا ( اے ایف پی)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں