بہتر انضمام سماجی شعبے میں مہاجرین کے کام سے ممکن؟
25 اگست 2018
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی قدامت پسند جماعت کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ جرمن معاشرے میں مہاجرین کے بہتر انضمام کے لیے انہیں ایک برس تک سماجی شعبے میں خدمات انجام دینے پر مامور کرنا چاہیے۔
اشتہار
جرمنی میں جہاں ایک طرف یہ بحث جاری ہےکہ جرمن شہریوں کو سماجی شعبے میں خدمات کی لازمی انجام دہی کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جانا چاہیے، وہیں اب یہ بات بھی ہو رہی ہے کہ ملک میں موجود مہاجرین کو بھی ایک برس تک سماجی شعبے میں خدمات انجام دینے پر مامور کیا جانا چاہیے۔ سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس طرح یہ تارکین وطن جرمن معاشرے میں بہتر طور پر ضم ہو پائیں گے۔
ہفتے کے روز چانسلر میرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین کی جنرل سیکرٹری آنے گریٹ کرامپ کارین باؤر نے فنکے میڈیا گروپ سے بات چیت میں کہا، ’’ایک برس تک کمیونٹی سروس مہاجرین اور سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو جرمن معاشرے میں ضم ہونے کا موقع بھی فراہم کرے گی اور ساتھ ہی عوام میں ان کی قبولیت میں بھی اضافہ ہو گا۔‘‘
رواں ماہ کرسچین ڈیموکریٹک یونین ہی کی جانب سے قومی سطح پر اس بحث کا آغاز کیا گیا تھا کہ ملک بھر میں ایک مرتبہ پھر لازمی فوجی سروس یا ایک برس کی کمیونٹی سروس بحال کی جانا چاہیے۔
سی ڈی یو کی سیکرٹری جنرل کرامپ کارن باؤر نے فنکے میڈیا گروپ اور فرانسیسی اخبار اوسٹ فرانس سے بات چیت میں کہا، ’’قدامت پسند جماعت کے ارکان کسی نہ کسی صورت میں لازمی کمیونٹی سروس کی بحالی کے حامی ہیں تاکہ سماجی اور قومی اتحاد میں اضافہ ہو۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہماری جماعت کے ارکان ان سماجی خدمات کے لیے فقط جرمن شہریوں ہی نہیں بلکہ سیاسی پناہ کے متلاشی افراد اور مہاجرین کی بابت بھی سوچ رہے ہیں، جو بالغ ہیں اور جرمنی میں رہ رہے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر مہاجرین ایک سال رضاکارانہ طور پر یا لازمی طور پر سماجی شعبے میں کام کرتے ہیں، تو اس سے معاشرے میں ان کے انضمام میں مدد ملے گی اور جرمن عوام میں ان کی قبولیت میں بھی اضافہ ہو گا۔
واضح رہے کہ جرمنی نے سن 2015ء میں قریب ایک ملین مہاجرین کو قبول کیا تھا، تاہم اس کے بعد ایک طرف تو عوامی سطح پر اس پالیسی پر برہمی دیکھی گئی ہے جب کہ ساتھ ہی جرمن معاشرے میں ان مہاجرین کے انضمام سے متعلق خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
ع ت، ص ح (اے ایف پی، ڈی پی اے)
مہاجرين اور اين جی اوز کے ساتھ يکجہتی، جرمن شہری سڑکوں پر
ہزاروں کی تعداد ميں جرمن شہريوں نے بحيرہ روم ميں مہاجرين کو ريسکيو کرنے والی غير سرکاری تنظيموں کے حق ميں مظاہرے کيے ہيں۔ ايسی تنظيميں ان دنوں سياسی دباؤ کا شکار ہيں اور ان کی سرگرميوں کو روک ديا گيا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
برلن ميں ہزارہا افراد سراپا احتجاج
غير سرکاری تنظيموں کی مہاجرين و تارکين وطن کو ريسکيو کرنے سے متعلق سرگرميوں کو مجرمانہ فعل قرار ديے جانے پر جرمن دارالحکومت برلن سميت ديگر کئی شہروں ميں مظاہرين نے ہفتے کے روز احتجاج کيا۔ برلن کے مظاہرے ميں بارہ ہزار سے زائد افراد شريک تھے۔ علاوہ ازيں ہيمبرگ، بريمن، ميونخ اور اُلم ميں بھی احتجاج کيا گيا۔ مظاہرين نے مہاجرين کے ساتھ يکجہتی کے ليے لائف جيکٹس اٹھا رکھی تھيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
ريسکيو کرنے والوں کے ساتھ يکجہتی
ہيمبرگ کے مظاہرے ميں شريک ايک خاتون ’زے برؤکے‘ کے نام سے سرگرم رضاکاروں کے اتحاد کے ساتھ يکجہتی کے طور پر نارنجی رنگ کی لائف جيکٹس اور ديگر کپڑے لٹکاتے ہوئے ہے۔ نيچے لکھی تحرير کا مطلب ہے، ’سمندر ميں انسانوں کی جانيں بچانا جرم نہيں۔‘ ’زے برؤکے‘ کے لفظی معنی ’سمندر ميں پل‘ ہيں اور يہ اتحاد اس واقعے کے بعد وجود ميں آيا، جس ميں ایک بحری جہاز کو لنگر انداز ہونے کی اجازت نہيں دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
سب سے جان ليوا سمندری گزر گاہ
برلن ميں نکالے گئے مظاہرے ميں شريک دو خواتين جن کے پلے کارڈ پر لکھا ہے ’انہيں سمندر ميں بھولنا نہيں‘۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرين يو اين ايچ سی آر کے مطابق 2018ء ميں اس سے پچھلے برسوں کے مقابلے ميں مہاجرين کی بحيرہ روم کے راستے آمد ميں خاطر خواہ کمی تو نوٹ کی گئی ہے تاہم يہ سال کافی جان ليوا بھی ثابت ہوا ہے۔ رواں سال اب تک چودہ سو سے زيادہ افراد بحير روم ميں ڈوب کر ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
’بندرگاہيں کھول دو‘
متعدد اين جی اورز پچھلے دنوں کئی يورپی سياستدانوں کی تنقيد کا نشانہ بنتی رہی ہيں۔ چند ممالک نے مہاجرين سے لدے جہازوں کو لنگر انداز ہونے کی اجازت نہ دی يا پھر کافی تاخير سے اجازت دی۔ ايسے يورپی رہنما الزام عائد کرتے ہيں کہ ريسکيو سرگرميوں ميں ملوث غير سرکاری تنظيميں انسانوں کے اسمگلروں کے ہاتھوں ميں کھيل رہی ہيں۔ اين جی اوز کا کہنا ہے کہ اگر وہ اپنا کام نہ کريں تو کئی انسانی جانيں ضائع ہو سکتی ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
جرمن حکومت کی پاليسيوں پر برہمی
مظاہرے ميں شريک ايک شخص نے ايک تختی اٹھا رکھی ہے جس پر لکھا ہے، ’زيہوفر کی جگہ زیبرؤکے۔‘ يہ جرمن وزير داخلہ ہورسٹ زيہوفر کی پناہ گزينوں کے حوالے سے سخت پاليسی پر ايک طنزيہ جملہ ہے۔ زيہوفر کے اسی موضوع پر جرمن چانسلر انگيلا ميرکل کے ساتھ اختلافات نے وفاقی حکومت کو بھی کافی پريشان کر رکھا ہے۔ پچھلے دنوں حکومت کو دوبارہ ايک بحران کا سامنا تھا جو بظاہر فی الحال ٹل گيا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
’يورپ کی سرحديں بند رکھنے کی ذہنيت‘
جرمنی ميں ہفتہ سات جولائی کے روز نکالے گئے ان مظاہروں ميں شامل بيشتر افراد نے مہاجرين کو محفوظ راستے فراہم کرنے کی ضرورت پر زور ديا۔ انہوں نے ’فورٹريس يورپ‘ يا اس سوچ کی مخالفت کی کہ تمام اطراف سے سرحديں بند کر کے يورپ کو ايک قلعے کی مانند پناہ گزينوں کے ليے بند کر ليا جائے۔