بہت سے نوجوان ایرانی باشندے ’عربی میں شادی‘ کی تقریب کے خلاف
30 اگست 2019
ایران میں بہت سے نوجوان مرد اور خواتین ’عربی زبان میں شادی‘ کی روایت کی مخالفت کرتے ہوئے اب یہ کہنے لگے ہیں کہ وہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ شادی کی تقریب میں کیا کہا جا رہا ہے۔ یہ بات ایرانی ریاست کے لیے چیلنج بنتی جا رہی ہے۔
اشتہار
کسی ایرانی شہری کی شادی عربی میں؟ بہت سے نوجوان ایرانی مردوں اور خواتین کو روایتاﹰ اپنی شادی کے دن کا تجربہ چند اجنبیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ تہران کی رہنے والی ایک لڑکی فاطمہ کو (جس کا اصلی نام دانستہ ظاہر نہیں کیا جا رہا) یہ شکایت ہے کہ جب اس کی بہن کی شادی ہو رہی تھی، تو نکاح خوان، جو ایک امام مسجد تھا، ''کئی منٹوں تک صرف عربی زبان میں ہی کچھ کہتا یا پڑھتا جا رہا تھا۔‘‘ اس ایرانی خاتون کے مطابق، ''اس کے بعد میری بہن کو فارسی میں پوچھا گیا کہ آیا وہ اس شادی کے لیے تیار ہے اور اپنے نکاح کو قبول کرتی ہے۔‘‘
دنیا کے کئی دیگر مسلم اکثریتی ممالک کی طرح اسلامی جمہوریہ ایران میں بھی مسلمانوں کی شادی کے وقت مذہب ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ نکاح کے وقت پڑھی جانے والی ساری آیات اور دعائیں عربی زبان میں ہی ہوتی ہیں۔ لیکن ایران میں، جہاں عام شہریوں کی اوسط عمر تیس سال کے قریب ہے، خاص کر نوجوانوں میں اس روایت اور سماجی طریقہ کار کے خلاف مزاحمت بڑھتی جا رہی ہے۔
قدیم ایرانی طرز کی شادی کی تقریبات
اسی لیے نوجوان جوڑوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد اب ایسے میرج بیوروز کا رخ کرتی ہے جو قدیم ایرانی طرز کی شادیوں کی تقریبات کے ماہر ہوتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ قدیم ایرانی روایات کے مطابق اہتمام کردہ ایسی تقریبات میں شادی کی ساری کارروائی کی تکمیل اور نیک خواہشات کا اظہار بھی صرف فارسی زبان میں ہی کیے جاتے ہیں۔ ایسی تقریبات میں شادی کے وقت عربی میں قرآنی آیات بھی نہیں پڑھی جاتیں۔
'میں سمجھنا چاہتی ہوں کہ کہا کیا جا رہا ہے‘
اس بارے میں تہران کی رہنے والی مصنفہ اور قانونی امور کی خاتون ماہر صدیقہ وسمقی کہتی ہیں، ''ہم ایرانی معاشرے میں عربی زبان و ثقافت کو مسترد کر دینے کے واضح آثار دیکھ رہے ہیں۔‘‘ صدیقہ وسمقی کا یہ موقف اس لیے بھی بہت اہم ہے کہ وہ موجودہ ایران کی ان گنی چنی خواتین میں سے ایک ہیں، جو ملک میں اسلامی فقہہ کی باقاعدہ تعلیم دیتی رہی ہیں۔
آج کے اسلامی جمہوریہ ایران میں قدیم ایرانی ثقافتی روایات کے مطابق اہتمام کردہ شادی کی تقریبات کا رجحان کافی تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔ سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس پر ایسے زیادہ سے زیادہ جوڑے فعال نظر آتے ہیں، جو اپنی اس طرح ہونے والی شادیوں کی تصویریں آن لائن اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں۔
خود تہران کی رہنے والی 30 سالہ فاطمہ نے بھی اپنی شادی اسی طرح کی۔ وہ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں، ''میں صرف یہ چاہتی تھی کہ میں پوری طرح سمجھ سکوں کہ میری شادی کی تقریب کی رسومات میں کیا کچھ کہا جا رہا ہے۔‘‘ فاطمہ نے یہ بھی کہا کہ ان کی رائے میں ان کی شادی کی یہ تقریب شادی کی دیگر روایتی یا مذہبی تقریبات کے مقابلے میں کہیں زیادہ خوبصورت اور پرکشش تھی۔
اپنی حدوں کو چھوتی ہوئی اسلامائزیشن
ایران میں ان دنوں قدیم ایرانی روایات کا احیاء، چاہے وہ شادی کی تقریبات سے متعلق ہو یا کسی بھی دوسرے شعبہ زندگی سے، اس اسلامی ریپبلک میں سماجی اقدار کی نگرانی کرنے والے ریاستی اداروں کے لیے بے چینی کا سبب بن رہا ہے۔
اسی وجہ سے ایران کے اس سرکاری دفتر نے، جہاں شہریوں کو اپنی شادیوں کا اندراج کرانا ہوتا ہے، رواں ماہ کے وسط میں ہی کھل کر یہ بھی کہہ دیا تھا، ''غیر مذہبی طریقے سے کی جانے والی شادیاں غیر قانونی ہوتی ہیں۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے اب ایران میں مسلمانوں کی ایسی شادیوں پر، جن میں نکاح کے وقت قرآنی آیات نہیں پڑھی جاتیں، پابندی لگا دی گئی ہے۔
'شناخت کا بحران‘
مشہور ایرانی ماہر سیاسیات صادق زیباکلام نے اس بارے میں ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا، ''یہ کس نے سوچا تھا کہ ایران میں اسلامی انقلاب کے چالیس برس بعد بھی قدیم ایرانی طرز کی شادی کی تقریبات دوبارہ اتنی زیادہ پسند کی جانے لگیں گی؟‘‘
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
سید روح اللہ موسوی خمینی کی قیادت میں مذہبی رہنماؤں نے ٹھیک چالیس برس قبل ایران کا اقتدار سنبھال لیا تھا۔ تب مغرب نواز شاہ کے خلاف عوامی غصے نے خمینی کا سیاسی راستہ آسان کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
احساسات سے عاری
خمینی یکم فروری سن 1979 کو اپنی جلا وطنی ختم کر کے فرانس سے تہران پہنچے تھے۔ تب ایک صحافی نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں تو اس مذہبی رہنما کا جواب تھا، ’’کچھ نہیں۔ مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا‘۔ کچھ مبصرین کے مطابق خمینی نے ایسا اس لیے کہا کیونکہ وہ ایک ’روحانی مشن‘ پر تھے، جہاں جذبات بے معنی ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
شاہ کی بے بسی
خمینی کے وطن واپس پہنچنے سے دو ماہ قبل ایران میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو چکے تھے۔ مختلف شہروں میں تقریبا نو ملین افراد سڑکوں پر نکلے۔ یہ مظاہرے پرامن رہے۔ تب شاہ محمد رضا پہلوی کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ خمینی کی واپسی کو نہیں روک سکتے اور ان کی حکمرانی کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
خواتین بھی آگے آگے
ایران میں انقلاب کی خواہش اتنی زیادہ تھی کہ خواتین بھی خمینی کی واپسی کے لیے پرجوش تھیں۔ وہ بھول گئی تھیں کہ جلا وطنی کے دوران ہی خمینی نے خواتین کی آزادی کی خاطر اٹھائے جانے والے شاہ کے اقدامات کو مسترد کر دیا تھا۔ سن 1963 میں ایران کے شاہ نے ہی خواتین کو ووٹ کا حق دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/IMAGNO/Votava
’بادشاہت غیر اسلامی‘
سن 1971 میں شاہ اور ان کی اہلیہ فرح دیبا (تصویر میں) نے ’تخت جمشید‘ میں شاہی کھنڈرات کے قدیمی مقام پر ایران میں بادشاہت کے ڈھائی ہزار سال کی سالگرہ کے موقع پر ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔ تب خمینی نے اپنے ایک بیان میں بادشاہت کو ’ظالم، بد اور غیر اسلامی‘ قرار دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/akg-images/H. Vassal
جلا وطنی اور آخری سفر
اسلامی انقلاب کے دباؤ کی وجہ سے شاہ چھ جنوری سن 1979 کو ایران چھوڑ گئے۔ مختلف ممالک میں جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے کے بعد سرطان میں مبتلا شاہ ستائیس جنوری سن 1980 کو مصری دارالحکومت قاہرہ میں انتقال کر گئے۔
تصویر: picture-alliance/UPI
طاقت پر قبضہ
ایران میں اسلامی انقلاب کے فوری بعد نئی شیعہ حکومت کے لیے خواتین کے حقوق مسئلہ نہیں تھے۔ ابتدا میں خمینی نے صرف سخت گیر اسلامی قوانین کا نفاذ کرنا شروع کیا۔
تصویر: Tasnim
’فوج بھی باغی ہو گئی‘
سن 1979 میں جب خمینی واپس ایران پہنچے تو ملکی فوج نے بھی مظاہرین کو نہ روکا۔ گیارہ فروری کو فوجی سربراہ نے اس فوج کو غیرجانبدار قرار دے دیا تھا۔ اس کے باوجود انقلابیوں نے فروری اور اپریل میں کئی فوجی جرنلوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPU
نئی اسلامی حکومت
ایران واپسی پر خمینی نے بادشات، حکومت اور پارلیمان کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ تب انہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک نئی حکومت نامزد کریں گے کیونکہ عوام ان پر یقین رکھتے ہیں۔ ایرانی امور کے ماہرین کے مطابق اس وقت یہ خمینی کی خود التباسی نہیں بلکہ ایک حقیقت تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
انقلاب کا لبرل رخ
اسکالر اور جمہوریت نواز سرگرم کارکن مہدی بازرگان شاہ حکومت کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک میں آگے آگے تھے۔ خمینی نے انہیں اپنا پہلا وزیر اعظم منتخب کیا۔ تاہم بازرگان اصل میں خمینی کے بھی مخالف تھے۔ بازرگان نے پیرس میں خمینی سے ملاقات کے بعد انہیں ’پگڑی والا بادشاہ‘ قرار دیا تھا۔ وہ صرف نو ماہ ہی وزیرا عظم رہے۔
تصویر: Iranian.com
امریکی سفارتخانے پر قبضہ
نومبر سن 1979 میں ’انقلابی طالب علموں‘ نے تہران میں قائم امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا اور اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ تب سفارتی عملے کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ یہ انقلابی خوفزدہ تھے کہ امریکا کی مدد سے شاہ واپس آ سکتے ہیں۔ خمینی نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور اپنے مخالفین کو ’امریکی اتحادی‘ قرار دے دیا۔
تصویر: Fars
خمینی کا انتقال
کینسر میں مبتلا خمینی تین جون سن 1989 میں چھیاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کو تہران میں واقع بہشت زہرہ نامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ان کی آخری رسومات میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
تصویر: tarikhirani.ir
علی خامنہ ای: انقلاب کے رکھوالے
تین جون سن 1989 میں سپریم لیڈر خمینی کے انتقال کے بعد علی خامنہ ای کو نیا رہنما چنا گیا۔ انہتر سالہ خامنہ ای اس وقت ایران میں سب سے زیادہ طاقتور شخصیت ہیں اور تمام ریاستی ادارے ان کے تابع ہیں۔
تصویر: Reuters/Official Khamenei website
12 تصاویر1 | 12
اسلامی قوانین کی ایرانی ماہر صدیقہ وسمقی نے اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''ہمیں اس وقت شناخت کے ایک بحران کا سامنا ہے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ گزشتہ 40 برسوں میں مقامی باشندوں کی ایرانی شناخت کو دانستہ یا تو نظر انداز کیا گیا یا پھر دبا دیا گیا۔ لیکن کسی بھی معاشرے میں عام انسانوں کو کسی مشترکہ شناخت کی ضرورت تو ہوتی ہے، جس پر وہ فخر کر سکیں۔‘‘
ریاستی اداروں کی طرف سے کچھ رعایت
ایران میں اس نئے اور پھیلتے ہوئے سماجی رجحان کے پیش نظر ریاستی اداروں نے اب کچھ نرمی دکھانا بھی شروع کر دی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب قدیم ایرانی روایات کے مطابق شادی کرنے والے جوڑروں سے یہ کہا جانے لگا ہے کہ وہ ریاستی قوانین کا احترام کرتے ہوئے دوسری مرتبہ 'نکاح کے ساتھ‘ شادی کریں تاکہ ان کا رشتہ ازدواج میں بندھ جانا قانون کی نظر میں بھی مستند ہو سکے۔
اسی لیے تہران کی تیس سالہ فاطمہ کو بھی قدیم ایرانی روایات کے مطابق اپنی شادی کے بعد اسلامی طریقے سے بھی شادی کرنا پڑی، جس میں صرف ان کے اہل خانہ اور قریبی دوست ہی شریک ہوئے لیکن جس میں اسلامی نکاح کے وقت قرآنی آیات بھی پڑھی گئی تھیں۔
شبنم فان ہائن (م م / ع ب)
ایرانی خواتین کا حجاب کے خلاف انوکھا احتجاج
ایرانی سوشل میڈیا پر کئی ایرانی خواتین نے اپنی ایسی تصاویر پوسٹ کیں، جن میں وہ حجاب کے بغیر عوامی مقامات پر دکھائی دے رہی ہیں۔
تصویر: privat
یہ ایرانی خواتین کسی بھی عوامی جگہ پر اپنا حجاب سر سے اتار کر ہوا میں لہرا دیتی ہیں۔
تصویر: picture alliance /abaca
حجاب کے خاتمے کی مہم گزشتہ برس دسمبر سے شدت اختیار کر چکی ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca
اس مہم کے ذریعے حکومت سے لازمی حجاب کے قانون کے خاتمے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca
1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے خواتین کے لیے سر ڈھانپنا اور لمبا کوٹ یا عبایا پہننا لازمی ہے۔
تصویر: privat
اس قانون کی خلاف ورزی پر کسی بھی خاتون یا لڑکی کو ہفتوں جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: privat
ایرانی حکام کے مطابق یہ ’پراپیگنڈا‘ غیر ممالک میں مقیم ایرانیوں نے شروع کیا۔
تصویر: privat
ایران میں ایسی ’بے حجاب‘ خواتین کو گرفتار کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
تصویر: privat
صدر روحانی کا کہنا ہے کہ عوام کی طرف سے تنقید نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔
تصویر: privat
صدر روحانی نے ایک سرکاری رپورٹ بھی عام کر دی، جس کے حجاب کے قانون کی مخالفت میں اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: privat
اس رپورٹ کے مطابق قریب پچاس فیصد ایرانی عوام لازمی حجاب کے قانون کی حمایت نہیں کرتے۔