’بہت ہو گیا،‘ قطر کے امیر اسرائیل کے حامیوں پر برہم
24 اکتوبر 2023
قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے منگل چوبیس اکتوبر کے روز اسرائیل کی حمایت کرنے والے ممالک پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حماس کے خلاف لڑائی میں اسرائیل کو ’’قتل کی کھلی چھوٹ‘‘ نہیں دی جا سکتی۔
اشتہار
قطری امیر بن حمد الثانی نے قطر کی شوریٰ کونسل سے خطاب میں کہا کہ اسرائیل کی غزہ پٹہ میں بڑے پیمانے پر عسکری کارروائیاں اب رکنا چاہییں۔ شوریٰ سے خطاب میں ان کا کہنا تھا، ''ہم کہتے ہیں کہ اب بہت ہو گیا۔‘‘
دوحہ میں رائل کورٹ کی جانب سے ملکی امیر کے خطاب کا ترجمہ جاری کیا گیا ہے۔ قطری امیر کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں اسرائیل کے دورے پر ہیں۔ ان سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن، جرمن چانسلر اولاف شولس اور برطانوی وزیراعظم رشی سوناک بھی اسرائیل کے دورے کر چکے ہیں۔ سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر بڑے دہشت گردانہ حملے میں چودہ سو اسرائیلیوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا جن میں سے بڑی تعداد عام شہریوں کی تھی۔ حماس کے حملہ آور اس خونریز حملے کے دوران اسرائیل سے دو سو سے زائد افراد کو اغوا کر کے غزہ بھی لے گئے تھے۔
اسرائیلی حکومت نے اس واقعے کے بعد حماس کے خلاف بڑے عسکری آپریشن کا اعلان کیا تھا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو حماس کا موازنہ دہشت گرد تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ‘ سے کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ حماس کو بھی بالکل اسی طرح ختم کیا جانا چاہیے، جیسے عراق اور شام میں فعال 'اسلامک اسٹیٹ‘ کو کیا گیا۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جاری فضائی حملوں میں اب تک پانچ ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔
قطر اور گلف تعاون کونسل، سالوں پر پھیلے اختلافات
حالیہ قطری بحران، خلیجی ریاستوں اور دوحہ حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ کی پہلی مثال نہیں۔ ڈی ڈبلیو نے تصاویر کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں علاقائی کشیدگی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/K. Jebreili
کشیدہ تعلقات اور کرچی کرچی اعتماد
رواں برس پانچ جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اپنے حریف ایران سے تعلقات کے فروغ کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحہ سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ دوحہ حکومت نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف قطر پر پابندیاں عائد کیں بلکہ تعلقات کی بحالی کے لیے تیرہ مطالبات بھی پیش کیے۔ کویت فریقین کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STRINGER
خلیج تعاون کونسل بھی علاقائی عدم استحکام سے متاثر
پانچ مارچ سن 2014 میں بھی سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمون کے ساتھ تعاون پر قطر سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ اخوان المسلمون کو بعض ممالک کے نزدیک دہشت گرد تنظیم خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Elfiqi
عرب اسپرنگ اور خلیجی تعاون کونسل
سن 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی تحریک کے بعد ایسی تحریکیں کئی عرب ممالک میں پھیل گئی تھیں تاہم’عرب بہار‘ نے جی سی سی رکن ریاستوں میں بغاوتوں کی قیادت نہیں کی تھی۔ سوائے بحرین کے جس نے سعودی فوجی مدد سے ملک میں ہونے والے شیعہ مظاہروں کو کچل ڈالا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام
قطر پر سن 2013 میں ہونے والے خلیجی تعاون کونسل کے سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے آٹھ ماہ کے شدید تناؤ کے بعد قطر میں اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/J. Ernst
پائپ لائن تنازعہ
سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات اُس وقت کم ترین سطح پر پہنچ گئے جب ریاض حکومت نے قطر کے کویت کے لیے ایک گیس پائپ لائن منصوبے کو نا منظور کر دیا۔ اسی سال سعودی حکومت نے قطری گیس اومان اور متحدہ عرب امارات لے جانے والے پہلے سے ایک طے شدہ پائپ لائن منصوبے پر بھی احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
سرحدی جھڑپ
سن 1992 میں سعودی عرب اور قطر کے مابین ایک سرحدی جھڑپ میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ قطر نے دعوی کیا کہ ریاض نے خفوس کے مقام پر ایک سرحدی چوکی کو نشانہ بنایا۔ دوسر طرف سعودی عرب کا کہنا تھا کہ قطر نے اُس کے سرحدی علاقے پر حملہ کیا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
سرحدوں کے تنازعات
سن 1965 میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان ان کی سرحدی حد بندی کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا تاہم یہ معاملہ کئی برس بعد بھی مکمل طور پر طے نہیں ہو سکا تھا۔ سن 1996 میں دونوں ممالک نے اس حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تاہم اس کے مکمل نفاذ میں مزید ایک عشرے سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
علاقائی تنازعات
سن 1991 میں دوحہ ہوار جزائر سے متعلق بحرین کے ساتھ ایک تنازعے کو اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے گیا۔ سن 1986 میں بھی دونوں ممالک کے درمیان سعودی عرب کی مداخلت کے باعث عسکری تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بعد میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بحرین کے حق میں فیصلہ دیا تھا جبکہ قطر کو جینن جزائر کی ملکیت دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AA/ C. Ozdel
8 تصاویر1 | 8
قطری امیر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے، ''اسرائیل کو قتل عام کی کھلی چھوٹ ہر گز نہیں دی جانا چاہیے۔ اسرائیل کے فلسطینی علاقوں پر قبضے اور وہاں اسرائیلی آبادی کاری کی حقیقت کو بھی فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ قطر امریکہ کا کلیدی اتحادی ہے اور امریکہ کے ایک بڑے عسکری اڈے کا میزبان بھی ہے۔ دوسری جانب قطر ہی میں حماس کا دفتر بھی قائم ہے، جہاں حماس کے جلاوطن رہنمااسماعیل ہانیہ رہائش پذیر ہیں۔ قطر غزہ میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کے حوالے سے حماس کے ساتھ رابطہ کاری میں بھی مصروف رہا ہے اور غزہ سے اب تک رہا کیے جانے والے چار اسرائیلی مغویوں کی رہائی میں دوحہ کا کلیدی کردار رہا ہے۔