پاکستان کی تاریخ کا ’طویل ترین ترقیاتی منصوبہ‘ لواری ٹنل بلآخر بیالیس برس بعد مکمل ہوگیا۔ ستّر کی دہائی میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شروع ہونے والے منصوبے کا افتتاح وزیراعظم نواز شریف نے کیا۔
اشتہار
وزیراعظم نواز شریف نے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے اپنے سیاسی مخالفین کو حدف تنقید بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ سیالکوٹ کی طرح اپیر دیر میں بھی نواز شریف نے پانامہ لیکس پر سپریم کورٹ کی سماعت کے حوالے سے مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پانامہ لیکس کو جواز بناکر جوکچھ کیا جارہا ہے وہ احتساب نہیں، استحصال ہے اور اس احتساب کو ملک میں کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔
نواز شریف نے کہا کہ انہیں سب سے زیادہ اپنی عزت پیاری ہے اور ’ایسے بے ہودہ الزامات ناقابل برادشت ہیں، روز صبح صبح اٹھ کر استعفٰی کی بھیک مانگنا شروع کردیتے ہیں، کیا نواز شریف ان کے ووٹوں سے وزیر اعظم بنا ہے؟ یہ کھیل تماشے اور سرکس بہت ہوچکے بہت دھرنے دیئے جاچکے عوام نے انہیں 2002 میں ٹھکرایا، 2008 میں ٹھکرایا، پھر 2013 میں ٹھکرایا اور انشااللہ 2018 میں بھی ٹھکرائے جائیں گے‘۔
خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے ملکی وزیر اعظم کا کہنا تھا، ’’ہم نے مخالفین کو موقع دیا کہ کم ازکم نیا خیبر پختونخوا ہی بنالو، لیکن وہ بھی ہم ہی بنا رہے ہیں اور نیا پاکستان بھی نواز شریف ہی بنائے گا۔‘‘ اسٹیج پر بیٹھے چترال سے آل پاکستان مسلم لیگ کے واحد رکن قومی اسمبلی افتخار الدین کو مخاطب کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے کہا، ’’آپ نے علاقے کے لیے جتنے ترقیاتی منصوبے مانگے ہیں، سب کی منظوری دیتا ہوں مگر یہ آپ کی مرضی ہے کہ آل پاکستان مسلم لیگ میں رہیں یا نواز لیگ میں شامل ہوں میری طرف سے کوئی زبردستی نہیں ہے۔‘‘
لواری ٹنل دو حصوں پرمشتمل ہے جس پر مجموعی طور پر 22 ارب روپے لاگت آئی ہے۔ پہلا حصہ تقریباﹰ 9 کلومیٹر اور دوسرا حصہ 3 کلو میٹر پر محیط ہے جو پشاور سے چترال دیر، ملاکنڈ، مردان اور اطراف کے علاقوں کو ملاتا ہے۔ پشاور سے چترال کی چودہ گھنٹے کی مسافت اب نصف وقت میں طے ہوسکے گی۔
خیبر پختونخوا کے دور افتادہ پہاڑی ضلعے، چترال کے عوام کے لیے موسم سرما میں لائف لائن کی حیثیت رکھنے والی ملک کی سب سے بڑی سرنگ پر کام کا آغاز 1975 میں ہوا تھا، تاہم ملک میں تیسرے مارشل لا کے نفاذ کے بعد جنرل ضیاالحق نے فنڈز کی عدم دستیابی کو جواز بنا کر کام روک دیا تھا۔ گیارہ سال قبل جنرل مشرف نے ٹنل کی تعمیر کا کام دوبارہ شروع کیا، مگر ریل ٹنل کو روڈ ٹنل میں تبدیل کردیا گیا جس کے باعث بھی یہ منصوبہ مزید تاخیر کا شکار ہوا۔
ٹنل کی تعمیر سے چترال اور اطراف کے علاقوں میں آباد پانچ لاکھ سے زائد افراد کو ہر موسم میں سفر کی سہولت دستیاب ہوگی۔ ٹنل کے منصوبے میں چار پل اور دونوں جانب رابطہ سڑکیں بھی شامل ہیں جس سے تین گھنٹے کا سفر اب محض پندرہ منٹ میں طے کیا جاسکے گا۔ دوسری ٹنل کی تعمیر سے پہاڑی کا بیشتر حصہ ختم ہوگیا ہے اور اب گاڑیاں ایک ٹنل سے نکل کر ایک پل کو عبور کرتے ہوئے دوسری ٹنل میں داخل ہوجائیں گی۔
مبصرین کے مطابق لواری ٹنل کا منصوبہ ایسے وقت میں مکمل ہوا ہے جب نواز شریف سیاسی طور پر مشکل حالات کا سامنا کررہے ہیں لہذا عوامی خطابات کے ذریعے مخالفین خصوصاٰ عمران خان کو جواب دینے اور اپنے آپ کو اعصابی طور پر مضبوط ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد اور جڑواں شہر راولپنڈی میں نئی میٹرو بس سروس کا افتتاح ہو گیا ہے۔ اربوں کی لاگت سے 23 کلومیٹر طویل یہ منصوبہ تیرہ ماہ میں مکمل ہوا۔ ان بسوں کو روزانہ ایک لاکھ 35 ہزار مسافر استعمال کریں گے۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
مسافروں کے لیے سہولت
اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان روزانہ سفر کرنے والوں نے میٹرو بس منصوبے کی تکمیل کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب عام مسافر شدید گرمی میں کم کرایہ ادا کر کے ایئر کنڈیشنڈ بسوں میں سفر کر سکیں گے اور انہیں پبلک ٹرانسپورٹ کا گھنٹوں کھلے آسمان تلے انتظار بھی نہیں کرنا پڑے گا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
شہر کے حسن میں اضافہ
رات کے وقت اسلام آباد میں معروف تجارتی مرکز بلیو ایریا کی جناح ایونیو پر واقع میٹرو بس سروس کے ایک اسٹیشن کا منظر۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس میٹرو منصوبے سے راولپنڈی اور اسلام آباد کے حسن میں اضافہ ہو گا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
بدلتا پاکستان
پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے 45 ارب روپے کی لاگت سے مکمل کیے گئے راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس منصوبے کا افتتاح جمعرات چار جون کو اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا، ’’میٹرو بس منصوبہ دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان بدل رہا ہے۔‘‘
تصویر: DW/Shakoor Raheem
تکمیل میں چھ ماہ کی تاخیر
میٹرو بس منصوبے کی تعمیر کا آغاز گزشتہ برس راولپنڈی میں ستائیس مارچ کو اور اسلام آباد میں تئیس اپریل کو کیا گیا تھا۔ اسے ابتدائی طور پر سات ماہ میں مکمل کیا جانا تھا تاہم یہ منصوبہ چھ ماہ کی تاخیر سے تیرہ ماہ کے عرصے میں مکمل ہوا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
تئیس کلومیٹر طویل ٹریک
میٹرو بس سروس کے لیے جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد میں عام شہریوں کے لیے آمد و رفت کے بہتر مواقع کی خاطر مجموعی طور پر 23 کلومیٹر طویل سگنل فری ٹریک بچھایا گیا ہے۔ اس ٹریک کے دونوں جانب خوب تزئین و آرائش کی گئی ہے۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
خوبصورت میٹرو اسٹیشن
ابتدائی طور پر اس منصوبے کے لیے ترکی سے اڑسٹھ ایئر کنڈیشنڈ بسیں منگائی گئی ہیں۔ منصوبے کے تحت دونوں شہروں میں میٹرو کے کُل چوبیس اسٹیشن بنائے گئے ہیں جہاں سے یہ بسیں مجموعی طور پر یومیہ ایک لاکھ پینتیس ہزار مسافروں کو سفری سہولیات مہیا کریں گی۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
ناقدین کا موقف
ناقدین میٹرو بس منصوبے کو اربوں روپے کا ضیاع قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ رقوم بجلی کے بحران کے شکار پاکستان میں توانائی کے شعبے کی بہتری کے لیے خرچ کی جانا چاہییں تھیں یا انہیں جڑواں شہروں میں صحت کی بہتر سہولیات کے لیے استعمال میں لایا جاتا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
’غریب شہری کی سواری‘
وزیر اعظم نواز شریف اور اس منصوبے کے خالق پنجاب کے وزیر ا علیٰ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ میٹرو بس غریب شہری کی سواری ہے۔ اس سے نہ صرف لاکھوں مقامی شہری فائدہ اٹھائیں گے بلکہ اقتصادی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہو گا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
دوران تعمیر مشکلات
اس منصوبے کی تعمیر کے دوران راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہریوں کو سٹرکوں کی کھدائی، چوراہوں کی بندش اور بہت زیادہ گرد و غبار کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ حکام کے مطابق عوام ایک بار کی تکلیف کے بعد اب مستقل سکھ کا سانس لے سکیں گے۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
سیاسی دھرنوں کا نقصان
میٹرو منصوبے کی تعمیر گزشتہ سال دسمبر میں مکمل ہونا تھی تاہم اگست میں اپوزیشن کی پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے 2013ء کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج اور شاہراہ دستور پر طویل دھرنوں کے سبب بظاہر اس منصوبے کی تعمیر میں مقررہ سے زائد وقت لگا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
قدرتی ماحول پر برے اثرات کم
اس منصوبے کے لیے درختوں کی کٹائی رکوانے کی خاطر تحفظ ماحول کی تنظیموں نے اسلام آباد ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا تھا۔ حکومت اعلیٰ عدلیہ کو قائل کرنے میں کامیاب رہی کہ اس منصوبے کے قدرتی ماحول پر منفی اثرات بہت کم ہوں گے اور متبادل شجرکاری کا بندوبست بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
عوامی دلچسپی
جمعرات چار جون کے روز کنونشن سینٹر میں میٹرو منصوبے کے افتتاح کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے میٹرو بس میں سفر کیا۔ سکیورٹی کے بہت سخت انتظامات کیے گئے تھے جبکہ مختلف اسٹیشنوں پر عام لوگ بھی میٹرو بسوں کو چلتا دیکھنے کے لیے جمع تھے۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
تاجران پُرامید
میٹرو منصوبے کے راولپنڈی میں ایک حصے کا منظر۔ شہر کے تاجروں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے باعث سب سے زیادہ مالی نقصان انہوں نے برداشت کیا۔ لیکن اب وہ خوش ہیں اور پُرامید بھی کہ بس سروس شروع ہونے سے ان کا کاروبار چمکے گا۔