بیجنگ نئی ترقیاتی پالیسی تشکیل دے، عالمی بینک
28 فروری 2012عالمی بینک کا مطالبہ ہے کہ چین میں نجی شعبے کو زیادہ سے زیادہ ترقی دی جائے اور مضبوط بنایا جائے۔ اس کے علاوہ چینی منڈیوں کو بیرونی پیداواری اور تجارتی اداروں کے لیے بھی زیادہ سے زیادہ کھولا جانا چاہیے۔
عالمی بینک نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ بیجنگ حکومت کو اپنی مالیاتی سیاست میں اصلاحات لانی چاہییں اور اس شعبے میں چین اور مغربی ملکوں میں زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی ہونی چاہیے۔ یہ رپورٹ عالمی بینک نے چین کے ایک سرکردہ اقتصادی ادارے کے ساتھ مل کر تیار کی ہے اور اس حوالے سے بیجنگ حکومت خاصی پرامید ہے۔
چینی وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ عوامی جمہوریہ چین اپنے ہاں مزید اصلاحات متعارف کرائے گا اور خاص طور پر داخلی طلب میں اضافے کی کوشش کی جائے گی۔
چینی وزیر خزانہ شی شُورین کہتے ہیں،’ہم اپنی معیشت کے ڈھانچے میں اصلاحات کے عمل کو پوری توانائی سے جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں داخلی طلب میں اضافے کو اسٹرکچرل ریفارمز کے لیے پالیسی بنیاد کی حیثت سے دیکھنا ہو گا‘۔
چین عالمی معیشت میں ترقی کے عمل میں اہم کردار ادا کرنے والی ایک بڑی طاقت سمجھا جاتا ہے۔ لیکن وہاں مجموعی قومی پیداوار میں گزشتہ مالی سال کے دوران ہونے والا اضافہ صرف نو فیصد رہا تھا، جو ماہرین کے نزدیک اتنا کم تھا کہ اس ترقی میں عوام کی بہت بڑی اکثریت کی شمولیت کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا تھا۔
اسی پس منظر میں دنیا میں آبادی کے لحاظ سے اس سب سے بڑے ملک کے بارے میں عالمی بینک کے صدر رابرٹ زوئلک کہتے ہیں، ’میری رائے میں اقتصادی لحاظ سے چین ایک سافٹ لینڈنگ میں کامیاب رہے گا۔ مجھے آج کے چین میں کوئی اقتصادی بحران نظر نہیں آتا‘۔
چین میں اب تک جو بھی اقتصادی ترقی دیکھنے میں آئی ہے، اس سے بہت سے چینی باشندوں نے فائدے اٹھائے ہیں۔ لیکن اس کے ضمنی اثرات بھی ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ چینی حکومت کسی بھی طرح کی اقتصادی بدحالی یا عدم اطمینان کی وجہ سے عوام کے احتجاج اور سماجی بدامنی کے واقعات سے بچنے میں کامیاب رہی ہے۔
یہ بھی ایک وجہ ہے کہ بیجنگ حکومت آئندہ بھی ملک میں اقتصادی ترقی کی مسلسل کافی اونچی شرح میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔
رپورٹ: زاشا قیصر / مقبول ملک
ادارت: کشور مصطفٰی