1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

بیروت کے مضافات میں حزب اللہ کے ہیڈ کواٹرز پر اسرائیلی حملہ

27 ستمبر 2024

لبنانی دارالحکومت کے مضافات میں حملے جمعے کو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے یو این جی اے میں خطاب کے فوری بعد کیے گئے۔ حزب اللہ کے زرائع کا کہنا ہے کہ اس حملے میں چھ عمارتیں مکمل تباہ ہو گئیں۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے حزب اللہ کی سینٹرل کمانڈ کو نشانہ بنایا ہے
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے حزب اللہ کی سینٹرل کمانڈ کو نشانہ بنایا ہےتصویر: Emilie Madi/REUTERS

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے بیروت کے جنوبی مضافات میں حزب اللہ کی سینٹرل کمانڈ کو نشانہ بنایا ہے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان رئیر ایڈمرل ڈینئیل ہگاری نے آج بروز جمعہ کہا کہ یہ حملہ حزب اللہ کے ہیڈ کواٹرز پر کیا گیا ہے۔ حزب اللہ سے منسلک المنار ٹی وی پر اسرائیلی حملے کے بعد اٹھنے والے سیاہ دھوئیں کے بادل دکھائے گئے۔

لبنانی زرائع ابلاغ کے مطابق حملے کے فوری بعد اس علاقے میں بڑے پیمانے پر ایمبولینسوں کو جاتے دیکھا گیا۔ لبنانی دارلحکومت بیروت کے مضافات میں داہیہ پر جمعے کی شام کیے گئے اسرائیلی حملے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (یو این جی اے) میں اسرائیلی وزیر اعظم کی تقریر کے ختم ہونے کے تھوڑی دیر بعد کیے گئے۔

 بینجمن نیتن یاہو کا کہنا تھا، ''میرا ملک جنگ کا شکار ہے، وہ اپنی زندگی کے لیے لڑ رہا ہے۔ ہمیں ان وحشی قاتلوں کے خلاف اپنا دفاع کرنا ہوگا۔ وہ صرف ہمیں تباہ نہیں کرنا چاہتے، وہ ہماری مشترکہ تہذیب کو تباہ کرنا چاہتے ہیں اور ہم سب کو ظلم اور دہشت کے تاریک دور میں واپس لانا چاہتے ہیں۔‘‘

بیروت کے مضافات مین جس جگہ حملہ کیا گیا وہ حزب اللہ کا گڑھ سمجھا جاتا ہےتصویر: AFP/Getty Images

نیتن یاہو کا یہ بیان  ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب اسرائیل جنوبی لبنان میں ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ کے ٹھکانوں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ لبنانی وزیر صحت کے مطابق ہفتے کے روز اسرائیلی حملوں میں پچیس افراد ہلاک ہوئے، جن میں ایک ہی خاندان کے نو افراد بھی شامل تھے۔ جبکہ لبنانی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں سات سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

دریں اثنا، اپنی تقریر میں اسرائیلی  وزیر اعظم نے اس تنازعے کا الزام اسرائیل کے روایتی دشمن ایران پر عائد کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل سات محاذوں پر تہران کے خلاف اپنا دفاع کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا، ’’ایران میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں اسرائیل مار نہیں کر سکتا اور یہ پورے مشرق وسطیٰ کے بارے میں سچ ہے۔‘‘ نیتن یاہو نے تالیاں بجاتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوجیوں نے بھیڑوں کی طرح قتل عام کا شکار ہونے کی بجائے ناقابل یقین جرات کے ساتھ صورتحال کا مقابلہ کیا ہے۔‘‘ ان کی اس تقریر کے دوران ایرانی اور کچھ  دیگر مندوبین ہال سے باہر چلے گئے۔

نیتن یاہو نے کہا، ''میرے پاس اس اسمبلی اور اس ہال سے باہر کی دنیا کے لیے ایک اور پیغام ہے کہ ہم جیت رہے ہیں۔‘‘

 نیتن یاہو مزید کہا تھا کہ اسرائیل آنے والے دنوں میں لبنان کے لیے جنگ بندی کی تجاویز پر بات چیت جاری رکھے گا جبکہ واشنگٹن نے خبردار کیا ہے کہ مزید کشیدگی سے اطراف کے شہریوں کی وطن واپسی مشکل ہو جائے گی۔

اسرائیلی حملوں میں حزب اللہ کے جنگجوؤں کے ساتھ ساتھ عام لوگ بھی مارے جا رہے ہیںتصویر: Louisa Gouliamaki/REUTERS

اسرائیل کے وزیر خارجہ نے جمعرات کے روز ایران کے حمایت یافتہ حزب اللہ گروپ کے ساتھ جنگ بندی کے عالمی مطالبے کو مسترد کر دیا تھا ۔ لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں پر جاری اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہو چکے ہیں اور علاقائی جنگ کے خدشات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ غزہ میں جنگ اس صورت میں ختم ہو سکتی ہے، جب ایران کی حمایت یافتہ حماس کے عسکریت پسند جنہوں ہتھیار ڈال دیں اور غمالیوں کو واپس کر دیں۔

یاد رہے کہ غزہ میں جنگ کا آغاز حماس کے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے سے ہوا تھا، جس کے نتیجے میں 1205 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

حماس کے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے 251 یرغمالیوں میں سے 97 اب بھی غزہ میں قید ہیں، اسرائیلی فوج کے مطابق جن میں سے 33 ہلاک ہو چکے ہیں۔

حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت کی طرف سے گزشتہ روز جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں اسرائیلی جوابی فوجی کارروائیوں میں کم از کم 41،495 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر عام شہری ہیں۔ اقوام متحدہ نے ان اعداد و شمار کو قابل اعتماد قرار دیا ہے۔

روئٹرز، اے ایف پی، اے پی (ع ب/ ش ر / ع ا)

حزب اللہ کے پیجرز اچانک کیسے پھٹ پڑے؟

02:13

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں